Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گر ہے کہ نہیں!

by | Dec 15, 2020

Asadullah
ڈاکٹراسداللہ خان
کیا اسکول اور کالج جانے والے طلباء کوویڈ۔ 19نامی وباء  سے متاثر ہوئے ہیں؟  جب یہ سوال والدین، اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے کیا گیا تو لگ بھگ سبھی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کوویڈ 19 نے طلباء و طالبات کی ذہنی صحت پرگہرا اثر ڈالا ہے۔ 65 فی صدی سے زائد طلباء و طالبات میں ذہنی بیماری،عادات و اخلاق اور رویّے کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ذہنی بیماری طلباء کی تحریک، حوصلہ افزائی، توجہ و انہماک اور سماجی روابط کو متاثر کرتی ہے۔ ذہنی صحت کی تشخیص اور دیکھ بھال کا صحیح نظم نا ہونے کی وجہ سے نفسیاتی علامات کے باوجود بچوں میں ذہنی صحت کے مسائل عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ طلباء میں ڈپریشن، نفسیاتی الجھنوں کے بعد خود کشی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح وبائی مرض کے ان ایام میں بھی طلباء کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔ بچوں میں ڈپریشن، الجھن، اپنوں سے دوری کا خوف،جسمانی حرکات میں انجماد، معاشرتی سرگرمیوں کا رک جانا اور دوڑتی بھاگتی دنیا کہ اچانک ٹھہر جانے سے تمام بچے اور طلباء دباو کا شکار ہوئے ہیں۔ انفیکشن کے خدشات سے مایوسی میں مبتلا بچے سہم گئے۔ ناکافی معلومات کی وجہ سے نفسیاتی طور پر زبردست دباو میں رہے اور ہیں۔جو اس بات کو سمجھ رہے ہیں وہ  یہ بات جانتے ہیں کہ ملک میں طلباء کی ایک بڑی تعداد کی ذہنی صحت کو کوویڈ نے متاثر کیا ہے۔طلباء کی ذہنی صحت پر اس منفی ا ثر نے ان کی تعلیمی کامیابی کی راہ میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ کالج کے طلباء کی ذہنی صحت پر موجودہ وبائی امراض کے اثرات کا اندازہ لگانے کی اشد ضرورت ہے اور  والدین واساتذہ کو  مل کر اس کے حل کی جانب پیشقدمی کرنی چاہئے۔ سب سے طلباء کے تناو کی سطح کا صحیح اندازہ لگایا جانا چاہئے، ان کے ساتھیوں کی ذہنی حالت اور تناو کے بارے میں معلومات حاصل کی جانی چاہئے،اس کے بعد بچوں میں اضطراب اور بے چینی کا پتہ لگا کر اس کے علاج کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کا بیمار رہنا یا اپنے گھر کے کسی فرد کی بیماری سے خوفزدہ ہونا،پھردور نزدیک سے اموات کی خبریں، نیند کی عادت اور اوقات میں تبدیلی، کھانے کے اوقات اور عادات میں بدلاو، مالی صورتحال یا رہائشی ماحول میں تبدیلی نے نہ صرف بچوں کے تعلیمی ماحول اور سرگرمیوں کو بدلا بلکہ ان کے سماجی اور معاشرتی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔اسکرین پر نظریں گاڑے رہنے کی، جسمانی حرکات میں کمی کی وجہ سے بچوں کے وزن بڑھ گئے، پیٹھ میں درد، آنکھوں میں تکلیف یا سرکا بھاری پن جیسی شکایات موصول ہوئیں۔بچوں میں لاپرواہی، ضد یازیادہ دیر تک توجہ نا مرکوز کرپانے جیسے مسائل بھی سامنے آئے۔ نئی تبدیلی کی وجہ سے کچھ بچے اکثرافسردہ رہنے لگے اور کچھ کے ذہنوں میں خودکشی تک کے خیالات نے جنم لیا۔ ایسے حالات میں انھیں سائیکاٹرسٹ اور ذہنی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ طلباء جو اپنی تعلیمی کارکردگی کے لئے پریشان تھے اور غیریقینی تعلیمی  و معاشی حالات کے بارے میں فکرمند تھے انھیں اساتذہ کے آن لائن رابطے سے سنبھلنے میں کافی مدد ملی۔ اسکول اور کالجز کی آن لائن لرننگ، نصاب میں کمی اورامتحانات کے طریقے میں تبدیلی سے کافی راحت محسوس ہوئی۔
اب یہی  دیکھئے  نا کوویڈ نے ماں باپ، بچے، اساتذہ، مینیجمنٹ تقریباً ہر ایک کے سوچنے اور کام کرنے کا طریقہ تبدیل کر دیا ہے۔ عام سوچ کے مطابق اسکول اب کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا ہے۔ حالانکہ یہی اسکول ہے جو بچوں کی سماجی تربیت گاہ ہے۔ جہاں بچے دوست بناتے ہیں،ٹیم بناتے ہیں، مل جل کر کھیلتے ہیں اور دیگرسماجی و معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، اسی اسکول کی دنیا میں بچے تیار ہوتے ہیں سماج کیلئے  ایک کارآمد موادبنتے ہیں، اساتذہ ان کے نگراں اور ذمے دار بن کر ماں باپ کی طرح ان کی تربیت کرتے ہیں۔ کیا اسکول سے کٹ کر بچے کی مجموعی نشو ونما اور ترقی متاثر نہیں ہوگی۔روزانہ اسکول جانا، اپنے ساتھیوں سے ملنا، اساتذہ سے روبرو ہونا، کھل کر اپنی باتیں رکھنا، ٹیچر کے سامنے ادب سے کھڑا ہونا، ٹیچر کی باتیں سننا اور اپنی بات رکھنا سب کچھ اچانک بدل سا گیا۔ کوویڈ کے بعد دنیا ہی بدل گئی، اسکول بدل گئے، اساتذہ بھی بدلے۔بہلک بورڈ سے اسکرین تک اور نو موبائل سے سوئچ آن یور موبائل نے سب کچھ بدل ڈالا۔ زوم کی دنیا میں کلاس روم  اسکول والا کلاس روم اسکول کا کمرہ جماعت نہیں رہا۔ کیا اس سے پہلے کبھی ٹیچر کو بار بار یہ پوچھنا پڑتا تھا کہ کیا  میں قابل سماعت ہوں؟ نہیں نا۔ لیکن ذرا لمحے بھر کو ٹھہر کر ذرا یہ سوچئے کہ کیا  آپ کے ٹیچر کا کام بڑھ نہیں گیا۔ اس کی محنت میں اضافہ نہیں ہوا۔اچانک ٹیچر کو نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہونا نہیں پڑا۔ لیکن اس نے اس سے انکار نہیں کیا۔ کس لئے؟  تاکہ آپ کے بچے تعلیم سے جڑے رہیں۔ اسکول جسے آپ  اپنے بچے کا دوسرا گھر سمجھتے ہیں بچے اس سے جڑے رہیں اور جیسے ہی حالات نارمل ہوں وہ دوبارہ اسکول جاکر اپنے تعلیمی عمل کو جاری رکھ سکیں۔ آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا۔ اسکولیں آن لائن ہی کام کررہے ہیں۔ اسکول، کلاس روم، بچے اور اساتذہ کی حقیقی دنیا سے نکل کر بچے ایک مجازی دنیا میں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے لئے انھیں اب اسکول نہیں آنا پڑتا لیکن کیا ہر ایک موجودہ طرزِ تعلیم سے مطمئن ہے؟ جب یہ سوال فکرمند اور ذمے دار والدین سے کیا گیا تو اکثریت نے یہی کہا کہ بچے اپنے اسکول کے ماحول، اپنے ہم عمر ساتھیوں اور اساتذہ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ والدین بھی جو اپنے بچوں کو بلاناغہ اسکول بھیجا کرتے تھے اور وہ والدین بھی جو بچوں کو روزانہ اسکول بھیجنا ایک بوجھ سمجھتے تھے، آج تقریباً سبھی والدین چاہتے ہیں کہ اسکول جلد سے جلد کھلیں۔ اساتذہ کے لئے بھی بچونں سے خالی اسکول کاٹنے کو دوڑتا ہے۔
آج جب کے بچوں کے نفسیاتی مسائل بڑھ گئے ہیں، دوسری طرف  بچوں کے سامنے بھی ایک نئے طریقے سے پڑھنے اور سیکھنے کا چیلنج ہے وہیں ان بچوں میں جذباتی اتار چڑھاو، احساس عدم تحفط، غیریقینی کے خدشات، وسائل کی کمی اور کسی اپنے یا بڑے کی ذاتی توجہ سے محرومی، ایک لمبے عرصے سے اپنی دنیا سے دوری نے  انھیں الجھن اور ڈپریشن میں مبتلاء کردیا ہے۔ حالانکہ انھیں موبائل کی شکل میں ایک نیا ساتھی ضرور مل گیا ہے۔ لیکن اسکا عادی بن جانے یا لت کا شکار ہوجانے کی صورت میں دوسری کئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔اب ان کے سامنے جانے انجانے ایک دوسری دنیا کھل جاتی ہے جس کے خطرات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور نقصانات کی بھرپائی نہیں کی جاسکتی۔ تعلیمی عمل میں تبدیلی کی وجہ سے بچوں کی بے چینی اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی لت کی وجہ سے قابل اعتراض مواد بھی ان کے ناپختہ ذہنوں پر اثرانداز ہورہا ہے۔ وہ سرکش بھی ہورہے ہیں اور نافرمان بھی۔ ہر نیا دن نئے مسئلے کے ساتھ آن کھڑا ہوتا ہے۔ والدین الگ پریشان ہیں لیکن اسکولی ماحول کے نا ہونے، اپنے ساتھیوں سے دوری، اور اکیلے پن نے بچے کی ذہنی صحت پر مرتب ہوتے منفی اثرات کاایک سیلاب رواں کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ والدین، اساتذہ، اور بچوں کے دوسرے رول ماڈلز کی مشترکہ کوششیں اور پرورش ہماری معاشرتی ترقی  کے لئے ناگزیر ہے۔ اب چونکہ والدین پر دوہری ذمے داری عائد ہوتی ہے، لہذا  والدین کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی کے تقاضوں کے پورا کرتے کرتے تھکے ہارے والدین اپنی منصبی ذمے داریوں کوکما حقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اب والدین کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اساتذہ کا ان کے بچوں  کی تعلیم وتربیت اور پرداخت میں ایک اہم کردار ہے۔ اس کی کمی کا اثر بچوں کی زندگی اور رویے میں صاف دیکھا جارہا ہے اس لئے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اسکول واپس جائیں تاکہ اساتذہ ان کے بچوں کے دوسرے گھر یعنی اسکول میں ان کے دوسرے ماں یا باپ بن کر بچوں کی شخصیت اور کردار کی تعمیر میں اپنا رول ادا کریں۔آج جب فکرمند والدین سے بات ہوتی ہے تو ان کی باتوں سے یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسکول کی تعلیم اور ماحول بچوں کی زندگی میں کلاس روم میں حاضری اور پڑھائی سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اسی لئے اب طلباء کی عمدہ ذہنی صحت کے لئے والدین، اساتذہ کے ساتھ مل کربچوں کی زندگی میں پیدا اس خلاء کو پُر کرنا چاہتے ہیں۔ والدین کو یقین ہے صحیح اسکولنگ کاکوئی متبادل نہیں ہے۔ اسکول، اساتذہ اور والدین کی مشترکہ کوششیں تعلیم کے تمام حصّے داروں کے مفاد میں ہے۔طلباء یہ بات بھی محسوس کررہے ہیں کہ فی الحال، ملک بدترین کساد بازاری کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ڈر لگا ہوا ہے کہ ان کے مستقبل کا کیا ہوگا، کیاا سکول کالجز کھلیں گے، کیا امتحانات ہو پائیں گے، کیا آگے پڑھ کر انھیں ملازمت ملے گی؟  ہماری حکومتوں کو طلباء کی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ اپنی حکومتوں کو بچانے اور دوسروں کی سرکاروں کو گرانے کے کھیل میں لگے ہوئے ہیں۔ انھیں اس سے کیا کہ بچے دباو محسوس کر رہے ہیں، ان کی ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پردھان سیوک سے لے کر دیگر تمام منتریوں تک کسی نے طلباء کو مخاطب نہیں کیا۔کسی کی توجہ اس بنیادی پریشانی پر مرکوز نہیں ہے جو بچوں کو دباؤ میں مبتلا کرتی ہے، ان کی ذہنی صحت اور خوشی کی فکر کسے ہے؟ ہمارے ملک ہندوستان کو اسکول کی سطح پر جدت کی ساتھ طلباء کی ذہنی صحت اور خوشی کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا میری آواز اس برادری تک پہنچے گی جو تعلیم کے اس عظیم کام کے حصے دار بھی ہیں۔ اگر ہاں تو ہم امید کرسکتے ہیں کہ طلباء کی فلاح و بہبود اور ان کے مستقبل کی سمت میں مثبت قدم اٹھایا جائے گا۔(انشاء اللہ)

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...