جس کو نہ دے مولیٰ اس کو دے سراج الدولہ

انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دینے والے آزاد ہندوستان کے نواب سراج الدولہ
انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دینے والے آزاد ہندوستان کے نواب سراج الدولہ

دانش ریاض، معیشت، ممبئی
یہ محض تین صدی قبل کی بات ہے جب بنگال بہار اور اڑیسہ میں نواب سراج الدولہ حکمرانی کیا کرتے تھے۔ 1757ء میں میر جعفر کی غداری سے انہیں شکست ملی اور بنگال میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین بہار کے حکمران تھے، جبکہ والدہ امینہ بیگم بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ بنگال کے تخت کے وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔ ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی اور انہوں نے اوائلِ جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی ۔کہتے ہیں 1746ء کا واقعہ بڑا مشہور ہے جب انہوں نے مہاراشٹر کے مرہٹوں کو شکستِ دی تھی۔یہی وجہ ہے کہ 1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیاتھا ۔چونکہ نواب ایک مذہبی آدمی تھے اس لئے دین کی بنیادی تعلیمات کا بڑا خیال رکھتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں جب قحط پڑا تو اچھے اچھوں کی حالت خراب ہوگئی ۔ہر طرف بھوک مری تھی لوگ دانے دانے کو ترس رہے تھے جب نواب کو اس کیفیت کا پتہ چلا تو انہوں نے روزگار فراہم کرنے اور لوگوں میں غلہ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس کا آغاز ایسے کیا کہ دن میںوہ ضرورت مند مزدوروں سے تعمیراتی کام کرواتے اور رات میں ضرورت مند شرفاء سے وہ دیوار یا عمارتیں گروادیتے یہی لوگوں کے لئے روزگار کا تھا اور یہی ذریعہ معاش بھی ۔اس طرح لوگ عزت کی روٹی کمارہے تھے اور حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ جب لوگوں نے سراج الدولہ سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب رعایا میں ایک بار مفت خوری کی عادت پڑجائے گی تو پھر وہ کبھی محنت کشی پر آمادہ نہیں ہوں گے اسی طرح میں لوگوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھتا ہوں کہ سفید پوش رات میں مزدوری کے ذریعہ اپنی سفید پوشی بھی قائم رکھتے ہیں اور عزت کی روٹی بھی کما لیتے ہیںجبکہ مزدوروں کو کام مل جاتا ہے اور کسی کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ۔نواب سراج الدولہ کی دینداری اور عزت نفس کی رکھوالی اس قدر مشہور ہوئی کہ مثل مشہور ہوگیا کہ جس کو نہ دے مولیٰ اس کو دے سراج الدولہ
اس مثال کی روشنی میں اب آپ موجودہ وبائی دور میں لوگوں کی کیفیت کا جائزہ لیں اور پھر ضرورت مندوں کی امداد کرنے والوں کے تگ ودو کا تجزیہ کریں توآپ کو بجا طور پر محسوس ہوگا کہ یہ مذہب و انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کی نظر میں مقہور و مجبور باور کرانے کی کوشش ہے۔ممکن ہے آپ اس سے اتفاق نہ کریں لیکن آنکھ بند کرکے ذرا پورے معاملے کو سوچیں اور پھر دل سے پوچھیں کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ہی لوگوں میں اناج تقسیم کیا تھا جس طرح کارپوریٹ کی نقالی کرنے والے کررہے ہیں۔کیا یہ لوگ غیر محسوس انداز میں عزت نفس کا سودا نہیں کر رہے ہیں؟ کیا ہم اس کے ذریعہ مفت خوری کی عام عادت کو قوت نہیں بخش رہے ہیں؟ دجال کی آمد سے قبل دنیا جس کیفیت میں مبتلا کر دی جائے گی کیا ہم غیر محسوس انداز میں اس کے لئے راہیں ہموار نہیں کر رہے ہیں؟
کچھ لوگوں نے اس مثل کو آصف الدولہ سے بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے ، درست کیا ہے مجھے اس کا علم نہیں بس پیغام میں نے منتقل کردیا ہے۔
ایک بار آپ بھی سوچیں اور فلاحی کاموں میں اس نبوی طریقے کو اختیار کریں جس کی تعلیم ہمارے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *