عائلی مسائل حل کرنے کے لئے ممبرا میں محکمہ شرعیہ کا قیام

محکمہ شرعیہ کے قیام کے لئے میٹنگ میں شریک علماء کرام و سماجی کارکنان
محکمہ شرعیہ کے قیام کے لئے میٹنگ میں شریک علماء کرام و سماجی کارکنان

کونسیلنگ سینٹر کے ساتھ خواتین کے مسائل خواتین سماعت کریں گی

ممبرا: مدرسہ ارقم چیریٹیبل ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والا مدرسہ جامعہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ میں محکمہ شرعیہ قائم کرنے کے لئے علاقے کے سر بر آوردہ اصحاب کی میٹنگ ہوئی جس میں تمام مسالک و مشارب کے لوگوں نے محکمہ شرعیہ کے قیام کی ضرورت کا احاطہ کرتے ہوئے اسے خوش آئند قدم قرار دیا ۔مدرسہ ارقم چیریٹیبل ٹرسٹ سے وابستہ دانش ریاض نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ “ممبرا و کوسہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے دارالقضاء قائم ہے لیکن عائلی مسائل اور خاندانی جھگڑے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ایک ادارہ اس بار کو اٹھانے میں ناکافی ثابت ہو رہا ہے لہذا ضرورت اس بات کی محسوس کی گئی کہ تمام مسالک و مشارب کے لوگوں کے اشتراک سے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جہاں لوگ بلا جھجھک اپنے مسائل کا تصفیہ کراسکیں اور پولس اسٹیشن جانے سے انہیں محفوظ رکھا جاسکے ۔الحمد للہ ممبئی میں قائم محکمہ شرعیہ اس ضرورت کو بہترین انتظام کے ساتھ پوری کررہا ہے جس کی ایک شاخ اب ممبرا میں بھی قائم ہونے جارہی ہے ۔”محکمہ شرعیہ، ممبئی کے رکن مفتی حبیب پٹیل صاحب نے بتایا کہ اسلام صرف چند اعتقادات اور عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے چاہئے، حکومتی اداروں میں اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک ہوتی ہے، مفتی صاحب نے مفتی اور قاضی کا فرق بھی سمجھایا۔جمعیت اہلحدیث سے وابستہ جامعہ اسلامیہ نورباغ کوسہ کے ناظم مولانا فیصل عبد الحکیم مدنی نے خاندانی نظام اور نکاح و طلاق پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسلام نے تمام مسائل کا تفصیلی حل بتایا ہے اور خاندانی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ طلاق کے واقعات میں اسلام نے انتہائی آخری درجے میں جدائی کا راستہ بتایا ہے ورنہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح تادیب کے ذریعہ معاملہ حل ہوجائے اور ایک خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے ۔مختلف قرانی آیات، احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “موجودہ دور میں خاندانی نظام کو بچانا اور عائلی مسائل کا فوری تصفیہ کرنا انتہائی ضروری ہے. “آل انڈیا ملی کونسل سے وابستہ مولانا عبد الرحمن ملی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” ممبرا میں آبادی کے اعتبار سے اگر دس دار القضاء اور محکمہ شرعیہ بھی قائم ہوں تو بھی کم ہیں۔یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ مدرسہ ارقم چیریٹیبل ٹرسٹ نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اپنے ادارے میں محکمہ شرعیہ قائم کیا ہے ۔”آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قاضی عبد اللہ نور صاحب نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ تین ہزار مقدمات ان کے پاس زیر سماعت ہیں کہا کہ “اگر اس جگہ کونسیلنگ سینٹر قائم ہوجائے تو یہ علاقے کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔” انہوں نےکہا کہ بعض مسائل کونسیلنگ سے حل کئے جا سکتے ہیں لیکن کونسیلنگ سینٹر کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔”شافعی مسجد کے امام مفتی سعید گھارے نے محکمہ شرعیہ کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ہمارے چھوٹے چھوٹے ادارے تو قائم ہوں لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قاضی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور چیف قاضی کے طور پر ان کا فیصلہ قبول کیا جائے “-سوالات و جوابات کے دوران جماعت اسلامی ممبرا سے وابستہ عبد السلام ملک نے کہا کہ” عورتوں کے مسائل کے لئے عورتیں ہی معاملات سماعت کریں اس بھی انتظام ہونا چاہئے جبکہ شادی سے پہلے پری میریج کونسیلنگ کا انتظام کیا جانا چاہئے ۔” جس کے جواب میں دانش ریاض نے کہا کہ “ہمارے ادارے نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ہم ان معاملات میں جہاں خواتین اپنے مسائل کسی خاتون کو بتانا بہتر سمجھتی ہوں اس کا بھی انتظام کر رہے ہیں جبکہ کونسیلنگ کے لئے 24 گھنٹے خدمات بہم پہنچانے کی کوشش بھی کریں گے ان شاء الله ۔محکمہ شرعیہ کے ذمہ دار مفتی عبد الاحد فلاحی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ “محکمہ شرعیہ صاف و شفاف نظام کی وکالت کرتا ہے اور اسے برتنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے،جس میں کم از کم تین مفتیان کرام معاملے کی سماعت کرتے ہیں اور متفقہ طور پر کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں اگر کسی نے اختلاف کیا تو جب تک معاملے کی گہرائی میں جاکر تمام کے مابین اتفاق نہ ہوجائے اس وقت تک فیصلہ صادر نہیں کرتے۔” انہوں نے کہا کہ ممبئی سمیت کئی علاقوں میں محکمہ شرعیہ قائم ہے اور بہت ہی ایمانداری کے ساتھ اپنے کام انجام دے رہا ہے ۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *