اللہ ان لوگوں کوپسندنہیں کرتا ہے

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514

کسی دفتر یا کارخانے میں بہت سے ملازم کام کرتے ہوں اور اُن کے کام سے مالک خوش ہوتو اُن ملازموں کی تنخواہیں بھی مالک بڑھا دے گا،اُن کو سال میں بونس بھی دے گا اور اس کے علاوہ بھی کئی طرح کی سہولتیں دے گا۔لیکن اگر مالک ملازموں کے کام سے خوش نہیں ہوتو نہ اُن کی تنخواہیں بڑھائے گا، نہ بونس دے گا اور نہ سہولتیں دے گا، بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ نوکری سے ہی نکال دے گا۔یہ ایسی بات ہے جس کو ہر آدمی بھلی بھانتی سمجھ سکتا ہے اور اس کا یقین بھی کر سکتا ہے۔
لیکن یہی بات جب اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی جاتی ہے تو لوگ نہیں مانتے ہیں، ماننا تو دور سننا بھی نہیں چاہتے ہیں۔اللہ ساری دنیا اور کائنات کا پیدا کرنے والا،ان کا تنہا اور پورا مالک ہے۔ ہر چیز پر صرف اُسی کی حکومت چل رہی ہے۔پوری کائنات کا انتظام اللہ کے قبضے اور قدرت میں ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اُس کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کچھ کر سکے یا مالک کا حکم ٹال سکے۔یا نافرمانی کر سکے۔
صرف آدمی کو اللہ نے یہ اختیار اور آزادی دی ہے کہ وہ چاہے تو اللہ کو اپنا خالق، مالک ، حاکم اور رازق مانے یا اس کا انکار کر کے دوسروں کومالک ،حاکم اور روزی دینے والا سمجھے۔جو لوگ اللہ کو ہی سب کچھ مانتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک مسلم اور مومن ہیں اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کومالک ،حاکم اور روزی دینے والا سمجھتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک کافر ، منکر اور ظالم ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جن چیزوں کو اُس نے پیدا کیا ہے اگر وہ اُن کو جینے کی جازت اور جینے کے لئے روزی نہیں دے گا تو کوئی دوسرا یہ سب دینے والا نہیں ہے۔اس لئے وہ اپنے فرماں بردار اور نافرمان دونوں بندوں کو یہ ساری چیزیں بلا روک ٹوک دے رہا ہے۔فرق اتنا ہے کہ جیسے کوئی ماں اپنے بیٹے کو جس نظر سے دیکھتی ہے اور اُس کے ساتھ جو سلو ک کرتی ہے اُس نظر سے سوتیلے بیٹے کو نہیں دیکھتی ہے اورنہ اپنے بیٹے جیسا سلوک کرتی ہے۔یہ معاملہ اللہ کا اپنے نیک اور برے بندوں کے ساتھ ہے۔
جو آدمی چاہتا ہے کہ دنیا میںچین اور آرام سے خوش گوار زندگی گزارے اور ہر آفت، بلا اور مصیبت سے محفوظ رہے اُس کو جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے کن کاموں کو ناپسند کرتا ہے اور ایسے کام کرنے والوں سے ناخوش ہو جاتا ہے۔اور ایسے غلط اور برے کاموں سے بچے تاکہ اللہ کی رحمت کا حقدار بنا رہے۔اور جو آدمی ان باتوں کو نہ جانے گا نہ مانے گا نہ ان سے بچے گا وہ دنیا میں ناکام رہے گا اور آخرت میں بھی جہنم کی آگ میں جلے گا۔اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے جو اُس کو عذاب سے بچا سکے گا۔نیچے ایسی……آیتیں پیش کی جارہی ہیں جن میں ایسے کام بتائے گئے ہیں جن کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔
(۱) پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی ، دونوں جنت میں رہو اور یہاں فراغت کے ساتھ جو چاہو کھاؤ پیو، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا،ورنہ ظالموںمیں شمار ہوگے۔(البقرہ:۳۵)
اللہ تعالیٰ نے جب آدم و حوا علیہم السلام کو جنت میں بھیجا تو حکم دیا کہ فلاں درخت کو مت چکھنا،ورنہ ظالم بن جاؤگے۔آگے بتایا گیا ہے کہ شیطان نے اُن کے بہکا کر وہ درخت چکھوا دیا اور وہ ظالم یعنی اللہ کے نافرمان بن گئے۔پھر اُنہوں نے اللہ نے اُ ن کو کچھ کلمات سکھائے جن کے ذریعہ سے اُنہوں نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں معاف کر دیا۔یعنی انسان سے اگر گناہ ہو گیا ہے تو اُس کو مایوس ہونے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اللہ سے وعد ہ کرے کہ آگے وہ ایسا گناہ نہیں کرے گا،اپنے گانہ کی معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ اُس بندے کو معاف کر دے گا اوراُس سے راضی ہو جائے گا۔
(۲) اگرتم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا ۔ (البقرہ:۱۴۵)
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ جب تک انسانوں کوقرآن نہیں ملا تھا اور اللہ کے آخری نبیﷺ کی باتیں نہیں معلوم ہوئی تھیں، اُن کا اپنی پسند کی زندگی گزارنا جائز ہو سکتا تھا ، لیکن جب اللہ کی کتاب آگئی اور نبیﷺ بھی اس کتا ب کی تعلیم دینے لگے اور پھر دنیا کو معلوم ہو گیا کہ اسلام کیا ہے، پھر بھی لوگ اسلام کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں تو وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔
(۳) اوراللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے۔(آل عمران:۵۷)
اس آیت میں کہاجارہا ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر ظالم بنے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو سدھارنا نہیں چاہتے ہیں تو وہ ظالم ہیں اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
(۴) کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خود اس بات پرگواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں۔اللہ ظالموں کو توہدایت نہیں دیاکرتا۔(آل عمران: ۸۶)
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ جب تک اللہ کسی کو ہدایت نہ دے کوئی دوسرا اُس کو ہدایت نہیں دے سکتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے مسلم گھرانوں میں پیدا کر دیا اور دنیا کے سامنے وہ اپنے مسلمان ہونے کا اقرار اور اعلان کر چکے ہیں پھر بھی اگر کافر و مشرک اور منکر جیسے زندگی گزار رہے ہیں تووہ اس لائق نہیں ہیں کہ اُن کو اللہ ہدایت دے۔ یہ زندگی بھر اللہ کے نافرمان بن کر دنیا میں عذاب جھیلتے رہیں گے اور مرنے کے بعد مسلسل قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ کا مزہ چکھتے رہیں گے۔
(۵) یقیناللہ خیانت کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔(انفال۵۸)
جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ بے ایمانیاں کرتے ہیں،اُن کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں،اُن کا حق مارتے ہیں، اور اُن کو بلا وجہ ستاتے ہیں،اُن کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے۔
(۶) وہ ا ن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہوں۔(نحل۲۳) اللہ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔(حدید۲۳)
جو لوگ غرور کرتے یعنی اپنے کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا اور حقیر سمجھتے ہیں اُن کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے۔ہر وہ آدمی جس کو اللہ زیادہ دولت ، اچھی حیثیت اور سماج میں اونچا درجہ دے دیتا ہے وہ گھمنڈ کرنے لگتا ہے اور دوسرے کمزور، ان پڑھ اور غریب لوگوں کو حقیر نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی جگہ اللہ کے کمزور بندوں کا مذا ق اڑانے لگتا ہے۔ایسے لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔
(۷) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیرے اور اس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے۔ ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات سمجھنے نہیں دیتے، اور ان کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ،و ہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہیں پائیں گے۔(کہف:۵۷)
اللہ کے نیک بندے انجان لوگوں کو قرآن کے اور سنت کے حوالے سے نیکی کی باتیں بتاکر سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن بدنصیب لوگ ان باتوں کو سننے اور ان پر عمل کرنے کی جگہ ان سے منہ موڑتے اور ان سے غفلت برتتے ہیں تو اللہ ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے اور ان کو اس لائق ہی نہیں رہنے دیتا کہ وہ ہدایت کی راہ پر چل سکیں۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ان کے حق میں جہنمی ہونے کا فیصلہ کر دیا گیا۔اب ایسے لوگ نہ تو ہدایت پائیں گے، نہ نیک بنیں گے ، نہ اللہ کی رحمت کے حقدار بنیں گے اور نہ جہنم کی آگ سے بچ پائیں گے۔
(۸) اللہ فساد پھیلانے والوںں کو پسندنہیں کرتا۔(قصص۷۷)
فساد پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میںاونچ نیچ اور بھید بھاؤ کیا جائے۔مذہب کے نام پر اس وقت سب سے بڑا فساد یہ ہو رہا ہے کہ عالموں نے اپنے الگ الگ فرقے بنا دیے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو آدمی اُن کے فرقے میں ہے وہ مومن و مسلم ہے اور جو اُن کے فرقے میں نہیں ہے وہ کافر و مشرکااورمنافق ہے۔جبکہ مومن و مسلم اور کافر و مشرک ہونے کا فیصلہ قرآن و سنت کے احکام کی پیری اور نافرمانی کی بنیاد پر ہوگا۔ان ظالموں نے قرآن وسنت کی جگہ اپنی مرضی اور پسند کا لوگوں کو غلام بنانا شروع کر کے سماج میں فساد پھیلا رکھا ہے۔
(۹) پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اوراُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دیااور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اور کون ہے جو اسے ہدایت دے۔ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔(جاثیہ:۲۳)بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوش نما بنادیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں۔(محمد:۱۴)
اس آیت میں نہایت خطرناک بات کہی جا رہی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے دین کا علم حاصل کیا، عالم و فاضل کہلائے، لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی شریعت کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ،یعنی جو ان کا دل چاہے گا وہی کریں گے،اور اللہ اور نبیﷺ کے وفادار بننے کی جگہ منکر و مشرک سیاسی آقاؤں کی غلامی پر کمر بستہ ہیں، ایسے لوگوں کے دل، کان اورآنکھ پر اللہ مہر لگا کر پردہ ڈال دیتا ہے۔ا ب دنیا کی کوئی طاقت ان کو سیدھے راستے پر نہیں لا سکتی ہے۔یہ دوسروں کو کیا دین کی راہ دکھائیں گے یہ تو ایسے لوگ ہیں جن کے لئے دنیا میں ہی جہنمی ہونے کا فیصلہ اللہ نے کر دیا۔دوسری آیت میں اللہ کے نیک بندوں کی صفت یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ اُن لوگوں کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں جو اپنی خواہشات کے غلام بن گئے ہیں اور نیکی اور عبادت کے نام پر وہ کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کا حکم اور اجازت اللہ اور اس کے رسول نے نہیں دیا ہے۔یہ تو ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ صرف یہی نہیں کہ پسند نہیں کرتا ہے بلکہ ان کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کر چکا ہے۔دور حاضر میں کون ہے جو اپنی خواہشوں کا غلام نہیں ہے ؟ نامور علما اور مذہبی قائدین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے خیمے میں کھڑے اُس کے وفادار دکھائی دے رہے ہیں۔ استغفر اللہ!
یہ تحریر ایک آئینہ ہے۔اس کا پڑھنے والا اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے اور پہچانے کہ وہ اُن بندوں میں ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور محبوب رکھتا ہے یا اُن بندوں میں ہے جن کو اللہ ناپسند کرتا ہے اور اُن سے ناراض رہتا ہے۔اور پھر اپنی کمزور یوں اور خرابیوں کو سدھارنے کی کوشش کرے اور اچھا انسان بن جائے۔لیکن جو لوگ ایسی تحریروں کو پڑھنا ، سمجھنا اور اس کو ماننا ہی نہیں چاہتے ہیں اور اُن کا اعلان ہے کہ ہم جیسے ٹیڑھے میڑھے ہیں ویسے ہی رہیں گے، بدلنے والے نہیں ہیں تو اُن کا تو بس خدا ہی حافظ ہے۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
————–
اٹھو !وگرنہ حشر ، نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو ! زمانہ چال ، قیامت کی چل گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *