دہلی میں منعقدہ ’’سرکاری و درباری علماء کا جرگہ‘‘مسلمانوں کے مابین موضوع بحث ،راز فاش ہونے پر منتظمین پریشان

فسطائی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ملت اسلامیہ کو بے وقوف بنانے کی کوششوں کی چہار جانب سے مذمت
ممبئی /دہلی (معیشت نیوز) 3مارچ 2021 کونئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ’’سرکاری و درباری علماء کا جرگہ‘‘اب عام مسلمانوں میں موضوع بحث بنتا جارہا ہے۔’’دین بچائو ،دیش بچائو‘‘کے نام پر بہار کے مسلمانوں کو ٹھگنے والے جب ملکی پیمانے پر ٹھگی کی کارروائی شروع کررہے تھے کہ آپسی اختلافات نے بیچ چوراہے پر ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ’’ یہ میٹنگ بند کمرے میں ہوئی ، شرکاء اور مدعوئین کے علاوہ کسی کو اس کی اطلاع نہیں تھی اور میڈیا سے بھی مکمل دوری اختیار کی گئی تھی‘‘۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کے ایک دو لوگوں کو خصوصی طور پر اس پروگرام میں شریک کیا گیاتھاتاکہ وہ ’’بھونپو‘‘کا فریضہ ادا کرسکیں۔دہلی کا مقبول عام انگریزی نیوز پورٹل مسلم مررنے جب اس پورے معاملے سے پردہ اٹھایا اور درپردہ ہورہی سازشوں کو بے نقاب کیا تو منتظمین سمیت بیشتر شرکاء بغلیں جھانکنے لگے۔سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی جنہیں پروگرام کے دوران مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں جب مسلم مرر نے ان سے سوالات پوچھے تو انہوںنے پہلو تہی اختیار کی اور صاف لفظوں میں کہا کہ ’’میرا س گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، میرا کسی گروپ سے تعلق نہیں ہے جبکہ میرے بارے میں غلط افواہیں پھیلائی گئی ہیں‘‘۔ممبئی سے زوم ایپلی کیشن کے ذریعہ شریک علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دریاآبادی معیشت سے کہتے ہیں ’’پہلی نظر میں تو یہ سرکاری یا درباری پروگرام نہیں لگتا کیونکہ ایس ڈی پی آئی ،جماعت اسلامی،ڈاکٹر ظفر الاسلام خان وغیرہ کی شرکت اسے معتبر بناتی ہے لیکن چال کہاں سے چلی گئی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔کیونکہ کیرلہ کی مسلم لیگ، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین،اے آئی یو ڈی ایف جیسی تنظیمیں جن کا مضبوط سیاسی نیٹ ورک ہے اس پروگرام سے دور رکھی گئی ہیں۔چونکہ میں زوم کے ذریعہ پروگرام میں شریک تھا لہذا کچھ کہنا میرے لئے مشکل ہے۔‘‘

دہلی کے ایک سرکردہ عالم دین دبے لفظوں میں پہلےتو بند کمروں میں ہوئی گفتگو پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ کہا گیا کہ وہ آفیشیل اسٹیٹمنٹ دے دیںگفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اس سے معاف رکھیں یہی بہتر ہوگا۔
واضح رہے کہ جن لوگوں کی شمولیت اور پیش پیش رہنے کی وجہ سے یہ جرگہ شکوک و شبہات کا شکار ہوگیا ان میں سرفہرست مولانا اعجاز ارشد قاسمی، مولانا کلب جوادوغیرہ کا نام لیا جارہا ہے جن کی برسراقتدار حکومت کے ساتھ سانٹھ گانٹھ طشت از بام ہے۔
گوکہ اس میٹنگ میں شریک لیڈران نے مسلم مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی اور یہ تجاویز پاس کیں کہ یہ جرگہ مسلمانوں کے درمیان سیاسی ، سماجی اور ملی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اور کمزور طبقات، اقلیتوں، اوبی سی ، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کی مدد کرنے کی کوشش کرے گا ۔لیکن بہار میں ’’دین بچائو دستور بچائو‘‘پروگرام کا حشر دیکھ چکے لوگ اسے محض سبز باغ سے تعبیر کررہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میٹنگ کی صدارت جہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے کی وہیںمولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی سابق ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ۔ سید سرور چشتی سجادہ نشیں خادم درگاہ اجمیر شریف۔مفتی شعیب اللہ مفتی مہتمم مدرسہ مسیح العلوم بنگلور ۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی سابق راجیہ سبھا ایم پی ۔ مولانا فضل الرحمن مجددی مہتمم جامعہ ہدایت العلوم جے پور ۔ مولانا ابو طالب رحمانی جنرل سکریٹری تفہیم شریعت کولکاتا ۔ مفتی مکرم احمد شاہی امام فتح پوری مسجد دہلی ۔ ڈاکٹر ایس وائی قریشی سابق چیف الیکشن کمشنر ۔ مولانا کلب جواد ۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن ۔ سراج الدین قریشی صدر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر نئی دہلی ۔ مفتی منظور ضیائی مشیر حاجی علی درگاہ ممبئی ۔مولانا عبد الحمید نعمانی ۔ میر علی رضا صدر انجمن اسلامیہ بنگلور ۔ڈاکٹر جنید حارث پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ۔ ڈاکٹر تنسیمہ احمدی وکیل سپریم کورٹ آف انڈیا ۔فرید شیخ صدر ممبئی امن کمیٹی ،بہادر عباس نقوی صدر انجمن حیدری دہلی ۔ ڈاکٹر مفتی اعجاز ارشدقاسمی جنرل سکریٹری پیس فاؤنڈیشن دہلی شریک رہے ۔