کورونا کے حالات میں فاصلوں سے نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت

namaz

دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ،بنوری ٹاون۔
سوال:
موجودہ حالات میں علماء اور حکومت وقت نے سوشل ڈسٹینس کے نام پر فاصلہ رکھنے کا کہا اور مساجد میں ایک دوسرے کے درمیان ایک میٹرکا فاصلہ رکھنے کو کہا گیا. ایک تو یہ خلافِ سنت ہے دوسرا سوال کہ جس وجہ سے یہ فاصلہ رکھنے کا کہا گیا اس کی نفی حدیث کی رو سے ہوتی ہے کہ  کوئی بیماری اللہ کے امرکے بغیر لگ سکتی نہیں،  اب ان حالات میں کیا کیا جائے؟  گھر میں اکیلے نماز پڑھنے سے مسجد میں جماعت چھوڑنے کے ثواب سے محرومی اور مسجد میں جاکرفاصلہ دیکھ کربھی دل مطمئن نہیں ہوتا!

جواب:

صفوں کا اتصال سنتِ مؤکدہ ہے، صفوں کے اتصال کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھے کو کندھے سے ملائیں،ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنہ  رکھیں، صفوں کے درمیان خلا نہ چھوڑیں اور دوصفوں کے درمیان اتنا فاصلہ نہ چھوڑیں کہ ایک صف مزید بن سکے، اس کے خلاف کرنا مکروہِ تحریمی ہے،  احادیثِ مبارکہ میں  صفوں کے اتصال کی بڑی تاکید آئی ہے، صفوں کے اتصال کو فرشتوں  کا طریقہ اور اس کی خلاف ورزی کو آپس کے اختلافات اور رنجشوں کا سبب قرار دیا ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہﷺہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا، یہاں تک کہ ہم بھی آپﷺسے (صفوں کی برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہﷺ(مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے ) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپﷺنے دیکھ لیا، چنانچہ (یہ دیکھ کر ) آپﷺنے فرمایا کہ:  ” اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر و، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ  روایت کرتے  ہیں کہ  :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم اپنی صفوں کو برابر رکھا کرو،  کیوں کہ صفوں کو برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں  سےہے۔
حضرت جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  :(ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھا دیکھ کر فرمایا کہ : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورت میں (بیٹھے ہوئے) دیکھ رہا ہوں ؟ (یعنی اس طرح الگ الگ جماعت کر کے نہ بیٹھا کرو، کیوں کہ یہ نا اتفاقی اور انتشار کی علامت ہے)، پھر اسی طرح (ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اللہ کے حضور  (بندگی کے لیےکھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ہم نے عرض کیا کہ :  “یارسول اللہ ﷺ ! فرشتے اپنے پروردگار کے حضور کس طرح صف باندھتے ہیں؟  فرمایا : پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  کہ: اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے )، نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو، بلکہ ہم وار جگہ پر کھڑے ہو، تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا  کہ : اپنی صفوں کو برابر اور اپنے کندھوں کو ہم وار  رکھو (یعنی ایک سطح اور ہموار جگہ پر کھڑے  ہو اور اونچا نیچا ہو کر مت کھڑے ہو) اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ کے آگے نرم رہو  (یعنی اگر کوئی آدمی کندھے پر ہاتھ رکھ کر تمہیں صف میں برابر کرے تو اس سے انکار نہ کرو)، بلکہ برابر ہو جاؤ، نیز صفوں میں خلا پیدا نہ کرو ،کیوں کہ شیطان خذف یعنی بھیڑ کا چھوٹا بچہ بن کر تمہارے درمیان گھس جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  روایت کرتے  ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : صفوں کو سید ھی کرو، اپنے کندھوں کے درمیان ہم واری  رکھو، صفوں کے خلا  کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام ِقرب سے دور پھینک دے گا)۔
لہذاصفوں کے درمیان ایک صف سے زائد کا فاصلہ رکھنایا مقتدیوں کا ایک دوسرے سے دائیں بائیں فاصلے سے کھڑا ہونا سنتِ مؤکدہ کے خلاف اور مکروہِ تحریمی ہے۔
کسی بھی  وبائی مرض یا وائرس  کے خدشے کی وجہ سے دائیں بائیں فاصلے کے ساتھ کھڑا ہونا مکروہِ تحریمی ہے، یہ عمل نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے عمل کے خلاف ہے۔
پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وبا / طاعون کے خوف سے بھاگنا اور دینی احکام میں تبدیلی واقع کرنا شریعتِ مطہرہ کی روح کے خلاف ہے، شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ : شام میں طاعون واقع ہوا تو حضرت عمرو  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : اس سے دور  ہو جاؤ ، کیوں کہ یہ گندگی ہے، یہ بات حضرت شرحبیل تک پہنچی، انہوں نے فرمایا کہ: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہا ہوں، میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ : یہ طاعون اللہ تعالی کی رحمت ، تمہارے نبی کی دعا اور تم سے پہلے گزرے ہوئے مؤمنین کی موت ہے، لہذا اکٹھے رہو، بھاگو مت تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : انہوں نے سچ کہا۔
لہذا وبا / طاعون وغیرہ کا پھیلنا اللہ تعالی کی جانب سے مؤمنین کے لیے آزمائش ہے، اس آزمائش کی گھڑی میں مؤمنین کا رجوع اللہ تعالی کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی جانب سے مزید بڑھ جانا چاہیے، لہذا اگر مساجد آباد کی جائیں اور شرعی احکام میں سنتوں کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ اس وبا سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرلیا جائے گا۔
نیز یہ ملحوظ رہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے، لیکن کسی خاص مرض کے ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔
اگر انتظامیہ صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھنےکی اجازت نہ دے تو  اس کا گناہ اس کے سر ہوگا، تاہم لوگ جماعت ترک نہ کریں اور گھروں میں نماز کی ادائیگی کی بجائے مساجد میں ہی باجماعت نماز اد اکی جائے ،فاصلہ کے باوجود نماز اداکرنے والوں کی نماز ادا ہوجائے گی اور ان شاء اللہ انہیں کامل ثواب ملے گا۔ فقط واللہ اعلم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *