جی ہاں !مسجد کو کورنٹائن سینٹر بنانا بھی ایک فتنہ ہے

دانش ریاض
دانش ریاض

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

جس طرح سے کرونا وائرس ایک فتنہ اور شیطانی چال ہے جس کےذریعہ سیکڑوں انسانوں کو موت کےگھاٹ اتار دیا جارہا ہے اسی طرح اس وائرس کے بہانے ہزارہا فتنے بھی جنم پارہے ہیں جس میں ایک اہم فتنہ مساجد کو کورنٹائن سینٹر بنانابھی ہے۔ سب سے پہلے تو مساجد میں عبادت پرپابندی لگا دی گئی اور اسے مکمل طور پر بند کروادیا گیا۔جب بعض ٹرسٹیان اور مساجد کے ذمہ داران نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو کمیونیٹی ہی سےایسے لبرل لوگوں کو آگے بڑھایا گیا جومساجد میں عبادت پر سوالیہ نشان لگائیںاور کرونا وائرس کی سنگینی کو سمجھائیں ۔اور پھر جب مسجدیں مکمل طور پر خالی ہوگئیں تو یہ سوشہ چھوڑا گیا کہ آخر اتنی بڑی عمارت کا کچھ تو استعمال ہو اور پھر وہ استعمال یہ ٹھہرا کہ اسےکورنٹائن سینٹر بنا دیا جائے۔
مسلمانوں کا ایک طبقہ جو شیطانی مقتدرہ سے غیر محسوس انداز میںقربت چاہتا ہے اس نے اس کی تشہیر و تعریف بھی ایسے کی کہ لوگ باگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ مساجد کو کورنٹائن سینٹر میں تبدیل کردیا جائے۔میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مساجد کا استعمال مختلف کاموں کے لئے ہوا ہے لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مساجد کو بند کرکے ،عبادت پر پابندی لگا کر اسے کسی دیگر مقصد کےلئے استعمال میں لایا گیا ہو۔المیہ یہ ہے کہ جب ہم نے مساجد میں ان کاموں سے اجتناب برتنا شروع کردیا جس کا کہ التزام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر بعد میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کرتے تھے تو ہمیں آج اس کی تعبیر و تشریح میں تکلیف پیش آنے لگی ہے۔
دراصل مساجد کو کورنٹائن سینٹر بنانے کا فیصلہ بھی اس بات پر منحصر ہے کہ آیا ہم موجودہ کرونا وائرس کو شیطانی مقتدرہ کی کوشش کا نتیجہ قرار دیتےہیں یا محض ایک اتفاقی وبا اور بیماری۔جب آپ محض ایک اتفاقی وبااور بیماری قرار دیتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لئے ان تدبیروں کا استعال کریں گے جس کاکہ عموماً کسی متعدی وبا کے وقت کیا جاتا ہے توآپ خسارے کا سودا کریں گے جیسا کہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔لیکن جیسے ہی آپ شیطانی وبا سمجھتے ہوئے اس سے محتاط رہنے اور رحمانی تدبیریں اختیار کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا اوررحمان کی تمام طاقتیں شیطانی قوتوں سے لڑنے میں آپ کے پابہ رکاب ہوں گی۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے’’ اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاۃ دیتے ہوں اوراللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ التوبۃ: ۱۸)اگر ہم اس آیت پر غور کریں جس میں فرمایا گیا کہ یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(سورہ اعراف۳۱) تومساجد کے ادب و احترام کے تعلق سے یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ان میں ناپاکی کی حالت میں داخل نہ ہوا جائے، کوئی ناپاک چیز داخل نہ کی جائے، شور نہ مچایا جائے، بدبودار چیز کھاکر نہ جایا جائے،حتی الامکان صاف ستھرے لباس پہن کر جایا جائے وغیرہ وغیرہ۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی مسجدوں کے احترام کے تعلق سے جو باتیں بتائی ہیں وہ بھی مسلمانوں کی طرف سے کورنٹائن سینٹر بنانے والے فیصلوں کی مخالفت کرتی ہیں مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کو سب جگہوں سے زیادہ محبوب مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔ (صحیح مسلم) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں،یہ آسمان والوں کے لئے ایسے چمکتے ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی ) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اندھیروں میں بکثرت مسجدوں کو جاتے رہتے ہیں ان کو قیامت کے دن پورے پورے نور کی خوشخبری سنادیجئے۔ (ابوداود) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح اور شام مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں، جتنی مرتبہ صبح یا شام مسجد جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں۔ (صحیح البخاری) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی کو بکثرت مسجد میں آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو ۔
یہ وہ احادیث ہیں جو مساجد کی اہمیت کے ساتھ مساجد میں عبادت کی فضیلت بیان کررہے ہیں لیکن شیطانی مقتدرہ نے کوشش یہ کی ہے کہ ایک طرف لوگ مسجدوں سے دور ہوجائیں تو دوسری طرف مسجدوں کے تقدس کو ہی اس قدر پامال کردیا جائے کہ رحمانی طاقتوں کے علمبردار دل مسوس کررہ جائیں ۔شیطان نے کرونا وائرس کے ذریعہ موت کے خوف کو جس قدر بٹھادیا ہے اس کا ایک اثر تو یہ ہے کہ وہ کام جو حکومت کی ذمہ داری سمجھی جانی چاہئے تھی لوگ اسے حکومت کی ذمہ داری کے علی الرغم سماج کی ذمہ داری تصور کرنے لگے ہیں۔جن اسپتالوں کو اپنی خدمات میں اضافہ کیا جاناچاہئے تھاوہ شیطان کے پجاری بن کر انسانوں کو لوٹنے کاکام کررہے ہیںاور انسانوں کو موت کے منھ میں پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پورے ملک میں ایمرجنسی جیسی کیفیت ہے اقتدار پر قابض شیطانی ٹولہ جس طرح داد عیش دے رہا ہے وہ یہی باور کرتا ہے کہ اس شیطانی کھیل کے پیچھے وہ رحمانی طاقتوں سے نبرد آزماہیں۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مساجد کو کورنٹائن سینٹر نہیں ذکر و فکر کے لئے دوباری کیسے آبادکرسکتے ہیں اس پر غور کریں۔ اسلام نے ایک کلیہ پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ ’’الحرب خدعۃ‘‘ جنگ ایک چال ہے۔ عامۃ المسلمین کے ساتھ مسلمانوں کا خواص بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس وقت شیطان جنگ کے میدان میں ہےاور وہ اپنی جنگی چال چل رہا ہے لہذااس سے مقابلہ بھی جنگی چال کے ذریعہ کیا جانا چاہئے ۔بلکہ شیطان تو اپنے طور پر ان تمام قلعوں پر حملہ کررہا ہے جہاں سے اسے کسی بھی طرح کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہولیکن مسلمان آج بھی اسی خواب خرگوش میں مبتلا ہے کہ فتح تو ہمیشہ اسی کی ہوگی۔

مضمون نگارممبئی میں مقیم معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر اور آل انڈیا حلال بورڈ کےجنرل سکریٹری ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *