Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

نسل پرستانہ قومی جمہوری ریاست کا تصور

by | Dec 15, 2020

اوریا مقبول جان

اوریا مقبول جان

اوریا مقبول جان
بھارت کے شہر ممبئی کے بیچوں بیچ، انیسویں صدی میں قائم ہونے والی ’’ممبئی یونیورسٹی‘‘ کا تعمیر شدہ کانوکیشن ہال، وکٹورین اور جدید اکھڑا (Gothic) طرزِ تعمیر کے ملاپ کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ آج سے تقریباً ایک سال قبل اور کشمیر کے بارے میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے فوراً بعد ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ’’صہیونیت اور ہندوتوا‘‘ (Zionisim & Hindutva)۔ کانفرنس میں ان دونوں نظریات کے بدنام پرچارک، بھارت کی راجیہ سبھا کے رکن ’’سبرامینن سوامی‘‘ اور یروشلم کی عبرانی (Hebrew) یونیورسٹی کے پروفیسر ’’گادی تواب‘‘ (Gadi Taub)مقررین کے طور پر مدعو تھے۔ممبئی میں موجود اسرائیلی قونصل جنرل نے اس تقریب کا افتتاح کیا۔ ہال کے باہر صہیونیت کے بانی ،آسٹریاکے ’’تھیوڈر ھزل (Theodor Herzl) اور ہندوتوا کی فکر کے مصنف ’’ساورکر‘‘ کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔
اسٹیج سیکرٹری اور ماڈریٹر کے فرائض کیلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا تھا جس نے ساورکر کی سوانح “The True stoy of the father of Hindutva” (ہندوتوا کے بانی کی سچی داستان) تحریر کی تھی۔ یہ شخص وبھاؤ پراندرے، تقریب کے دوران ساورکر کی خدمات اور تصورات کے بارے میں وقفے وقفے سے اظہارِ خیال کرتا رہا۔ سبرامینن سوامی کی گفتگو بھارت اور یہودیوں کے ہزار سالہ تعلقات سے متعلق تھی، لیکن اسرئیل کے متعصب صہیونی نظریات رکھنے والے پروفیسر گادی تواب نے لوگوں کو ایک حیرتناک سحر میں مبتلا کیے رکھا۔ اس کی گفتگو کا موضوع ’’صہیونیت اور ہندوتوا کے نظریات میں مشترکات‘‘ (Similarities) تھا۔
اس نے ان دونوں نظریات اور بھارت و اسرائیل کے نظام کے نچوڑ کے طور پر دنیا کے امن اور فلاح کے لئے نئی طرزِ حکومت کا ایک بالکل انوکھا تصور پیش کیا۔ اس نے کہا کہ کوئی بھی قومی جمہوری ریاست اسی وقت پر امن اور خوشحال ہو سکتی ہے، جب وہ صرف اور صرف ایک ہی نسل یا ایک ہی قوم کے رہنے والے افراد پر مشتمل ہواور وہ انہی کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرے۔ یہ تصور دنیا کے سامنے پہلی دفعہ پیش نہیں کیا گیا، بلکہ گذشتہ پچاس سالوں سے اسرائیلی پروفیسر اور دنیا بھر کے یہودی مفکرین اسے پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ قومیت کے اس ’’جدید‘‘ تصور کی بنیاد، ہندوتوا کے ’’فکری باپ‘‘ ساوریکر کے 1930ء میں صہیونیت کے بارے میں لکھے گئے مضمون سے لیتے ہیں- ساورکر نے لکھا تھا کہ یہودی قومیت اپنے چار اجزائے ترکیبی
(1) نسل
(2) مذہب
(3) ثقافت اور
(4) زبان
کی وجہ سے ایک قوم ہے جس کی تکمیل کے لئے زمین بھی چاہیے، ویسے ہی بھارت کی قومیت بھی انہی اجزائے ترکیبی سے ترتیب پائی جانی چاہیے۔ اس تصور پر سب سے زیادہ کام اسرائیل کے پروفیسر ’’سامی سموہا‘‘ (Sammy Samoha) نے کیا ہے۔ اس کے نظریات کا نچوڑ اس فقرے میں ہے:
“An alternative non civic form of democratic state that is identified with and subservient to a single ethnic nation”
ترجمہ: ’’ایک ایسی متبادل جمہوری ریاست جس کی بنیاد شہریوں پر نہ ہوبلکہ وہ ایک خاص نسلی قوم کے طور پر پہچانی جائے اور اسی کے مفادات کا تحفظ کرے‘‘۔
اس کے نزدیک ایسی ریاست کے شہری (Citizen) صرف ایک خاص قومیت کے لوگ ہوں گے، جبکہ اقلیتی قومیت کے لوگ غیر شہری (Non Citizen) کہلائیں گے۔ ان تمام مفکرین کے نزدیک اسرائیل کی ریاست اس تصورکی بہترین مثال ہے۔ ایسی ریاست میں اقلیتی غیر شہری آبادی، جیسے اسرائیل میں عرب ہیں ان کے اور شہری آبادی یعنی یہودیوں کے مابین حقوق، فرائض، مرتبہ و مقام اور حیثیت میں ایک واضح فرق ہونا چاہیے۔ ان ’’غیر شہری‘‘ افراد کو ہمیشہ، نا مناسب اور خوف دلانے والے (Undesirable and Threatening)،
نسلی خالص پن کو خراب کرنے والے (Agents of Biological Dilution)،
آبادیاتی دلدل کی علامت (Demographic Swamping)،
ثقافتی بگاڑ کے نمائندے (Cultural Degeneration)،
سیکورٹی کے لئے خطرہ (Security Threats) اور دشمن ملک کے ایجنٹ (Fifth column for enemy state) کی حیثیت سے ہی سمجھا جانا چاہیے۔ ان غیر شہری اقلیتوں کو کسی طور پر بھی اکثریت سے برابری کے حقوق نہیں دیئے جا سکتے۔
یہی وہ چھ منفی تصورات ہیں جو بھارت کی ’’ہندوتوا آئیڈیالوجی‘‘ کے پرچارک، 15فیصد مسلمان آبادی کے بارے میں اکثریتی ہندوؤں کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تصور اب محض ایک نظریہ یا آئیڈیالوجی نہیں رہا، بلکہ بھارت میں ایک ’’ریاستی پالیسی‘‘ کے طور پر لاگو بھی ہو چکا ہے۔ نظریاتی طور پر *’’نسل پرستانہ قومی جمہوری ریاست‘‘* میں سب سے بڑی تقسیم شہری (Members) اور غیر شہری (Non members) کے درمیان کی جاتی ہے اور بھارت اور اسرائیل میں یہ آئیڈیالوجی نافذ ہے۔ اسرائیل اور بھارت میں اس کا سرکاری طور پر نفاذ، گیارہ دسمبر 2019ء اس وقت ہوا جب شہری قانون 1953ء میں ترمیم کرتے ہوئے سکھ، ہندو، بدھ،
جین، پارسی اور عیسائیوں کو ایک علیحدہ بلند مرتبے والا گروہ تصور کیا گیا اور مسلمانوں کو ان شہری حقوق سے خارج کر دیا گیا۔
ان دونوں ممالک نے جو نسل پرستانہ جمہوریت کا تصور دیا ہے، اس کے مطابق اسرائیل میں عرب اور بھارت میں مسلمان دونوں کو مکمل طور پر ’’خانہ شہریت‘‘ سے خارج نہیں کیا گیا بلکہ ان کے کچھ ثقافتی اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے حقوق کو بحال بھی رکھا گیا ہے۔لیکن ان حقوق کے باوجود اسرائیل اور بھارت کی ریاستوں میں رسمی و غیر ورسمی مروجہ قانون سازی ایسی کی گئی ہے جو صرف اور صرف یہودیوں اور ہندوؤں کے مفاد کو سامنے رکھ کر کی بنائی اور نافذ العمل کی گئی ہے۔ ان تمام پالیسیوں کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو بزورِ قوت ایسی آبادیوں میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے، جو تمام شہری سہولیات سے عاری ہوں اور انیسویں صدی کے گھیٹو (Ghatto) کا منظر پیش کرتی ہوں۔ یوں وہ نہ صرف قانونی طور پر دوسرے درجے کے شہری کہلائیں گے بلکہ اپنی بود و باش کے اعتبار سے بھی دوسرے درجے کے انسان نظر آئیں گے۔
نسل پرستانہ جمہوری قومی ریاستوں کی دو اور مثالیں بھی اس وقت دنیا میں موجود ہیں۔پہلی سری لنکا کہ جب برطانیہ سے آزاد ہوا تو وہاں سنہالی زبان بولنے والے بدھوں کی اکثریت تھی ،جو تقریباً 71 فیصد تھی۔ اس اکثریت نے اقتدار پر ایسے قبضہ کیا کہ عملی طور پر باقی بارہ فیصد ہندو، دس فیصد مسلمان اور آٹھ فیصد عیسائیوں کو مذہب، زبان اور نسل کی بنیاد پر دوسرے درجے کا شہری تصور کیا گیا۔ سری لنکا کے تامل اس ’’نسل پرستانہ جمہوریت‘‘ کے ظلم و بربریت کی بدترین مثال ہیں۔ دوسری مثال کروشیا کی ہے جس نے اس نسل پرست جمہوریت کے قیام کیلئے اپنے تیرہ لاکھ مسلمان شہریوں کو ملک سے نکال دیا، لاکھوں کو قتل کیا گیا اور جو رہ گئے انہیں بدترین شہری سہولتوں والے علاقوں تک محدود کر دیا گیا۔
ممبئی کی’’صہیونیت اور ہندوتوا‘‘ کانفرنس میں ان چار ملکوں کی مثال دے کر اس تصور کی مدح سرائی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسی طریقے سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ ایسا طرز حکومت جس میں ہر ملک میں صرف ایک مذہب کے پیروکار، صرف ایک زبان بولنے والے اور صرف ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے آباد ہوں اورکسی اور قوم کا وہاں کوئی دخل نہ ہو۔ یہ انہی کا ملک ہو اور وہی اس میں جیسے چاہیں جمہوری طور پر اپنا حکمران منتخب کریں یا اپنا کوئی اور نظام چلائیں۔ ایسے ملکوں میں رہنے والے اقلیتی لوگ صرف محکوم بن کر ہی رہ سکتے ہیں یا پھرمذہب تبدیل کر لیں یا اپنے ہم مذہب، ہم قوم اور ہم زبان ممالک کی طرف ہجرت کر جائیں۔ *اکثریت کی آمریت یعنی جمہوریت کا اصل روپ یہی ہے۔* آج یہ ناسور صرف چار ممالک تک محدود ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...