میں بے شرم،لالچی،حرام خو راور بھکاری خاندان میں شادی نہیں کروں گی

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق

مدرسہ نسواں عالیہ ملک کی نامور دینی تعلیم گاہ تھی، جہاں بہت معیاری تعلیم کا نظم تھا۔یہاں کی طالبات کو دینیات کے ساتھ اردو ادب، انگریزی، سائنس او ر کمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔یہاں سے فارغ طالبات میں کئی اردو دنیا کی نامور شاعرہ اور ادیبہ ثابت ہوئیں۔
آج کامن روم میں ایک ہی درجہ کی چار طالبات بہت سنجیدہ موضوع پر گفتگو کر رہی تھیں۔اُن کی ایک سہیلی صابرہ جو یہاں سے فراغت کے بعدکمپیوٹر سافٹ ویر انجینیر بنی تھی اور اُس کی شادی بھی ایک انجینیر کے ساتھ ہوئی تھی،اسی کا مسئلہ زیر بحث تھا۔لڑکے اور لڑکی دونوںکا تعلق اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اونچے گھرانے سے تھا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ صابرہ کے ساس سسر نے صابرہ سے اپنی تنخواہ سا س سسر کو دینے کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے کیا کہ اس پر اُن کا حق ہے۔یہ مطالبہ صابرہ جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شرعی احکام سے واقف لڑکی کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھا۔ معاملہ نے سنگین صورت اُس وقت اختیار کر لی جب صابرہ کے شوہر نے بھی صابرہ کی جگہ اپنے ماں باپ کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے صابرہ کو اُن کی بات ماننے پر آمادہ کرنا چاہا۔اور اب بات خلع یا طلاق تک پہنچ چکی تھی۔
راشدہ: لوگ یہ سمجھتے اور کہتے ہیںکہ مسلمانوں میں پسماندہ پن ان پڑھ اور غریب ہونے کے سبب ہے۔لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ اورانتہائی خوش حال گھرانے بھی جب پسماندہ طبقات کا سا رویہ اختیار کر لیں تو کیا کہا جائے گا ؟
زاہدہ: کہا جائے گا کہ صرف پڑھ لکھ لینے اور دولت مند بن جانے سے انسان کا پسماندہ پن ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ دینی تعلیمات سے ناآشنا اور غافل رہنا سب سے بڑی جہالت ہے۔اور جاہلوں سے کسی اچھی عادت اور صفت کی امید کی ہی نہیں جا سکتی۔اس وقت کا اعلیٰ تعلیم یافت اور خوش حال طبقہ کافروں اور مشرکوں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔
ساجدہ: حیرت ہوتی ہے کہ ملت کے اندر علماء کا جو طبقہ ہے وہ اصلاح معاشرہ کی باتیں تو کرتا ہے، لیکن سماجی زندگی میں جو غیر اسلامی، کافرانہ، فاسقانہ اور ظالمانہ رجحان اور عمل ہے نامزد کر کے اُن کے خلاف کوئی تحریک کیوں نہیں چلاتا اور سماج سے ا ن برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ؟
شاہدہ: ایسا لگتا ہے کہ پیارے نبیﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق اب وہ دور آ گیا ہے جس کے متعلق نبیﷺ نے فرمایا ہے:’’زیاد ؓبن ولید کہتے ہیں،رسول اللہ ﷺنے ایک خطرناک بات کا ذکر کیا کہ ایسا وقت آئے گا جب علم مٹ جائے گا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول علم کیوں کر مٹ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو پڑھاتے رہیں گے؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اے زیاد میں تو تمہیں مدینہ کا انتہائی ہوش مند آدمی سمجھتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل کو کس قدر پڑھتے ہیں، مگر ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے۔‘‘ (ابن ماجہ)دور حاضر کا عالم فاضل طبقہ عالم اور فاضل کی سند تو رکھتا ہے لیکن قرآن کے حقیقی علم سے محروم ہے اور قرآنی احکام پر عمل کرنے کی نہ تو کوشش کرتا ہے اور نہ اس کا ارادہ رکھتا ہے۔فروعی مسئلوں میں اس طبقہ نے امت کو الجھا رکھا ہے اور اس طبقہ کا یہی رویہ امت کو بھی دین بیزار بنائے ہوئے ہے۔
راشدہ: اور اس کا سب سے زیادہ اثر اور نقصان عورت ذات کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔کہنے کو تو عورتوں کی اختیار کاری کاپروپیگنڈا بڑے پیمانے پر کیاجارہا ہے ،لیکن عملًا عورت جیسے ناتواں اور بے سہارا پہلے تھی ویسے ہی آج بھی ہے۔
زاہدہ: مسلم سماج نبی ﷺ کے اس فرمان سے ناواقف بھی ہے اور اس کا انکار بھی کرتا ہے کہ:’’حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے گھر بیٹی ہو اور وہ اسے نہ زندہ در گور کرے، نہ ذلیل کرے اور نہ اپنے بیٹوںکو اُن پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اُس کو جنت میں داخل کرے گا ۔‘‘(ابوداؤد)اگر موجودہ مسلم سماج اس فرمان رسولﷺ پر عمل کر رہا ہوتا تو غیر مسلم سماج بھی اس سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کا قدر داں اور حامی بن جاتا۔
ساجدہ: ا س موقع پر یہ حدیث بھی بیان کرنے کے لائق ہے ’’حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو، اور میں تم میں کا بہترین آدمی ہوں ، بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لحاظ سے۔‘‘(ابن ماجہ)کاش مسلم سماج کے گھروں میں بیویوں کو وہ مقام ملتا جو اُن کو شریعت نے دیا ہے تو آج ایسی شرمناک حالت نہ ہوتی۔
راشدہ: اگر بچوں اور بچیوں کے والدین اس فرمان رسولﷺ کو جانتے، یاد رکھتے اور اس پر عمل کرتے تو نئی نسل آج کی طرح گمراہی کا شکار نہ ہوتی۔’’حضرت ایوب ابن موسیٰ ؓ ان کے والد اور ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کسی باپ نے اپنی اولادکو اچھا ادب سکھانے سے زیادہ قیمتی تحفہ نہیں دیا۔‘‘ (بیہقی)
زاہدہ: آج ہر خوش حال مسلم گھرانہ اپنے بچوں کو مہنگے اور نامی اسکولوں میں پڑھانا اپنے لئے فخر کی بات سمجھتا ہے اور اس جنون میں بے انتہا دولت خرچ کرتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو اچھا ادب یعنی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوئی فکر نہیں کرتا۔انجام یہ ہوگا کہ نئی نسل بھی جہنم میں جائے گی اور اس جرم میں ماں باپ اور اہل خاندان بھی آگ کی سزا پائیں گے۔
ساجدہ: اس لحاظ سے اس حدیث کو بہت کم لوگوںنے پڑھا ہے ،اس کو جانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ایسے لوگ کیسے جنت میں جائیں گے اور جہنم سے نجات پائیں گے ؟ ’’ابن عمرؓ کہتے ہیں :رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تم میں ہر شخص محافظ ہے اوراُس سے اُن لوگوں کے بارے میںپوچھ گچھ ہوگی جو اُس کی نگرانی میں دیے گئے ہیں،پس امیر،جولوگوں کا نگراں ہے، اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔اورمرد،جواپنے گھر والوں ( بیوی، بچوں)کا نگراں ہے، اُس سے، اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اور بیوی، جو اپنے شوہر کی اولاد کی نگراں ہے، اُس سے، اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘(بخاری، مسلم)
شاہدہ: ایسے والدین اور اہل خاندان، جنہوں نے اپنی اولاد کو دین کی تعلیم نہیں دی ہے اور جس کے سبب اولاد اپنے والدین کی خدمت کرنا جانتی ہی نہیں اُس کا کیا حشر ہوگا اور اُس کی تباہی وبربادی کا ذمہ دار کون ہوگا کاش یہ امت اس کو جانتی ! ’’بکارؓ اپنے والد اور دادا کے حوالے سے روایت کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جس گناہ کو چاہتا ہے سزا کے لئے مؤخر کر دیتا ہے، مگر تین قسم کے گناہ ایسے ہیں جن کی سزا انسان کو موت سے قبل ہی بھگتنی پڑتی ہے(۱)اللہ سے بغاوت اور سرکشی(۲)والدین کی نافرمانی(۳)رشتہ داروں سے بے تعلقی۔ (الادب المفرد)
راشدہ: رسول اللہ ﷺ نے لڑکیوں کی پرورش کرنے اور اُن کودین دار بنانے کے عمل کو جنت کی ضمانت بتایا ہے لیکن اس دور کے بدنصیب ماں باپ لڑکیوں کو دنیا کمانے کی خاطر دینی تعلیم سے محرو کر کے دنیا اور دولت کمانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ’’ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے تین بیٹیوںیا بہنوں کی پرورش کی ،اُنہیں اچھی تہذیب سکھائی اور اُن کے ساتھ مہربانی کی یہاں تک کہ اللہ نے اُن کو مستغنی کر دیا(یعنی اُن کی شادی ہو گئی)تواللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت واجب کر دے گا۔ایک آدمی نے عرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ کیا دو کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بھی یہی اجر ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں۔اس حدیث کے راوی ابن عباسؓ کہتے ہیں اگر لوگ ایک لڑکی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے متعلق سوال کرتے تو رسول اللہ ﷺفرماتے کہ اس سے اچھا برتاؤ کرنے والا بھی اسی اجر کا مستحق ہے۔‘‘(مشکوٰۃ بحوالہ شرح السنہ)
زاہدہ: کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ان حدیثوں میں جو باتیں بتائی گئی ہیں اُن کی تعلیم عام کرنے اور لوگوں کو ان احکام سے واقف کرانے کی جگہ صرف جہیز کے خلاف تحریک چلائی جاتی ہے اور جلسے کئے جاتے ہیں،جبکہ جہیز دینا نہ تو منع ہے اورنہ حرام ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓکو جہیز دیا تھا، یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔ ’’حضرت علی ؓروایت کرتے ہیں،رسول اللہﷺنے حضرت فاطمہؓ سے اُن کی شادی کی تو نبیﷺ نے اپنی صاحبزادی کے جہیز میں یہ سامان بھیج دیا: سفید مخملی چادر، چمڑے کا تکیہ جسے کھجور کے درخت کی چھالوں سے بھردیا گیا تھا، چکی، مشکیزہ اور مٹی کے دو گھڑے۔ ‘‘ (مسند احمد)
ساجدہ: ان دنوں شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔جب کسی لڑکی کے رشتے کی بات کسی لڑکے سے چل رہی ہوتی ہے تو اُسی وقت دوسرے لڑکی والے بھی اپنی لڑکی کے رشتے کی بات شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی آدمی اپنے(مسلمان) بھائی کے پیغام نکاح پر پیغا م نہ دے تاوقتیکہ وہ نکاح کر لے یا دست بردار ہو جائے۔(بخاری، مسلم)
شاہدہ: لڑکی کے لئے کیسا لڑکا پسند کر نا چاہئے یہ بھی پیارے رسول ﷺ نے بتا دیا ہے مگر آج کے مسلمان اس بات کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب تمہارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اُس سے(اپنی لڑکی کی) شادی کردو۔اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی پیدا ہوگی۔‘‘(ترمذی)
راشدہ: یہ سب باتیں تو اپنی جگہ سو فیصد درست اور حق ہیں لیکن صرف ایسی باتیں کرنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟
زاہدہ: کیا مطلب ؟ ہم باتیں بھی نہیں کریں ؟
ساجدہ: راشدہ کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم لوگ اس سلسلے میں کوئی عملی کوشش کریں۔
شاہدہ: سب سے پہلے تو ہم سب کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ’’ہم لوگ کسی بے شرم،لالچی،حرام خو راور بھکاری خاندان میں شادی نہیں کریں گے۔
راشدہ: صر ف ہم لوگ ہی یہ فیصلہ نہیں کریں گے، بلکہ اپنی تمام سہیلیوں اور دوسری لڑکیوں کے اندر بھی یہ شعور اور بیداری پیدا کریں گے کہ وہ کسی بے شرم،لالچی،حرام خوراور بھکاری خاندان میںشادی نہیں کریں ۔
ساجدہ: الحمدللہ ! یہ ہوئی اصل کام کی بات۔کیوں نہ ہم لوگ آج ہی اپنی ہم سبق لڑکیوں کے بیچ اپنی تحریک شروع کر دیں ؟
شاہدہ: اے اللہ ! ہم ناتواں جانوں کو اس کام کی توفیق اور حوصلہ دے اور ہمارے کام میں برکت عطا فرما!
سبھوںنے یک زبان ہو کر کہا… آمین !!!

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *