مشہور ہندوستانی اسکالر سیکڑوں کتابوںکے مصنف مولانا وحید الدین خان کا انتقال

مولانا وحید الدین خان رحمہ اللہ
مولانا وحید الدین خان رحمہ اللہ

طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئے اور وبائی مرض کروناکا شکار ہوکر اللہ کو پیارے ہوگئے
ممبئی(معیشت نیوز) مشہور ہندوستانی اسکالر سیکڑوں کتابوںکے مصنف مولانا وحید الدین خان کا آج شام دہلی میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔طبیعت کی ناسازی کی وجہ سےانہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں بعد میں کرونا ٹیسٹ کے بعد پوڑیٹیو رپورٹ آئی تھی ۔جب نظام تنفس بگڑ ا تو انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا لیکن وقت موعود آنے کے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا کے انتقال سے ایک صدی کا خاتمہ ہوگیا۔
واضح رہے کہ مولانا وحیدالدین خاں کی ولادت یکم جنوری 1925ء کو بڈھریا اعظم گڑھ، اتر پردیش میں ہوئی تھی۔ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل عالم دین، مصنف، مقرر اورمفکر جو اسلامی مرکز نئی دہلی کے چیرمین، ماہ نامہ الرسالہ کے مدیر تھے1967ء سے 1974ء تک الجمعیۃ ویکلی(دہلی) کے مدیر رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں بلا تفریق مذہب و نسل مطالعہ کی جاتی ہیں۔ مولانا وحید الدین خان صاحب پانچ زبانوں پر عبور رکھتے تھےیعنی اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی۔ ان زبانوں میں لکھتے اور تقریر بھی کرتے تھے، ٹی وی چینلوں میں آپ کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ مولانا وحیدالدین خاں عام طور پر لبرل طبقہ میں امن پسند مانے جاتے ہیں۔ ان کا مشن مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرناتھا۔ اسلام کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں ہیں انہیں دور کرنا۔ مسلمانوں میں مدعو قوم (غیر مسلموں) کی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پرصبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کرنا جو ان کی رائے میں دعوت دین کے لیے ضروری تھا۔
الرسالہ نامی ایک ماہ نامہ جو اردو اور انگریزی زبان میں شائع کیا جاتا ہے۔ الرسالہ (اردو) کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ذہنی تعمیر ہے اور الرسالہ (انگریزی) کا خاص مقصد اسلام کی دعوت کو عام انسانوں تک پہنچانا ہے، دور جدید میں الرسالہ کی تحریک، ایک ایسی تحریک ہے جو مسلمانوں کو منفی کارروائیوں سے بچ کر مثبت راہ پر ڈالنے کےلئے جانی جاتی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ’’1976ء میں الرسالہ کے اجراء کے بعد سے جو کام میں کررہاہوں،اس کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو یہ سبق دے رہاہوں،کہ وہ منفی سوچ سے اوپر اٹھیں اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیار کریں۔‘‘خان صاحب لکھتے ہیں کہ:(میری پوری زندگی پڑھنے،سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گذری ہے۔ فطرت کا بھی اور انسانی تاریخ کا بھی۔ مجھے کوئی شخص تفکیری حیوان کہہ سکتاہے۔ میری اس تفکیری زندگی کا ایک حصہ وہ ہے جو الرسالہ یا کتب میں شائع ہوتا رہاہے۔ اس کا دوسرا،نسبتاً غیر منظم حصہ ڈائریوں کے صفحات میں اکھٹا ہوتا رہاہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ میری تمام تحریریں حقیقتاً میری ڈائری کے صفحات ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ لمبی تحریروں نے مضمون یا کتاب کی صورت اختیار کرلی۔ اور چھوٹی تحریریں ڈائریوں کا جزء بن گئیں۔
ان تمام کے باوجود مولانا کی کچھ تحریریں اور نظریات ایسے ہیں جن کی وجہ سے اہل علم ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اختلاف معمولی نہیں ہے بہت سی باتوں میں یہ جمہور علما ءاسلام سے الگ رائے رکھتے ہیں۔ جیسے انسان کامل، جہاد، دجال، مہدی، ختم نبوت کا مفہوم، ظلم کو برداشت کرنا اور جوابی کارروائی سے گریز کی تلقین، تقلید شخصی، وغیرہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *