Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی

by | Jan 1, 2021

عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ ذکریا

نیا سال آگیا ۔کیلینڈر بدل گیا ۔لیکن کیا دنیا بدل گئی ؟وہی صدیوں پرانا بوڑھا سورج اور وہی دن اور رات کی گردش لیکن دیکھا جائے تو پچھلے ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
سالِ نو میں ان حالات میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ یہ تو صرف اللہ رب العزت کو معلوم ہے ۔ہاں ہم خیر کی دعا کی کرسکتے ہیں اور بہتری کی امید بھی ۔
۱۹۱۸ کے اسپینش فلُو کے بعد یہ سب سے بڑی وبائی بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو ایک طرح سے مفلوج کر دیا ہے ۔اسپینش فلُو نے ۵۰۰ ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا ،اس کووڈ ۱۹ کے ذریعہ کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں ،اسکے اعدادوشمار کا ابھی صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہواہے بل کہ یہ ایک نئی شکل میں نمودار ہوکر اور بھی خطرناک ہو گیا ہے ۔وائرس کی موجودگی سے انکار اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ہاں وہ کس حد تک خطرناک ہے ؟اس پر ضرور بحث ہوسکتی ہے اور اس پر بھی کہ کیا اس سے نمٹنے کے لئے لاک ڈاؤن ضروری تھا ؟
اور کیا یہ نیچرل ہے یا اسے کسی لیباریٹری میں تیار کیا گیا ہے؟فلموں سے شوق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ contagion نام کی ایک فلم جو سنہ ۲۰۱۱ میں بنائی گئی وہ اسی موضوع سے متعلق ہے اور تصور اور تصویر کے ذریعہ جو کچھ بھی پردہِ سیمیں پر دکھایا گیا تھا بعینہ وہی کچھ ہم آج کی دنیا میں دیکھ رہے ہیں ۔اتفاق یا سازش؟آپکی اپنی صوابدید پر منحصر ہے ۔
بیسوی صدی میں بڑی تباہیاں آئیں ۔دو بڑی جنگیں لڑی گئیں ۔نئے ملک وجود میں آئے ۔قحط سے لاکھوں لوگ فوت ہو گئے ۔گریٹ ڈپریشن کی شکل میں ایک بہت بڑی اقتصادی بدحالی کا دنیا کو سا منا کرنا لیکن پوری دنیا محصور ہو جائے ،ایسی صورتِ حال کبھی نہیں آئی ۔اسپینش فلُو جن لوگوں نے دیکھا ،اسمیں سے آج شاید ہی کوئی زندہ ہو لیکن ہماری جنریشن نے جو دیکھا ہے وہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اس وبا سے نپٹنے کے لئے لاک ڈاؤن کا سہارا لیا اور جو ممالک جتنے زیادہ غریب تھے ،وہاں لاک ڈاؤن اتنا ہی سخت تھا ۔غربت ،کثرتِ آبادی اور وسائل کی قلت کو مدِ نظر رکھا جائے تو شاید یہ اسٹرییجی صحیح معلوم ہو لیکن اس نے جوقیامت پر نچلے طبقے پر ڈھائی ہے اسکا صحیح اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے ۔مڈل کلاس بھی پریشان ہے لیکن غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے اپنے بنیادی حق ،یعنی پیٹ میں کھانا اور سر پر چھت،دونوں سے محروم ہو چکے ہیں ۔
ہم نے اپنا بچپن ایک گاؤں میں گزارا ہے اور دوسری جنگِ عظیم میں ،برما سے پیدل چل کر آنے والوں لوگوں کی کہانیاں سنی ہیں۔خود ہمارے گاؤں میں ایک غفار دادا ہوا کرتے تھے جو برما سے چل کر آئے تھے لیکن نہ تو اس زمانہ میں شعور تھا اور نہ وسائل کہ انکی داستان کو ڈاکومینٹ کیا جائے ،ہاں اس لاک ڈاؤن نے اس منظر کی یاد ضرور تازہ کر دی ہے ۔ہماری نگاہوں کے سامنے مجبور اور مقہور لوگ قافلہ در قافلہ پیدل چلتے رہے اور بے حسی کی ایک داستان رقم ہوتی رہی۔ابھی پچھلے مہینہ ایک ڈاکومینٹری کے سلسلہ میں، بھیونڈی میں ایک مزدور سے بات چیت ریکارڈ کی تھی ،جو ۱۵۰۰کلومیٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں مہراج گنج گیا تھا ۔وہ اس راہ پر چلنے والا اکیلا مسافر نہیں ہے ۔ہزاروں ایسی ہی داستانیں بکھری ہوئی ہیں ۔برما سے آنے والوں کے مقابلہ میں یہ لوگ ان معنوں میں خوش قسمت ہیں کہ انکی داستان کیمروں میں ریکارڈ ہوکر تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔کبیر خان نے The forgotten Army کے نام سے ایک دستاویزی فلم ضرور بنائی ہے لیکن وہ سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے بارے میں ہے جو جاپانیوں کے دوش بدوش انگریزوں سے لڑ رہی تھی۔عام آدمی کے مسائل ویسے بھی مارکیٹیبل marketable نہیں ہوتے ہیں ۔
سالِ گزشتہ ہمیں کیا سکھایا گیا؟ایک تو یہ کی زندگی بہت مختصر ہے ۔موت ایک بہت ہی عامہ الورود واقعہ ہے اور روز لوگ اس سے زیادہ تعداد میں مرتے ہیں جتنے کرونا میں مرے ہیں ،لیکن ہمارے اعصاب متاثر نہیں ہوتے ہیں کیونکہ انکی تعداد نہ تو اخباروں میں آتی ہے اور نہ ٹیلویزن اسٹوڈیو میں اس پر بحث ہوتی ہے ۔کرونا نے موت کو ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے۔نہ جانے کتنے عزیز اسکی بھینٹ چڑھ گئے ۔موت اور زندگی کے بیچ کا دورانیہ کتنا مختصر ہو سکتا ہے ،یہ سب لوگوں نے دیکھ لیا ۔عقلمند وہی ہے جو اس سے سبق لے اور اپنے اوقات کا بہتر استعمال کرے ۔لاک ڈاؤن نے جہاں بہت سارے مسائل کھڑے کئے ہیں ،وہیں جینے کے نئے انداز بھی سکھایا گیا ہے۔ضرورت اور لکژری کے بیچ کا فرق اس سے زیادہ بین کبھی نہیں تھا ۔اسی طرح فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا ایسا کبھی موقع نہیں ملا تھا(کبھی کبھی یہ بہت irritating بھی ہو سکتاہے،خاص طور سے بیویوں کے لئے )۔اسکے طفیل امورِ خانہ داری میں مدد کی عادت بھی پڑ گئی ہے ( دوسروں کا پتہ نہیں، میں نے بے بہت بے دلی سےیہ کام کیا ہے)اور سب سے بڑھ کر وقت کی قیمت ۔وقت دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز ہے اور اگر ہم اس کی اہمیت سے واقف ہو گئے تو یہ کووڈ سے سیکھا گیا سب سے بڑا سبق بھی ہے اور سالِ نو کا سب سے بڑا تحفہ بھی
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
نیا سال مبارک ہو۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...