
مومن بننا ہے توقرآن و سنت کا اسلام اپنائیے

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسلم یعنی اپنا فرماں بردار بنا کر پیدا کیا ہے لیکن اس کے خاندان ، برادری اور سماج والے بڑا ہونے پر اس کو اپنے روایتی مذہب کا پابند بنا دیتے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں مسلمان بھی سچا مسلمان نہیں بن پاتا ہے۔ پوی کائنات میں مسلمان اللہ کا سب سے محبوب بندہ ہے۔ اسی کے لئے ساری دنیابنائی گئی ہے اور دنیا کی ساری نعمتیں پیدا کی گئی ہیں۔ اس زندگی کے بعد وہ دوسری زندگی میں جنت میں جائے گا اور وہاں اپنے دل کے سارے ارمان پورے کرے گا۔ لیکن دنیا میں امن چین سے رہنے اور موت کے بعد جنت کا حقدار بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا ایمان اور اسلام سلامت اور محفوظ رکھے۔دنیا کا سب سے بڑا لٹیرا اور انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہر وقت مسلمان کاایمان اور اسلام اس سے چھیننے کی تاک میں لگا ہوا ہے اور بڑی پابندی سے اپنا کام کر رہا ہے۔مسلمان کو باشعوربن کر اس کی چالبازیوں سے خود کو بچانا ہے اور اس کی واحد تدبیر یہ ہے کہ وہ فرقوں اور مسلکوں کی پیروی کرنے کی جگہ قرآن و سنت کے خالص اسلام کی پیروی کرے۔اس کے بعد ہی وہ شیطان سے خود کو بچا سکے گا۔
حضرت معاویہؓ خطبہ دے رہے تھے، وہ بولے کہ انہوں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سناجس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے،اور جب تک یہ امت اللہ کے حکم پر قائم رہنے کی پابندی کرتی رہے گی تو جو اس کی مخالفت کرے گا اس کوکچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے ۔(بخاری)
(۱) مسلمان کو ایک اللہ پر ایمان لانا ہے اور یقین رکھنا ہے کہ اللہ مجبور نہیں جابرہے اور اُس کی تمام مخلوق اُس کی محتاج ہے۔انسان کی مدداللہ کے سوا کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے۔قرآن کہتا ہے:’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لئے ہیںا ن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے، کاش یہ لوگ علم رکھتے۔‘‘ (عنکبوت:۴۱)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور اس پر مضبوطی سے جم جاؤ۔‘‘ یعنی اللہ کے سوا کسی کو اپنامددگارنہ مانو۔اگرآپ نے اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مددگار سمجھ رکھا ہے تو شیطان کے لئے آپ کے دل اور دماغ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آپ کا ایمان اور اسلام خطرے میں ہے۔
(۲) مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ توحید پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ شرک سے بھی بچے کیونکہ قرآن کہتا ہے:’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔‘‘( النساء:۴۸)رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’دو چیزیں ایسی ہیں جو دو چیزوں کو واجب کر دیتی ہیں۔ ایک شخص نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہﷺ ؟ نبیﷺنے فرمایا جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہوئے مرا وہ جہنم میں جائے گا اور جو اس حال میں مر اکہ اُس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ (مسلم) شرک اللہ کی ذات میں ہوتا ہے اُس کی صفات میں ہوتا ہے اُس کے اختیارات میں ہوتا ہے اور اُس کے حقوق میں ہوتا ہے۔ہر طرح کے شرک سے اپنے آپ کو بچائیے ورنہ شیطان کوآپ پرقابو پانے میں دیر نہیں لگے گی۔
(۳) مسلمان کو اللہ کی بندگی کرنے کے لئے رسول اللہﷺ کی سچی پیروی کرنی ہے اور اُن کی باتوں کے مقابلے میں کسی کی بات نہیں ماننی ہے۔رسول اللہﷺکی محبت میں اُن کا غلام بن جانا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’(انہیں بتاؤ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اُس کی اطاعت کی جائے۔ ‘‘ (النساء :۶۴) ’’اے محمدﷺہم نے تم کولوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے۔جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے در اصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا تو بہر حال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔‘‘ (النساء :۸۰)رسول اللہﷺنے فرمایا :’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا ہے جب تک وہ میری لائی ہوئی شریعت کا پابند نہ ہو جائے۔‘‘اصل اسلام یہ ہے کہ انسان رسول اللہﷺکی باتوں کا علم حاصل کرے اور اُنہیں کی پیروی کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا اُس کا ایمان اور اسلام خطرے میں ہے۔
(۴) مسلمان کو آخرت پر ایمان لانا ہے اور اُس کی کامیابی کی خاطر زندگی کے سارے کام کرنے ہیں۔قرآن کہتا ہے :’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور تم میں سے ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل(قیامت) کے لئے کیا انتظام کیا ہے۔‘‘ (الحشر:۱۸) رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’سب سے بری شرمندگی قیامت کے دن کی شرمندگی ہے۔‘‘(بیہقی)اگرآپ آخرت کی فکر سے غافل ہیں توآپ مسلمان ہیں ہی نہیں۔ آپ کی تمام مذہبی سرگرمیاں محض ایک فریب ہیںجن سے آپ کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
(۵) مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھے یعنی انسان کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہ بھی اُس کی تقدیراور اُس کے عمل سے ہوتا ہے، کسی کی دشمنی سے نہیں اور اُس کو جو فائدہ اور کامیابی ملتی ہے وہ بھی اُس کے مقدراور اُس کے نیک اعمال کے ذریعہ ملتاہے کسی کی تدبیر سے نہیں۔قرآ ن کہتا ہے: ’’اور اُس نے ہر چیز کو پیداکیا اور پھر اُس کی ایک تقدیر مقررکی۔‘‘ (الفرقان :۲) رسول اللہﷺنے فرمایا سب سے پہلے جس چیز کواللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا وہ قلم ہے اُس کو حکم ہوا کہ لکھ ! قلم نے پوچھا کیا لکھوں ؟ حکم ہوا کہ تقدیر کو لکھ، لہذا اُس نے ماضی میں جو ہوا اور جو مستقبل میں ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا (ترمذی)اگر آپ تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے تو شیطان کے لئے آپ نرم چارہ ہیں، بڑی آسانی سے وہ آپ کو نگل جائے گا۔
(۶) کسی مسلمان کے پاس ایمان ہے یا نہیں اس کا ثبوت پانچ وقت کی نماز ہے۔جو شخص نماز کی پابندی نہیں کرتا وہ مسلمان ہے ہی نہیں۔ قرآن کہتا ہیـ: ’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو خاص کر ایسی نماز کی جو خوبیوں کی حامل ہے۔اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو جس طرح فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۲۲۸) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز کا ترک کرنا بندگی اور کفر کے درمیان کی چیز ہے۔‘‘(مسلم)یاد رکھئے اگر آپ نماز کے پابند ہیں تب تو مسلمان ہیں ورنہ آپ خدا کی نگاہ میں کافر ہیں اور آپ کی یہ حالت شیطان کی آپ پر فتح مندی اور کامیابی ہے۔
(۷) مسلمان اگر صاحب نصاب ہے تو زکوٰۃ ادا کرنا اس پر فرض ہے۔ جو مسلمان زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ مسلمان باقی نہیں رہتا۔قرآن میں جگہ جگہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم ایک ساتھ آیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، تم اپنی عاقبت کی بھلائی کے لئے جو بھی آگے بھیجو گے اللہ کے پاس اُسے موجود پاؤگے۔‘‘(البقرہ:) رسول اللہﷺنے فرمایا:’’جس کو اللہ نے مال دیا اور اُس نے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو اُس کا مال گنجا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھون پر دو سیاہ نقطے ہوں گے ۔ وہ سانپ اُس آدمی کی گردن میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اُس کی دونوں بانچھوں کو پکڑ کر کہے گا میں تیرا مال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ (بخاری) اگر آپ احتیاط کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو آپ پر شیطان حاوی ہو گیا اور آپ مسلمان ہی نہیں رہے۔قیامت میں سانپ آپ کو ڈسے گا یہی آپ کا مقدر ہوگا۔
(۸) رمضان کے مہینے میں ہربالغ، صحت مند مرد عورت پر روزہ رکھنا فرض ہے۔قرآن کہتا ہے:’’اے ایمان لانے والو تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔شاید کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو جائے۔‘‘(البقرہ:۱۸۳)رسول اللہﷺنے فرمایا:’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘ (بخاری و مسلم)جو شخص جان بوجھ کر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے گا اُس کو کفارے میں دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان کے روزے چھوڑ دیناکفر ہے اور اس کا کفارہ ادا کرناآج کے انسان کے بس سے باہر ہے۔جو رمضان کے روزوں میں محتاط نہیںوہ مسلم نہیں شیطان کی فوج کا سپاہی ہے۔
(۹) جس مسلمان کے پاس اتنا حلال مال ہو کہ وہ حج کر سکتا ہو تو اُس پر حج فرض ہوجاتا ہے۔جس پر حج فرض ہو گیا ہو وہ جب تک حج ادا نہ کر لے اُس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ہے۔حج فرض ہو جانے پر صرف بیمار ہونا یا راستے کا بند ہونا عذر شرعی ہو سکتا ہے ۔ یہ دونوں عذر نہ ہوں تو پھر حج سے بے نیازی شریعت سے لاپرواہی ہے۔ اور جو شریعت سے لاپرواہ ہوتا ہے وہ شیطان کے لئے لقمہ تر بن جاتا ہے۔
(۱۰) شریعت کا علم حاصل کرنا بھی مسلمان پر فرض ہے۔قرآن کہتا ہے: ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیر مسلم جیسی زندگی گزارنے سے) پرہیز کرتے(توبہ: ۱۲۲) رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ (دین کا) علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘(مسلم)مسلمان کو شریعت کا ضروری علم حاصل کرنے کی فکر ہونی چاہئے ورنہ دین و ایمان کے نام پر شیطان اُس کو گمراہ کر کے رہے گا اوروہ خود کو اُس سے نہیں بچا سکے گا۔
(۱۱) کسب حلال کے لئے جد و جہد کرنا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’ جب تم نماز(جمعہ) ادا کر چکو تو زمین میںپھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تم فلاح یافتہ ہو جاؤ۔‘‘ (جمعہ:۹)رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’فرض عبادت کے بعد حلال روزی کمانا فرض ہے۔‘‘(بیہقی)اسلام اور ایمان کی سلامتی کے لئے رزق حلال کا اہتمام ضروری ہے۔ دور حاضر کا جو حال ہے اس کی پیشین گوئی رسول اللہﷺنے پہلے ہی کر دی تھی: رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گاجب انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ حلال روزی کما رہا ہے یا حرام۔‘‘(بخاری)’’رسول اللہﷺ نے فرمایا : وہ جسم جنت میں نہیں داخل ہوگا جوحرام کی کمائی سے پلا ہو ،اس کے لئے تو جہنم ہی زیادہ مناسب ہے۔‘‘ (بیہقی)اگر آپ حلال کی جگہ حرام روزی پر گزارا کر رہے ہیں تو پھرآپ شیطان کے لئے لقمہ تر بن چکے ہیں۔جنت میں آپ جا ہی نہیں سکتے ہیں۔
(۱۲) اللہ کی خوشنودی کے لئے زکوٰۃ ادا کرنے کے علاوہ صدقہ کرنا بھی مسلم کے لئے ضروری ہے۔یہ عمل اگرچہ فرض نہیں ہے تاہم اہل تقوی پر فرض ہی ہے۔ قرآن کہتا ہے’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خرچ نہ کرو جنہیںتم عزیز رکھتے ہو اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے باخبر ہو گا۔ ‘‘(آل عمران : ۹۲) رسول اللہﷺنے فرمایا : ’’صدقہ اللہ کے غصے کو بجھاتا ہے اور درد ناک موت سے بچاتا ہے۔‘‘(ترمذی)اگر آپ کے دل میں اللہ کی محبت کی جگہ مال کی محبت نے گھر بسا رکھا ہے تو اندیشہ ہے کہ آپ شیطان کے چنگل سے نہیں نکل پائیں گے اور آپ کا ایمان اور اسلام آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
(۱۳) فضول خرچی وہ گناہ ہے جو نیکیوں کودیمک بن کر کھاجاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور فضول خرچی نہ کرو،فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیںاور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل:۲۶/۲۷)رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’سخاوت کی آفت فضول خرچی ہے۔‘‘(منہاج الصالحین)یاد رکھئے جو مال آپ کے پاس ہے اُس میں آپ کا حق اتنا ہی ہے جتنے کی آپ کو ضرورت ہے۔ مستقبل کے لئے ضرورت سے زیادہ مال بچا کے رکھنا اور ضرورت مندوں کو محروم کر دینا گناہ ہے۔جس پروردگار نے ابھی مال دیا ہے مستقبل میں ضرورت پڑنے پر بھی دے گا۔ اللہ کی جگہ مال پر یقین وہ فکر ہے جس کے ذریعہ شیطان کو آپ آسانی سے شکار کر لے گا اور آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ آپ کا ایمان اور اسلام لٹ چکا ہے۔
(۱۴) عہد و پیمان کی پابندی بھی مومن کے لئے ضروری ہے۔وعدہ کر کے وعدہ پورا نہ کرنانفاق کی ایک علامت ہے۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو……‘‘(المائدہ: ۱)قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ’’اے ایمان لانے والو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو،یہ بات اللہ کے غضب کو بھڑکانے والی ہے کہ تم کہو وہ جو کرو نہیں۔‘‘(الصف:۲/۳)نبی ﷺ نے فرمایا ’’اس میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس میں دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں۔‘‘(طبرانی) اندازہ کیجئے :وعدہ خلافی کا گناہ کس قدر سنگین ہے۔قرآن کہتا ہے کہ وعدہ خلافی کرنے والے پر اللہ کو غصہ آتا ہے اور رسول اللہﷺ کہتے ہیں کہ وہ مومن ہی نہیں ہے۔کیا آپ کا خود سے فیصلہ کر لینا کہ آپ مومن ہیں یا دنیا والوں کا مان لینا کہ آپ مسلم ہیں آپ کے لئے کافی ہو سکتا ہے، جبکہ اللہ اور رسول اس کا انکار کر رہے ہیں۔اس وہم سے باہر نکلئے شیطان نے آپ کو گمراہ کر رکھا ہے۔
(۱۵) مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کا حق ادا کرنے کے بعد اس کے بندوں کے حقوق بھی ایمانداری کے ساتھ ادا کرے ورنہ وہ حق تلفی کرنے کا گنہگار بن جائے گا۔ قرآن کہتاہے کہ :’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو اُنہیں اُف تک نہ کہو، نہ اُنہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ اُن سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ اُن کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار اُن پر حم فرما جس طرح اُنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ بچپن میں مجھے پالا تھا۔‘‘(بنی اسرائیل ۲۳/۲۴) رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اُس کی ناک مٹی چاٹے(ایسا تین بار کہا)پوچھا گیاکس کی یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور (ان کی خدمت کر کے) جنت کا حقدار نہ بنا۔ ‘‘ (مسلم) ماں باپ بچپن میں کس محبت اور شفقت سے اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ اولاد جوان ہو اور ماں باپ بوڑھے ہو کراولاد کی خدمت کے محتاج ہو جائیں تو اُن کو بھول جانے والی اولاد سے بڑھ کر کوئی احسان فراموش نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسی اولاد سے کسی بھلائی کی کیا امیدکی جا سکتی ہے۔یہ اولاد تو شیطان کی دوست ہے۔
(۱۶) شادی ہو جانے کے بعد شوہر اور بیوی کی کیا حیثیت ہوجاتی ہے اس کا نقشہ قرآن نے اس طرح کھینچا ہے:’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۷ ) ’’اُس کی نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ اُس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے پیدا کیے تا کہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور اُس نے تمہارے درمیان الفت و محبت پیدا کر دی ، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘( الروم: ۲۱)رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’میاں بیوی سے زیادہ آپس میں محبت کرنے والا تم کسی اور کو نہ پاؤگے۔‘‘ (مشکوٰۃ) یہاں بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کا لباس بتایا جا رہا ہے۔لباس جسم کو آرام پہنچاتا ،موسم کی سختی سے بچاتا اور جسم کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے۔شوہر اور بیوی کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ یہی فرض نبھانا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کا جوڑہ بناکر اپنی نشانی دکھائی ہے اوراپنی قدرت سے اُن دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت پیدا کر دیتا ہے۔رسول اللہ ﷺ بھی یہی فرمارہے ہیں کہ اُن سے زیادہ آپس میں محبت کرنے والا تم کسی کو نہ پاؤگے۔یاد رکھئے شوہر اور بیوی اگر ایک دوسرے کے خیر خواہ نہیں ہوں اوربناؤ کی جگہ بگاڑ پیدا کریں تو وہ اللہ کی بندگی نہیں کر رہے ہیں بلکہ شیطان کے ایجنٹ بن کر معاشرے میں فساد پھیلا رہے ہیں۔فساد پھیلانا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
(۱۷) اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اوردنیا میں انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اولاد صالح ہو تواُس سے بڑا کوئی سرمایہ نہیں اور نالائق بن جائے تو اُس سے بڑا کوئی درد سر نہیں۔قرآن کہتا ہے:’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور اُن کو بھی دیں گے۔اُن کا قتل بڑا بھاری گناہ ہے‘‘(بنی اسرائیل: ۳۱) رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’کسی با پ نے اپنی اولاد کو اچھاادب سکھانے سے زیادہ قیمتی تحفہ نہیں دیا۔‘‘(بیہقی) عہد جدید کی تہذیب معیاری زندگی کا فریب دے کر فیملی پلاننگ کے نام پراولاد کو دنیا میں آنے سے روکنے کا طریقہ سکھا رہی ہے۔جس اولاد کو پیدا ہونا ہے اُس کو اللہ تعالیٰ پیدا کر کے رہے گا۔ لیکن بدنصیب ماں باپ اولاد کو پیدا ہونے سے روک کر اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مرتکب ضرور ہو جائیں گے۔ اولاد کونیک اور اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔نیک اولاد دنیا اور آخرت دونوں جگہ اپنے والدین کے لئے رحمت اور برکت کا ذریعہ بنتی ہے۔
(۱۸) کسی بھی اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے اچھا تعلق اور رشتہ بنائے رکھے اور ہر طرح اُن کی خیر خواہی کرتا رہے۔قرآن میں رشتہ داروں کو ذوی القربیٰ کہا گیا ہے اور اُن کا حق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘(بخاری)یاد رکھئے اگر آپ جنت کے حقدار بننا چاہتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیجئے۔اس کے بغیر نہ آپ کا ایمان سلامت رہے گا اور نہ اسلام۔
(۱۹) ہر اہل ایمان پر اُس کے پڑوسی کا بھی حق ہے چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ قرآن میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’وہ جنت میں نہیں جائے گا جس کی شرارتوں سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘ (مسلم) سوچئے اگر آپ کے پڑوسی سے آپ کے تعلقا ت اچھے نہیں ہیں تو آپ کا جنت میں جانا ممکن نہیں ہے اور ایسا اس وجہ سے ہوگاکہ آپ مسلمان باقی نہیں رہے۔یہ بات کوئی اور نہیں رسول اللہﷺ فرمار ہے ہیں۔کیا ان کی بات بھی کوئی مسلمان نہیں مانے گا ؟قرآن و سنت کا اسلام ہی اصل اسلام ہے۔ ہر طرف سے منہ موڑ کر اسی کی پیروی کیجئے اور اللہ اور اُس رسول کے دوست بن جائیے۔ شیطان کی دوستی اور سنگت سے توبہ کیجئے اور بچئے۔ وہ آپ کی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر کے رہے گا۔
ۃضظژظضۃ