خطاب بنام گفتگو

ڈاکٹر عمير انس

ڈاکٹرعمیر انس فلاحی
ڈاکٹرعمیر انس 

گفتگو اور تقریر میں فرق تو سبھی جانتے ہیں، گفتگو کا مقصد سامنے والے کو اپنی دلیل سے اور اپنے انداز گفتگو سے متاثر کرنا اور مطمئن کرنا، خطاب کا مخاطب متعین لوگ نہیں بلکہ عام اور خاص کا مجموعہ جسکو خطیب اپنے انداز گفتگو اور دلائل سے متاثر کرنا چاہتا ہے، اس سادہ سی تعریف سے آپکو لگےگا کہ شائد گفتگو واحد ہے اور اگر لوگ زیادہ ہوں تو وہ خطاب لیکن اصل بات اب شروع ہوا چاہتی ہے،
ہم جب مدرسے گئے تو وہاں دھواں دار تقریر کرنے کی تربیت دی گئی، کوئی شعلہ بیان مقرر تو کوئی طوطی ہند، کوئی خطیب ملت تو کوئی خطیب ذیشان، کوئی مناظر اسلام تو کوئی لذیذ البیان بلکہ سلطنت قول و کلام کے شہنشاہ خطابت بھی بننا چاہتا تھا، یہ مقررین کہیں احتراما بلاہے جاتے تھے کہیں پیسے دیکر کرایے پر بلاہے جاتے تھے، یہ مقرر کی صلاحیت پر مبنی تھا کہ وہ کتنا اعزازیہ طلب کرے، مقرر کی خوبی کے لحاظ سے ہی مجلس میں اسکی ترتیب لگتی، اگر شہنشاہ خطابت ہے تو پھر سارے سستے مقرر نپٹانے کے بعد ہی اس خطیب کو منظر عام پر لایا جاتا ہے، مسلم عوام بھی قطعی طور پر خطابت کے آداب سے واقف ہے، ایک بار غلطی سے بھی شہنشاہ خطابت پہلے تقریر کردے تو مجال ہے کہ باقی مقررین کے لئے وہ صبر کے ساتھ میدان میں رکی رہے، ایک بار تو ہم خود شہنشاہ خطابت بن کر گئے تھے، گئے کیا تھے زبردستی لے جائے گئے تھے، رات کے تقریبا دو بجے میرا نمبر آیا اور مجھے نیند سے جگا کر جلسے میں لے جایا گیا، وہاں جاکر معلوم ہوا کہ میرے فورا بعد اصلی شہنشاہ خطابت کی تقریر ہے، یعنی میں جونیئر شہنشاہ تھا،
جب ہم جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں گئے تو وہاں بھی ہفتہ وار جلسہ ہوتا تھا لیکن اسکو سیمنار کہتے تھے، وہاں بھی تقریر ہوتی تھی لیکن اسکو ٹاک کہتے تھے، ٹاک کے بعد سامعین خطیب صاحب کے ارد گرد حلقہ عقیدت نہیں بلکہ سوالات کے پھول پیش کرتے ہیں، اور صدر جلسہ کتنے سوالات کیے گئے اسکی بنیاد پر مقرر کی گفتگو کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، اگر آپ وہاں گئے ہیں اور اپ سے سوال نہیں پوچھے گئے ہیں تو آپ یقین کر لیں کہ آپ کی تقریر یا تو سب کو پہلے سے پتا تھی یا اس میں کوئی وزن نہیں ہے، اساتذہ اپنے طلبہ کو سوالات کرنے کی تاکید کرتے تھے، اور مقرر سیمنار کے بعد اچھے سوال کرنے والے سے الگ سے مل کر شکریہ اور تعریف کرتا تھا، سوال کرنا بے عزتی ہوتی ہے یہ بات تو حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی، وہاں جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں نے قسم کھا لی میں اب خطاب نہیں کرونگا، الا ماشا اللہ چند عدد خطابات کے علاوہ میرا دامن خطابت سے محفوظ رہا، ہاں اسکی بھرپائی گفتگو سے خوب خوب کی گئی، یعنی ٹاک والی گفتگو سے، چار سال پہلے لکھنو کے ایک قدیم مدرسے کے بیحد بزرگ شخصیت کی خدمت میں حاضر ہوا، نیت تھی کی حضرت سے کچھ مذاکرے کا موقع مل جائے، مجھے یہ دیکھ کر کچھ بھی حیرت نہیں ہوئی کہ خطابت کی کثرت کی وجہ سے وہ ذاتی مجلسوں میں، احباب میں اور مجمعے میں گفتگو کرنے کا فرق کرنا ہی بھول گئے ہیں، ہر وقت اور ہر مجلس انکے لئے خطاب کی مجلس ہے، میں ایسے کئی دوستوں اور ہم جماعت ساتھیوں کا ساتھی بھی ہوں جو بسا اوقات میرے ہی اوپر خطابی مشق کرنے سے باز نہیں آتے، بیچ میں روک کر انھیں بولنا پڑتا ہے کہ آپ اسٹیج پر نہیں ہیں میرے ساتھ چاہے پی رہے ہیں،
یہ یادداشت قلمبند کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ترکی میں بھی مذھبی حلقہ دیکھنے کو ملا، یہاں بھی مقررین اور خطیبوں کی جماعت ہے، البتہ ایک فرق بیحد نمایاں ہے کہ یہاں کے مذھبی مقررین یعنی خطاب کاران تقریبا گفتگو اور ٹاک کے ماحول میں ہوتے ہیں، زیادہ تر مجلسیں سوال و جواب سے ہی ختم ہوتی ہیں، مقرر کی گفتگو سے صف جھلکتا ہے کہ وہ سامعین کو بیوقوف نہیں سمجھتا، اسکو جاہل سمجھ کر نہیں بولتا، انکا انداز گفتگو افہام اور تفہیم والا ہوتا ہے، سوال اور جواب والا ہوتا ہے، دعوا اور اعلان والا نہیں ہوتا، رد اور تردید والا نہیں ہوتا، تحقیر اور تنکیر والا نہیں ہوتا، یہاں تک کہ انکی آواز بھی بالعموم بہتے پانی کی طرح محسوس ہوگی، سمندر کی طرح پر شور نہیں یا اسکی لہروں کی طرح شدید نہیں، مجھے نہیں معلوم کی ہندوستان میں ایک بھی ایسا مسلمان مقرر ہے جو شری شری روی شنکر کی طرح ایک گھنٹے تک بغیر آواز اونچی کیے ایک لاکھ لوگوں کے
مجمعے کو خطاب کرتا ہو، یہاں تو بھیڑ دیکھ کر جوش خطابت تو اور شباب چڑھتا ہے، میں بہت سارے ایسے جلسے دیکھتا ہوں جس میں صرف دس لوگ بیٹھے ہیں اس میں بھی درس قران دینے والا یا درس حدیث دینے والا ایسے گفتگو کرتا ہے گویا کہ وہ سارے عالم انس و جن سے مخاطب ہے، بھائی لکل مجال مقال اور لکل مقال مجال کی بات اسی لئے تو کہی گئی ہے کہ مخاطب کے لئے گفتگو کریں، مخاطب سے رشتہ قائم کریں، قران کی جس آیت میں “بلاؤ اپنے رب کی طرف حکمت اور موعظت کے ساتھ اور سب سے بہتر طریقے والا طرز استدلال اختیار کرو” کا ذکر کیا گیا ہے وہ کہاں فراموش ہو گئی ہے، حکمت کا مطلب یہ ہیکہ مقرر کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں اور کنکے درمیان گفتگو کرنے جارہا ہے، اپنے مخاطب کی ضرورت کو سمجھنے کی ذمہ داری مقرر کی ہے، پہلے سے پوچھ لیجئے کہ کس طرح کے افراد مجلس میں ہونگے، ان کے کیا اشکالات یا ضرورتیں ہو سکتی ہیں، موعظت کا مطلب یہ ہیکہ جب آپ بولیں تو سننے والے کو یہ محسوس ہو کہ یہ بات آپ صرف اسکی بھلائی اور محبت میں کہہ رہے ہیں، ،
بہر حال مختصر یہ کہ مدارس میں خطابت کی تربیت بند کرنے کی ضرورت ہے اور اسکی جگہ گفتگو مذاکرہ، مکالمہ سکھانے کی ضرورت ہے، انفرادی مکالمے کی تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ ایک فارغ مدرسہ زندگی کے بیشتر مسائل تو انفرادی گفتگو سے ہی حل کرتا ہے، چھوٹی مجلسوں میں خطاب کے آداب اور بڑی مجلسوں میں گفتگو کے آداب، پڑھے لکھے افراد کے درمیان، کم پڑھے لکھ افراد کے درمیان، ترغیب اور ترہیب والی گفتگو اور تعلیم اور تحقیق والی گفتگو سب کے طریقے ایک ہی کیسے ہو سکتے ہیں، ہر گفتگو کا فورمیٹ الگ ہے انکا انداز الگ ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہیکہ مدرسوں میں سوال اور انکے جوابات دینے کی تربیت دیے جانے کی ضرورت ہے، سوالات انکے علم کا امتحان نہیں ہیں بلکہ انکے علم کو بڑھانے، بہتر کرنے اور سنوارنے کا اللہ کا دیا ذریعہ ہیں، سوالات پر خوش ہونا، شکریہ ادا کرنا سکھائیں،

گفتگو

غیر مسلم حضرات کے لئے کوئی ایک مقرر ایسا نہیں ہے کہ جسکی مجلس میں کوئی غیر مسلم اپنے آپ سے جانے کی خواہش کرے، آج کل کچھ اسلام پسند جدید تعلیم یافتہ حضرت این ایل پی نام کا کوئی کورس کرکے موٹیویشن مقرر بن رہے ہیں ، مذکورہ بالا آیت کی تفسیر بہتر طریقے سے مدارس اور دینی جماعتوں میں دی جاتی تو ایک اچھی بات کہنے کے لئے کسی این ایل پی کورس کو کریڈٹ دینے کی ضرورت نہ ہوتی، مدارس اسلامیہ کا سب سے بڑا چیلنج صرف اور صرف یہ ہیکہ وہ اثر حاضر کی عوام کی کمیونیکشن کی ضرورتوں سے پوری طرح بے خبر بلکہ بےفکر ہیں، انکو لگتا ہے آج بھی انکے طلبہ کو فارغ ہوکر مناظرہ لڑنے جانا ہے، یا باطل فرقہ کی سرکوبی کے لئے جانا ہے یا مخالف فرقے کو باطل قرار دینے جانا ہے، انہیں کچھ خبر نہیں کہ جن روحانی مسائل اور اشکالات کا جواب صرف اسلامی تصوف، عبادات یا عقائد میں ہے اسکو آدھا کچا پڑھ سیکھ کر رجنیش اوشو دور جدید کا سب سے مشہور روحانی گرو بن گیا، جن فلسفیانہ مسائل کا حل مدارس کے پاس ہے انکے کئی پہلو بہت سے ہندو دھرم گرو اپنے ست سنگ میں دےکر ہزاروں لوگوں کے دل جیت رہے ہیں، جن مسلمان نوجوانوں کو قران مہمیز کر سکتا تھا وہ بیچارے یو ٹیوب پر موٹیویشن سپیچ سرچ کر رہے ہیں اور سرچ رزلٹ میں انہیں ایک بھی عالم دین فارغ مدرسہ نظر نہیں آتا، سچائی ایمانداری امانت پاکیزگی حیا غریب پروری ایسے کتنے موضوعات ہیں جو صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ غیر مسلمان انسانوں کی بھی ضرورت ہے، اور انکے درمیان موجود سعید روحیں ان اقدار کو سمجھنے کے لئے لمبے لمبے سفر کرکے ست سنگ میں جاتے ہیں، کسی عالم دین کا اور صوفی کا ست سنگ نہیں ہو سکتا یہ کہاں لکھا ہے؟ یہ ممکن تھا اگر ہمارے مدارس میں انسانوں سے گفتگو کرنے کے تمام ممکنہ طریقے سکھائے جاتے،
ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمانوں کی اسلامی تربیت کے لئے کوئی حکومت ذمہ دار نہیں ہوگی، اس کے لئے مدارس اسلامیہ کو ہی اپنے منہج اور فارغین مدارس کو ہی اپنے طرز گفتگو میں تبدیلی لانی ہوگی، آپ سو پچاس لوگوں کے درمیان خود کو تعریف اور ستائشی ماحول میں قید رکھ کر یہ سمجھنے کی غلطی نہ کریں کہ آپ سے کوئی پوچھنا نہیں چاہتا یا آپ سے کوئی زیادہ بہتر کی امید نہیں کرتا، اور خاص طور پر اگر آپ سوشل میڈیا پر اپنی تقریریں اور بیانات اپلوڈ کرتے ہیں تو خدا کے لئے جلدبازی نہ کریں، انکو بہتر سے بہتر بنانے کے بعد ہی اپلوڈ کریں، بلکہ اگر مفید ہو تبھی کریں کیونکہ چند لوگوں کے درمیان کی گئی گفتگو میں ہی غلطیاں تو درست کی جاسکتی ہیں لیکن اس تقریر کو اپلوڈ کرنے کے بعد وہ تقریر آپکے لئے صدقہ جاریہ کے بجاے کہیں عذاب جاریہ نہ بن جائے !
ترکی کے کچھ پسندیدہ دینی مقررین کے سکرین شارٹ شیر کر رہا ہوں، انکو ضرور دیکھیں اور سنیں، بلکہ مصر کے عمرو خالد صاحب کو بھی دیکھیں،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *