نبوی دور میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم و تربیت کا مرکز تھی

معیشت کی خصوصی پیشکش مثالی مسجد سیریز:

مسجد نبوی
مسجد نبوی

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قائم مقام جنرل سکریٹری مولا نا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے دو روز قبل مساجدمیں لائوڈاسپیکر کے استعمال پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ایسا واویلا مچا کہ انہیں اپنی بات واپس لینی پڑی اور اپنے بیان سے رجوع کرنا پڑا ۔مساجد میں لائوڈ اسپیکر کے استعال کے بہانے ہی اگر اس بحث کو چھیڑا جائے کہ آخر مساجد کا استعمال کن کن چیزوں کے لئے کیا جانا چاہئے اور نبوی دور میں قائم مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کون کون سے امور انجام پاتے تھے تو ہم موجودہ دور میں بھی مسجدوں کی اہمیت سے عام انسانیت کو مستفید کرپائیں گے۔
دراصل دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ کا نام ہے اور مسلم معاشرہ میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔جب تک قلب متحرک ہوتا ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب ساکت ہو جا تا ہے تو جسم بھی شل پڑ جاتا ہے۔مسجد دن رات کے کسی بھی لمحہ نہ صرف فرض نمازوں،سنن و نوافل ،اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت وریاضت ،تعلیم و تربیت ،دعوت وتبلیغ، تزکیہ نفس اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مضبوط مرکز ہے جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لارہے تھے توراستہ میں ہی دوران سفر سب سے پہلے اپنے دست مبارک سے مسجد قباء بنائی اور یہاں پہلا جمعہ ادا کیا ۔مدینہ پہنچ کر بھی اپنے گھر کی تعمیرسے پہلے مسجد نبوی ﷺکی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قرار دیا ۔ہمارے پاس مسجدیں الحمدللہ ہزاروں لاکھوں کی تعدادمیں ہیں۔ ہر علاقے میں چھوٹی مسجدوں سے لیکر جامع مسجدیں تک موجود ہیں ۔جن کے کل احاطہ کو ناپا جائے تو ہمیں احساس ہوگا کہ کتنی بڑی جگہ ہمارے پاس ہے اور ہم اس پوری جگہ کو کتنا استعمال میں لا رہے ہیں۔
امام بخاریؒ نے اپنی کتا ب ’’الجامع الصحیح ‘‘میں مسجد کے احکا م و آداب اور اس کے استعمال کے دائرے کی تفصیل ۵۰ سے زیادہ ابواب باندھ کر بیان کی ہے،جس سے مسجد کی اہمیت ،اس کے استعمال کا وسیع دائرہ اور معاشرہ میں اس کے مقام و مرتبہ کے علاوہ انسانیت کی خدمات کے مرکزکا پتہ چلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجد نبوی ﷺ قیامت تک کے لئے امت مسلمہ کے لیے ایک مینارۂ نور اور اسوۂ نبوی ﷺکا عملی نمونہ ہے۔ اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے کی مساجد میں ہونے والے امور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرہ میں عبادت وبندگی،تعلیم وتربیت اور خدمت خلق کا مرکز اور محور بنانے کی بجائے کس طرح مصنوعی تقدس دے کر نہ صرف مسلم سماج و سوسائٹی کو بلکہ پوری انسانی برادری کو اس کے حقیقی فوائد اور ثمرات سے محروم کر رکھا ہے۔اس کی ظاہری بناوٹ ،سجاوٹ اور صفائی ستھرائی کی ما شاء اللہ بھر پور کوشش کی جاتی ہے لیکن اسے مسجد نبویﷺکی طرح حرکت و عمل اور مرجع خلائق کا ایک اعلی اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
اسلام کے دور عروج میں مسجدوں کااعلی کردار مسجد نبویﷺکی طرح پوری دنیا میں عیاں تھا۔یہاں صرف مسجد نبویﷺ کی چند اہم سر گرمیوں کی ایک جھلک اختصاراََ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان سرگرمیوں کی روشنی میں ہم اپنی مساجد کی تعمیر، ان میں تعلیم و تربیت،امت اور انسانیت کی ضروریات کی تکمیل اور خدمت خلق کے اہم کاموں کا سنجیدگی سے جائزہ لے سکیں اور مسجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی و کوشش آسان ہو۔
۱) تعلیم و تربیت کا مرکز: مسجد نبویﷺ کے اندر’صفہ‘نام کا ایک چبوترہ تھا جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا ۔ جو دن کے وقت علم کے متلا شیوں کے لئے تعلیم گاہ کا کام دیتا اور رات کے وقت بے گھرلوگوں کے سونے کا۔گویا یہ پہلی اقامتی (ریسی ڈینشیل)یونیور سٹی تھی ،جو رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمائی تھی ۔اہل مدینہ اپنی انتہائی فیاضی وسخاوت کے باعث جب کھجوروں کی فصل تیار ہوجاتی تو ہر صاحب حیثیت کھجوروں کا ایک ایک خوشہ تحفہ کے طور پر لاتا اور مسجد نبویﷺ کے اندر صفہ میں لٹکا دیتا ۔ان میں سے کچھ کھجوریں گرتیں تو صفہ میں رہنے والے غریب مسلمان اسے کھالیتے ۔حضرت معاذبن جبلؓ جب اپنی انتہائی فیاضی کے سبب مقروض ہو گئے تو قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں انھیں اپنا مکان تک فروخت کر دینا پڑا اور انھیں بھی رہنے کے لیے صفہ میںجگہ دی گئی ۔اصحاب صفہ کے لئے کبھی رسول اللہﷺ کے گھر سے اور کبھی دیگر صحابہ ؓکی طرف سے کھانے کا انتظام ہوجاتا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓنے ایک دن اہل صفہ کے ۸۰ آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔
اصحاب صفہ کو تعلیم و تربیت کے علاوہ فوجی کام بھی کرنے پڑتے تھے مثلاََ بعض اوقات کسی قبیلے کے خلاف فوج کشی کرنے کی ضرورت پڑتی،یعنی دشمن کو سزا دینے یا تعاقب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتاتو اصحاب صفہ پیش پیش نظر آتے تھے۔اسی تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔مشہور فقیہ عبد اللہ بن مسعود ؓ،مشہور قاری سالم مولی ابن حذیفہ ؓ، مشہور محدث عبد اللہ بن عمر ؓ ،مشہور زاہد ابو ذر غفاری ؓ، صہیب رومی ؓ،سلمان فارسی ؓ ، ابو الدردا ؓ، حضرت ابن ام مکتومؓ،مؤذن رسول حضرت بلال ؓ،غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ ؓ،فاتح عراق سعد بن ابی وقاصؓ،فاتح آرمینیا حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ وغیرھم۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *