دعا مومن کا نہ چوکنے والا انتہائی خطرناک ہتھیار ہے

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق

(۱) ’’پھر جب حج کے ارکان ادا کر چکو توجس طرح پہلے اپنے باپ د ادا کا ذکر کرتے تھے،اُسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو ، بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر۔‘‘(البقرہ:۲۰۰)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ ‘‘ (احزاب : ۴۱)
قرآن میں دعا کو ذکر بھی کہا گیا ہے۔ذکر کا اصل مطلب ہے اللہ کو یاد کرنا۔جب جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو گویا وہ اللہ سے دعا کرتا ہے۔نماز ادا کرنا، قرآن کو سمجھ کر عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا،تسبیح اور حمد و ثنا کرنا،اللہ سے فریاد اور منت کرنا یہ سب کچھ دعا ہے۔عرب کے مشرکین حج ادا کرنے کے بعد مجلس جما کر اپنے باپ دادا کی بڑائی کیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب باپ دادا کی جگہ اللہ کو باپ دادا سے بھی بڑھ کر یاد کیا کرو۔
(۲) ’’لہٰذا تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو۔‘‘(البقرہ:۱۵۲)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ بندے کویہ خوش خبری دے رہا ہے کہ جب بندہ اللہ کو کسی بھی شکل میں یاد کرتا ہے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے۔اوپر بتائی ہوئی شکلوں میں اللہ کو یاد کرنا اُس کا شکر ادا کرنا ہے۔جو بندہ اللہ کو یاد نہیں کرتا ہے وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔بندہ جو چاہتا ہے وہ نہیں ملنے پرمایوس ہوتا ہے اور اللہ نے جو بیشمار نعمتیں دے رکھی ہیں اُن کو نہیں دیکھتا اور اُن کا شکر ادا نہیں کر کے کفر کرنے کا گناہ کرتا ہے۔
(۴) ’’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اُسی کے ہو رہو۔‘‘(مزمل:۸)
اس آیت میںدعا کرنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس با ت کا یقین رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی نہ تمہاری دعا سن سکتا ہے اور نہ تمہاری کوئی مدد کرسکتا ہے۔یعنی اللہ کے سوا سب کو بھول جاؤ۔جو لوگ وسیلے سے دعا مانگنے کی بات کرتے ہیں، وہ دراصل اس آیت کا انکار کرتے ہیں۔وسیلے سے دعا مانگنے والے کی توجہ اللہ کی طرف نہیں،اُس ہستی کی طرف رہتی ہے جس کے وسیلے سے وہ دعا مانگ رہا ہوتاہے۔
(۵) ’’اے ایمان لانے والو جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو قدم جمائے رکھو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے رہو، امید ہے کہ تمہیں کامیابی ملے گی۔‘‘(انفال:۴۵)
دشمن سے مقابلے کے وقت،اعلیٰ درجہ کا ہتھیار،جنگ کرنے کے اصول و آداب سے آگاہ ہونا ،عقل مندی کے ساتھ مقابلہ کرنا،اور ہر موقع کا اچھا استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے۔یہ سب باتیںتدبیر کا حصہ ہیں۔اعلیٰ درجہ کی تدبیر کرنے کے بعد اس یقین کے ساتھ اللہ سے دعا مانگنا کہ جب تک اللہ کی مدد نہیں آئے گی،دشمن سے مقابلہ کرکے اُس کوشکست دینا ممکن نہیں ہے۔جو لوگ اپنے کاموں میں دنیاوی تدبیر تو کرتے ہیں لیکن اللہ سے دعا نہیں کرتے وہ دراصل اللہ کی قدرت اور طاقت کا انکار کرتے ہیں۔غزوۂ بدر میں نبی ﷺنے جنگ کی بہترین اور فول پروف تیار ی کرنے کے بعد اللہ سے اس قدر گڑگڑا کر دعائیں مانگی تھیں کہ ابوبکر صدیق ؓ تڑپ اٹھے اور بولے اے اللہ کے نبی،اب بس کیجئے ،بیشک، یقینا اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور قبول کرے گا۔
(۶) رسول اللہﷺنے فرمایا:میں تم کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے ذکر کی تلقین کرتا ہوں۔ ذکر کی مثال ایسی سمجھو جیسے ایک آدمی کا اُس کے دشمن نہایت تیزی سے پیچھا کر رہے ہوں،اور وہ بھاگ کر کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے لے، اسی طرح بندہ شیطان سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے ،مگر اللہ کی یاد سے۔(ترمذی)
نبی ﷺ اللہ سے دعا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ شیطان ہر وقت انسان کا دشمن بن کر اُس کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔بندہ جب اللہ کو یاد کرتا ہے اور اُس سے دعا کرتا ہے تو جیسے وہ ایک مضبوط قلعہ میں آ جاتا ہے جہاں اُس کا دشمن شیطان اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
(۷) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اُس سے ناراض ہوتا ہے‘‘(ترمذی)
اس حدیث میں بتایا جارہا ہے کہ جو بندہ اللہ سے دعا نہیں کرتا، اور صرف اپنی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ اُس سے ناراض اور ناخوش ہوتا ہے۔غور کیجئے کہ جس بندے سے اللہ ناخوش ہو گیا اُس کی تدبیر کامیاب کیسے ہوگی؟
(۸) ’’حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ دعا ہر اُس مصیبت کو دور کرتی ہے جو آئی ہو یا نہ آئی ہو۔اے اللہ کے بندو! خود پر دعا کو لازم کر لو‘‘(ترمذی)
یہاں دعا کی تاکید کرتے ہوئے بتایا جارہا ہے کہ بندہ جب ہر وقت نماز میں اور نماز سے باہر بھی اللہ کو یاد کرکے دعا کرتا رہتا ہے تو اُس کو آنے والی مصیبت سے بھی نجات مل جاتی ہے اور اُس مصیبت سے بھی نجات مل جاتی ہے جو ابھی آئی نہیں ہے۔یعنی دعا حال اور مستقبل دونوں کی مصیبتوں سے نجات کی ضمانت بن جاتی ہے۔
(۹) ’’سلمانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بیشک تمہارا رب حی ّ اور کریم ہے، جب بندہ دعا کے لئے اُس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو بندے کو خالی ہاتھ لوٹاتے اُسے شرم آتی ہے۔‘‘(ترمذی، ابو داؤد، بیہقی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے ۔بندے کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے اللہ کو شرم آتی ہے۔چنانچہ جاننا چا ہئے کہ بندے کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔لیکن بندے کی دعا اُس وقت قبول نہیں ہوتی ہے جب وہ اللہ کی نافرمانی کرنے اور گناہ کرنے پر ڈھیٹ اور اللہ کے غضب سے نڈر ہو جاتا ہے۔کن لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے؟ یہ میں نے پچھلے مضمون میں’’آپ کی دعا قبول نہیں ہوگی! کیوں؟لکھ دیا ہے۔
(۱۰) ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بندہ جب تک گناہ، قطع رحم(رشتہ داروں سے بے تعلقی) اور جلدی نہیں کرتا تو اُس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ! جلدی سے کیا مراد ہے ؟ نبیﷺ نے فرمایا :دعا کرنے والا یہ کہے کہ میں نے دعا کی مگر اُس کی قبولیت کی کوئی علامت میں نے نہیں دیکھی اور دعا کو قبول نہ ہوتا دیکھ کر تھک کر بیٹھ جائے۔‘‘(مسلم)
بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شکایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی دعا قبول نہیں کر رہا ہے۔اس حدیث میں بتایا جارہا ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میںدعا کر کے اپنا مقدمہ دائر کر دیا۔اب مقدمہ کب کھلے گا اور اُس کا فیصلہ کب ہوگا اس کا فیصلہ کرنا تمہارا کام نہیں ہے۔اُس وقت کا انتظار کرتے رہو جب مقدمے کا فیصلہ ہوگا۔اگر دوسرے فریق نے بھی اللہ کے دربار میں مقدمہ دائر کررکھا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ کون فریق حق پر ہے ۔ناحق دعا کو اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہیں کرے گا۔
کچھ لوگ نوکری کی دعا کرتے رہتے ہیں اور نوکری نہیں ملتی ہے تو مایوس ہو جاتے ہیں کہ اُن کی دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔اُن کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو روزی دینے کاوعدہ کیا ہے۔نوکری کے ذریعہ روزی ملے گی اس کا وعدہ نہیں کیا ہے۔جس کو نوکری نہیں ملی ہے اُس کو روزی تو مل ہی رہی ہے،تو اللہ سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ نوکری دلا دے نامناسب بات ہے۔ہوسکتا ہے کہ دعا کرنے والے کی روزی روٹی کا انتظام اللہ نے نوکری کی جگہ کسی اورذریعہ سے کر رکھا ہو۔اللہ اور اُس کے نبیﷺ کے نزدیک نوکری کے ذریعہ روزی کمانا بہت گھٹیا اور ذلیل بات ہے۔
(۱۳) ’’حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنی جانوں کے لئے، اپنی اولاد کے لئے، اپنے اموال کے لئے بد دعا نہ کرو،ایسا نہ ہو کہ اُس وقت دعا کی قبولیت کا موقع ہو اور تمہاری دعا قبول ہو جائے‘‘ (مسلم)
کچھ لوگ ناسمجھی میں اپنی اولاد کو یا اپنی زمین،جائیداداورتجارت کو لعنت کرتے ہیں یا بد دعا دیتے ہیں۔ اُ ن کو نہیں معلوم کہ دن بھر میں ایک وقت آیسا آتا ہے کہ جو بھی اُس وقت دعا کر رہا ہوگا اُس کی دعا قبول ہو جائے گی۔ اب اگر اُسی وقت اُس نے بد دعا کر دی تو اُس کی بد دعا قبول ہو جائے گی اور اُس فر د کی اولاد اور سامان پر آفت آ جائے گی۔لعنت بھیجنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اُس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا۔
(۱۴) ’’حضرت سلمان فارسی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’قضا کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر میں زیادتی صرف نیکی سے ہوتی ہے‘‘ (ترمذی)
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے اُس کو سمجھنے میں لوگوں نے بہت دھوکہ کھایا ہے اور الجھے ہیں، کہ تقدیر جب طے ہو گئی تو پھر وہ بدلے گی کیسے۔قضا کا مطلب ہوتا ہے اللہ کا فیصلہ۔ یعنی کیا اللہ اپنا فیصلہ بدل بھی سکتا ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ تقدیر کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ تقدیر میں تو کچھ اور تھا دعا کی وجہ سے کچھ اور ہو گیا۔جب یہ بات معلوم ہی نہیں ہو سکتی ہے تو اس پر بات کیوں کی جاتی ہے ؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اُس کا بندہ گناہ کر کے سزا اور عذاب کا حقدار بن جائے گا،پھر وہ دعا کرے گا اور اُس کی دعا کی بدولت اُس کو عذاب سے چھٹکارا مل جائے گا۔یعنی دعا کے سبب عذاب کا ٹل جانا ہی تقدیر تھی۔قرآن میں یہ واقعہ موجود ہے کہ یونسں کی قوم نے جب اپنے نبی کی نافرمانی کی تو اُس پر عذاب آنے کا فیصلہ ہوگیا اور یونس ںکو یہ بات معلوم بھی ہوگئی۔اوروہ قوم کو چھوڑکر چلے گئے۔حالانکہ اللہ نے اُن کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔چنانچہ اس کی وجہ سے مچھلی اُن کو نگل گئی اور پھر اُن کی دعا سے اُن کو نجات ملی۔ادھر قوم عذاب آتا دیکھ کر سجدے میں گر پڑی اور عذاب واپس چلا گیا۔یعنی دعا کے سبب عذاب کا ٹل جانا ہی تقدیر تھی۔صارمؔ کہتے ہیں:

خدا سے توڑ کے رشتہ نہ جی سکو گے یہاں
اُسی کے در پہ ضرورت ہے سر جھکانے کی
بنا سکے گا نہ بگڑی کوئی تمہاری کبھی
جتن کرو کوئی اللہ کو منانے کی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *