پی ایم کیئر فنڈ کے نام پر بدعنوانی کو ڈھیل دی گئی ہے۔ ایس ڈی پی آئی

سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا

نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ‘پی ایم کیئر فنڈ ‘کے نام پر بدعنوانی کو ڈھیل دی گئی ہے۔ پارٹی نے بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا کوویڈ 19کیلئے قائم کیا گیا وزیر اعظم کیئر فنڈ نجی ہے یا سرکاری ٹرسٹ ہے۔ آ ر ٹی آئی کے استفسار کے ذریعہ ایک کارکن کے انکشاف کے بعد پارٹی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب کارپوریٹ وزرات نے 28مارچ کو آفس میمورینڈم جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم کیئر فنڈ کو ‘مرکزی حکومت کے ذریعہ قائم کردہ فنڈ ‘سے تعبیر کیاتھا۔ تاہم، ٹرسٹ دستاویز میں ایک دن پہلے کہا گیا تھا کہ یہ ٹرسٹ حکومت کے تحت چلنے والی نہیں ہے۔ لہذا وزیر اعظم کیئر کارپوریٹ عطیات کے اہل نہیں ہوسکتی ہے۔ 28مارچ کو کارپوریٹ وزرات نے اسے کمپنی ایکٹ کے سی سی آر فنڈ لینے کی منظور ی دیدی۔ پی ایم کیئر فنڈ ایک نجی ادارہ تھا جو کارپوریٹ چندہ وصول کرتا تھا۔ پی ایم کیئر فنڈ کے تعلق سے ایس ڈی پی آئی قومی جنر ل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آر ٹی آئی کے سوالات سے بچنے کیلئے یہ نجی ٹرسٹ ہے۔ کارپوریٹ چندہ وصول کرنے کیلئے یہ سرکاری ٹرسٹ ہے۔ یہ طاقت کا سراسر غلط استعمال ہے۔ اگر بی جے پی حکومت کرتی ہے تو وہ بدعنوانی کے معنی میں نہیں آتی ہے، لیکن اگر کوئی دوسر ا ایسا کرتا ہے تو شوروغل مچایا جاتا ہے۔ یہ سراسر منافقت ہے۔ ہندوستانی عوام اس طرح کی دن دہاڑے ڈکیتی کو کب سمجھیں گے؟۔ اتنے بڑے فنڈ میں کیوں کوئی احتساب نہیں ہوتا ہے۔ اگر یہ پبلک فنڈ ہے اور جو بھی اس میں حصہ ڈال رہا ہے تو پھراخراجات عوامی ڈومین پر ہونے چاہئیں یا عوام تک قابل رسائی ہوں۔ جب آپ کو قانونی یا غیر قانونی طور پر کثیر رقم مل جاتی ہے اور اس کا کوئی احتساب نہیں ہوتا ہے، تو پھر اسے کرپشن کہا جاتا ہے۔ لہذا، ای ڈی اور سی بی آئی کی تحقیقات کرنے کیلئے یہ ایک بہترین معاملہ ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی جنر ل سکریٹری نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بنا آڈٹ کئے پی ایم کیئر فنڈ کن منصوبوں پر خرچ ہوا ہے؟۔ اسے کوئی آڈٹ نہیں کرسکتا ہے، نہ ہی جانچ کرسکتا ہے اور نہ ہی تصدیق کرستکا ہے، کیا یہ بدعنوانی نہیں ہے؟۔ اگر یہ آڈٹ نہیں کیا گیا ہے تو یہ کالا دھن کے برابر ہے۔ جو اراکین کو خریدنے اور سیاسی مہم پر خرچ کیا جارہا ہے۔ ان روپئیوں کے طاقت کا استعمال کرکے بی جے پی تمام پاور/پیسوں کے بھوکے سیاستدانوں کو خریدے گی۔ جن کے پاس اخلاقی اقدا ر نہیں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کی شناخت تضاد ہے، ان کے الفاظ ان کے عمل سے متصادم ہیں، ان کے ہونٹ ملک کی فلاح و بہبودی کیلئے تبلیغ کرتے ہیں جبکہ ان کے ہاتھ نجی گجراتی کاروباری افراد کیلئے کام کرتے ہیں۔ الیاس محمد نے سوال کیاہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم، کسی نجی کمپنی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟۔ ہماری عدلیہ آزاد نہیں ہے ورنہ بی جے پی کی ان بدعنوانیاں پکڑ میں ضروری آتیں۔ اگر نوٹ بندی، رافیل، انتخابی بانڈز اور وزیر اعظم کیئر فنڈ جیسے 4معاملات کی غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں تو ہندوستان کے عوام بی جے پی کا بڑا بدعنوانی کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔ جہاں کانگریس بدعنوانی میں بی جے پی کے قریب کھڑے ہونے کی بھی اہل نہیں ہوگی۔ الیاس محمد نے یہ سوال بھی اٹھا یا ہے کہ بی جے پی پورے ملک میں ہر ضلع میں کیسے اپنے دفاتر تعمیر کرسکتی ہے؟۔بی جے پی کے اثاثے اتر پردیش یا دہلی کے بجٹ سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ لہذا، ہندوستان کو بی جے پی نے اغوا کرلیا ہے۔ اب وہ ہندوستان کو لوٹیں گے اور اتنا نقصان پہنچائیں گے جتنا کے کانگریس نے اپنے 60سالہ اقتدار میں نہیں کیا تھا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ قانونی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرکے سرکاری ملازمین کیا کررہے تھے؟۔ الیاس محمد تمبے نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح سے ریاست کا ہر وزیر اعلی نجی فنڈ قائم کرسکتا ہے اور سی ایس آر کارپوریٹ عطیات کے تحت کارپوریٹ چندہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے وہ ہندوتوا کی وجہ سے مودی حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے۔ ابھی حقیقت یہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *