ہم تجربۂ اسپین؍۲ بننے والے ہیں

چراغ سب کے بجھینگے ہوا کسی کی نہیں
مشتاق احمد نوری

مشتاق احمد نوری
مشتاق احمد نوری

سامنے طوفان دیکھ کر بجاۓ بچاؤ تدبیر کرنے کے بے حس و حرکت پڑے رہنا موت کے منہ میں گردن دینا ہے۔شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لینے سے آندھی کا زور کم نہیں ہوجاتا اور نہ یہ عقلمندی ہے۔5؍ اگست کو ٹی وی چینل “ری پبلک بھارت” جو کٹر ہندوتو کا ایجنڈا آگے بڑھانے پر یقین رکھتا ہے، پر بار بار ایک ایکسلوزو لائن یہ چلائی جارہی تھی “آج سے دیش میں رام راجیہ” ہم میں سے کافی لوگوں نے اس کی کوئی نوٹس نہیں لی ہوگی ورنہ اس لائن کے پچھے چھپے انتباہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔آخر یہ کون پوچھے کہ دیش میں منو اسمرتی کا رام راجیہ چلے گا یا constitution کی جمہوریت چلے گی؟

ہر قوم کو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں،لاپرواہیوں سے سبق لے کر سنبھلنے کا موقعہ ملتا ہے بلکہ قدرت نے بطور قوم ہمیں بار بار سنبھلنے، میسرہ میمنہ ترتیب دینے کے مواقع دیئے ہیں۔ہم نے اسپین کیا بھلا دیا، روہنگیا، سنکیانگ،فلسطین اور کشمیر ہمارے سامنے آگئے۔یہ سب قدرت کی طرف سے ہمارے لئے وارننگ الارم ہے۔
تجزیہ نگاروں،تاریخی حالات پر نظر رکھنے والوں کے مطابق 1930 کے بعد سے ہندو وادی تنظیموں نے مطالعۂ سقوط ہسپانیہ پر کافی دلچسپی دکھائی ہے۔یہی نہیں آپ دیکھئے ایک طرف سقوط غرناطہ کا مطالعہ، دوسری طرف منگولوں سے نزدیکیاں تیسری جانب اسرائل کے موساد سے ٹریننگ۔خبر یہ بھی ہے کشمیر میں اسرائیلی فوجیوں کو بھی دیکھا گیا ہے۔ان سب کڑیوں کو آپ جوڑ کر دیکھیں تو انڈیا میں صلیب کا Granado operation modal لاگو کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔ اگر آپ قریب سے اندلس میں مسلمانوں کے زوال و سقوط کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو لگے گا کہ انڈیا میں بالکل اسی آپریشن پراسیس میں کام جاری ہے دونوں میں کوئی مغایرت نہیں۔بلکہ اسی کی کاربن کاپی ڈیزائنگ ہے۔
جب ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ کی عیاری نے اسپین میں مسلمانوں کو زیر کرکے تخت و تاج پر قبضہ جما لیا تو پادری نے قصر الحمراء کے سر پر 780 سالوں تک لہراتا اسلامی شان و شوکت کا پرچم اتار پھینکا اور صلیب کا جھنڈہ نصب کر دیا۔رونا اس کا نہیں کہ غرناطہ سے مسلمانوں کا صفایا ہوگیا۔اس کا بھی نہیں کہ اسلامی نشان کا پرچم سرنگوں کردیا گیا بلکہ افسوس یہ ہے کہ جب 1492 میں اندلس کا غرناطہ بھی ہاتھ سے جا رہا تھا تب آدھی دنیا پر مسلم سلطنتیں قائم تھیں۔ترکی بشمول یوگوسلاویہ، البانیہ اور یورپ کی دوسری ریاستوں پر عثمانی فرمانرواؤں کا حکم چلتا تھا۔ایران اور مصر جیسی ریاستیں بھی مسلمانوں کے پاس ہی تھیں۔ہندوستان کے وسیع و عریض نقشے میں مغل سلطنت قائم تھی۔حیف کہ اتنے جنگجو حکومتوں کے رہتے کسی کو غرناطہ کے مرتے کٹتے لٹتے کراہتے مسلمانوں پر ترس نہیں آیا۔کسی نے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔تو کیا لگتا ہے کہ اب جب کہ ہر کسی کو اپنی تجارت کے درآمدات و برآمدات بڑھانے اور اپنی پوزیشن بچانے کی پڑی ہے ایسے میں اگر ملک میں تجربۂ اسپین مکمل نافذ ہوجاۓ تو 1492 جیسے حالات نہیں بنیں گے؟

آپ کو ملک کے موجودہ حالات دیکھ کر کیا لگتا ہے کہ سب کچھ نارمل ہو جاۓ گا؟ تھوڑے دن ایسے چلیں گے پھر اچھے دن آجائیں گے؟ یہ لبرل اور سیکولر طبقہ جو بات بات میں رواداری رواداری کا درس دیتا ہے کیا اس نے یہ گمان پال لیا ہے جب مسموم ہوا چلے گی تو وہ بچ کے نکل لے گا؟ اگر ایسا سوچ رہے ہیں تو یہ خیال صرف خیال رہ جاۓ گا۔جب شامت آۓ گی تو یہ فیض خان اور اقبال انصاری جیسے ہزاروں لوگ جو مندر نرمان کی بدھاییاں بانٹ رہے ہیں یہ بھی نپیں گے۔انہیں بھی نپٹا دیا جاۓ گا۔چراغ سب کے بجھین گے ہوا کسی کی نہیں۔
اتنا کچھ دیکھنے سننے کے بعد بھی اگر آپ کو خود فریبی کا مرض ہے،آپ کے دماغ میں خوش فہمی کے بیکٹیریاز کلبلا رہے ہیں تو پھر آپ کا وہی مقدر ہے جو ماضی بعید میں اندلسی مسلمانوں کا ہوا اور ماضی قریب میں روہنگیا قوم کا ہوا۔میں جب روہنگیا اور ہندی مسلمانوں کا موازنہ ایک دوسرے سے کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہندی مسلمانوں کی حالت روہنگیا سے بہتر نہیں کہی جاسکتی۔میانمار کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں اگر دس لاکھ روہنگیا کی مکمل نسل کشی کا پلان تھا تو اتنا تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ ہندوستان میں تقریبا 25؍کروڑ کی آبادی کو رہ رہ کے زخم دیا جارہا ہے۔۔بار بار گجرات، میرٹھ، مظفر نگر،ہاشم پورہ، بھاگل پور دہراۓ جانے کی کھلی وارننگ دی جاتی ہے۔لاکھ دفاعی تدبیروں کے باوجود اذیتیں بجاۓ کم ہونے کے بڑھتی جا رہی ہے۔

کورونا کی آڑ میں مسلم سماج کے ان جیالے افراد کو زندان کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے جو منہ میں زبان رکھتے تھے۔جو سر اٹھا کے بات کرنا جانتے تھے۔جو قوم کی فلاح و بہبود کے لئے لڑ سکتے تھے۔جو اس تاریک دور میں قوم کی امیدوں کا چراغ بن کر ابھرے تھے۔جن کا گناہ صرف اتنا تھا کہ جمہوریت کے ملک میں فاشسٹ حکومت کو آنکھ دکھانے کی کوشش کی۔ہم نے کورونا کے سبب تقریباً ایک سال کا لاک ڈاؤن جھیلا ہے تو تباہ حال نظر آتے ہیں کشمیری پچھلے دو سال سے لاک ڈاؤن اور کریک ڈاون کی مار جھیل رہے ہیں۔ان کا درد کون سنے گا؟ کون کشمیری عوام کو سیاسی جبر سے بچاۓ گا؟ کشمیر اتنا تشدد آمادہ بھی نہیں ہے کہ اس کی مکمل ناکہ بندی کو سالوں لمبا کھینچا جاۓ۔جب کہ انتہا پسند ہندوتو اور موجودہ سیاست کا ایک ہی نعرہ ہے “کشمیر ہمارا ہے” اور جنت نشان کشمیر کی بد نصیبی یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ “کشمیری بھی ہمارے ہیں”۔یہ سب پری پلانڈ سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔اور دنیا تماشائی ہے۔
اگر سوگ منانے سے کچھ حاصل ہوجاتا تو ہم بھی “محفل حزن و سوگ” سجا کر بیٹھ جاتے مگر ایسا ہے نہیں۔جو چیز ہاتھ سے نکل گئی اس کے غم میں گھلا جانے سے بہتر ہے کہ جو پاس ہے اس کی حفاظت کا سوچا جاۓ۔اب سمجھداری اسی میں ہے کہ مسجد کا غم چھوڑیئے اپنی نسلوں کے تحفظ کی فکر کیجئے۔مسجد چھن جانا تو چھوٹا زخم تھا جس کے اندمال کی صورت نکل سکتی ہے ابھی تو آگ کے دریا میں ڈوب کر پار اترنے کا حوصلہ دکھانا رہ گیا ہے۔جیسے ہی کووڈ 19 پر تھوڑا کنٹرول پا لیا جاۓ گا آپ پر این آر سی/ سی اے اے کا عذاب مسلط کر دیا جاۓ گا۔پھر آپ اور ہم اپنی شہریت کے دستاویز لے کر ان دفتروں کے چکر کاٹتے رہ جائیں گے جنہیں پہلے سے یہ انسٹرکشن دیا جا چکا ہے کہ کس ضلع کے کس بلاک میں کس تحصیل میں کتنے کو خارج کرنا ہے کتنے کو اندر لینا ہے۔ بنگال چناٶ اگر بھاجپاٸیوں نے جیت لیا تو سب سے پہلے NRC اور CAA وہیں سے لاگو ہوگا۔

اس سے پہلے کہ ہم انڈین منگولوں کے آگے بے بس بے موت مارے جائیں،اس سے پہلے کہ ہم سقوط بغداد کے دل دوز مناظر نظروں کے سامنے دیکھیں، اس سے پہلے کہ سقوط غرناطہ انڈیا میں دہرایا جاۓ،اس سے پہلے کہ ہماری آزادی کے سورج کو اغیار کی نفرتوں کا گہن لگ جاۓ، اس سے پہلے کہ ہمارے مقبروں پر جشن فتح کا بھانگڑا ہو ہمیں ایک لمبی جد و جہد کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔اکراہ و تشدد سے بچ کر سماج سازی اور ملی بیداری تحریک چلانی ہوگی۔اگر ہم ایک دوسرے کے آسرے پر بیٹھے رہیں تو بہت برا ہوگا۔ہر کسی کو اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا۔اس عرصے میں اسپین کے پاس تو یوسف بن تاشفین جیسا بہادر جنگجو اور ابن عربی جیسا خدا پرست صوفی موجود تھا ہمارے دامن تو اس سے بھی خالی ہی ہیں۔

اے آنکھ اب تو خوابوں کی دنیا سے لوٹ آ
مزگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *