نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے اتر پردیش میں گزشتہ ماہ جاری کئے گئے ایک آرڈیننس (اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب آرڈیننس2020)، پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جس کا مبینہ طور پر غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس آرڈیننس میں تبدیلی مذہب سے پہلے دو ماہ قبل ضلعی مجسٹریٹ سے اجازت لینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں غلط بیانی’طاقت،ناجائز اثر و رسوخ، جبر، سازش، یا کسی دھوکہ دہی کے ذریعہ یا شادی کے ذریعہ کسی بھی طرح کے مذہبی تبدیلی کی ممانعت ہے۔ قانون میں یہ بھی نمایاں طور پر کہا گیا ہے کہ ان شادیوں کی اجازت نہیں ہوگی جو ‘غیر قاونی طور پر تبدیلی یا اس کے برعکس واحد مقصد کیلئے کی گئیں ہو۔ محمد شفیع نے نئے تبدیلی مذہب قانون سازی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کا مقصد نام نہاد ‘لوجہاد ‘کے معاملات کو روکنا ہے۔ انہوں نے اس قانون کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس کے آئینی جواز کو برقرار رکھنے کیلئے معجرہ کی ضرورت ہوگی۔ یہ آرڈیننس آئینی جواز کے امتحان سے نہیں بچ سکے گا کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی کرتاہے جو مذہب، ذات پات اور صنف سے قطع نظر اس ملک کے ہر شہری کی ذاتی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ ایسا عجیب و غریب قانون آج تک نہیں دیکھا گیا ہے اور لو جہاد لوگوں کو تقسیم کرنے کے مقصد سے مذہبی انتہا پسندوں کی تخلیق ہے۔ اس آرڈیننس کے تازہ ترین غلط استعمال میں ایک مسلمان شخص اور اس کے بھائی، جنہیں غیر اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جیل بھیجا گیا تھا۔ انہیں 19دسمبر 2020کو ضلع مراد آباد میں قید میں تقریبا دو ہفتے گذارنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ اتر پردیش پولیس ان کے خلاف جبری طور پر تبدیلی مذہب کا کوئی ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع نے مزید کہا ہے کہ نئے قانون میں اس کی متعدد دفعات مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے اور یہ قانون ہندوستانی آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف اور لبرٹی پر وار کرتا ہے۔ یہ آرڈیننس زبردست عوامی فساد کے قابل ہے۔ کسی بھی مجرمانہ کیس میں تبدیلی مذہب کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ ثبوت کا بوجھ عام طور پر استغاثہ پر ہوتا ہے۔ اس آرڈیننس میں ہر مذہبی تبدیلی کو غیر قانونی تصور کیا جارہا ہے۔ ثبوت کا بوجھ اس شخص پر پڑتا ہے جس پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کا الزام لگایا گیا ہے اور اسے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ غیر قانونی نہیں ہے۔اس آرڈیننس کے ذریعہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور علیحدگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ محمد شفیع نے سوال اٹھایا کہ غیر قانونی تبدیلی مذہب کیلئے کس طرح شادیاں کی جاسکتی ہیں، جیسا کہ قانون میں تصور کیا گیا ہے اور اس با ت کی طرف نشاندہی کی ہے کہ اس طرح کی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی ا س کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ محمد شفیع نے مطالبہ کیا ہے کہ اس آرڈیننس کو فوری طور رپ ختم کیا جائے اور یقینی طور پر اسے قانون بننے کی اجازت نہ دی جائے۔آئین کے ذریعہ ضمانت دی گئی ان آزادیوں کی تباہی کو روکنے کی فوری ضرورت ہے جو صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...