عمر گوتم صاحب!مجھے آپ سے محبت ہے

عمر گوتم
عمر گوتم

دانش ریاض فلاحی،ممبئی

جناب عمر گوتم صاحب سے میری کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی ہے لیکن جب سے میں دعوتی کام میں سرگرم ہوا ہوں ،میرے کانوں میں ان کا نام گونجتا رہا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں بے لوث خدمات انجام دینے والے مرحوم ریاض موسیٰ صاحب سے تو ملاقات رہی ہے اور ان کے کام کو بھی دیکھا ہے لیکن جناب عمر گوتم صاحب کا کام دعوتی فیلڈ میں کام کرنے والوں کے مابین ہمیشہ بطور مثال پیش کیا جاتا رہا ہے۔اتر پردیش میں تو بیشتر ادارے ہیں جو غیر مسلمین کے مابین دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں لیکن ان میں عمر گوتم کا نام نمایاں اس لئے ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے جس طرح اپنی زندگی تبلیغ اسلام کے لئے وقف کی اس کی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
سورہ آل عمران آیت 104میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
جناب عمر گوتم اللہ رب العزت کے اسی فرمان پر عمل کرتے ہوئے دعوت و ارشاد کے کاموں میں اس قدر مشغول تھے کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ شیطان نے ان کے خلاف چال چل دی ہے اور شیطان کے حواریین انہیں بھی اس عمل سے گذارنے والے ہیںجس راہ سے انبیاء و صلحا گذر چکے ہیں۔حضرت یوسف علیہ السلام نے سلاخوں کے پیچھے رہ کر اللہ کے دین کو سر بلند کیا اور سنت یوسفی کی داغ بیل ڈالی ۔آقائے مدنی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابی طالب میں ساڑھے تین برس گذار کر راہ حق کے پروانوں کو یہ پیغام دیا کہ وقت کے شیاطین ہزار جتن کرلیں لیکن اللہ کا دین غالب ہوکر رہے گا اور دنیا نے یہ دیکھا کہ وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱)اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔
یقیناً اللہ کی راہ میں کام کرنا اور اللہ کے دین کو سربلند کرنا بہت آسان کام نہیں ہے ۔شیطان کی پوری ٹولی اپنے لائو لشکر کے ساتھ ایسے لوگوں کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے اور انہیں ہر اس راہ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے جس سے کہ ان کا حوصلہ پست ہوسکے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے میں رحمان کی طاقت بھی اپنے بندے کے حق میں کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک بڑی تعداد میں مومنین و مخلصین ان بندوں کا ساتھ دیتے ہیں جو راہ حق کے مسافر ہیں۔ شعب ابی طالب میں بھی اللہ تعالیٰ نے کفار میں سے ہی کچھ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور لوگوں نےجب آواز بلند کی تو تاریک راتیںسپیدی صبح لے کر نمودار ہوئیں۔
عمر گوتم صاحب پر بھی جومصیبت ٹوٹی ہے ان شا ء اللہ وہ مثبت نتائج لے کرے گی کیونکہ بڑی تعداد میں نومسلموں کے ساتھ غیر مسلموں نےبھی آواز بلند کرنا شروع کردیا ہےلیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ان سے برآت کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہی معاملہ ہے کہ جس کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والے (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھ کر قدرت کے باوجود منع نہ کرنے والے) اور حدودُ اللہ میں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے توان کو تکلیف ہوتی (انہوں نے اس کی شکایت کی تو) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کر دیا۔ اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔(لہٰذا میں تختہ توڑ کر یہیں سے پانی لے لوں گا اور تم لوگوں کو تکلیف نہ دوں گا) پس اس صورت میں اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور تختہ کاٹنے سے روک دیا تو اسے بھی نجات دیں گے اور خودکو بھی بچا لیں گے اور اگر چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کریں گے اور خود بھی ہلاک ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)
اس وقت ہونا تو یہ چاہئے کہ پوری قوم کو یک زبان ہوکر جناب عمر گوتم صاحب کا دفاع کرنا چاہئے۔اس خام خیالی میں مبتلا رہ کر کہہ یہ آزمائش تو ان پر آئی ہے میں کیوں اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالوں ؟دراصل باطل کو یہ موقع فراہم کرنا ہوگا کہ وہ آپ پر بھی جب چاہے کارروائی کردے اور پھر دوسرا یہ کہتا پھرے کہ یہ مصیبت تو ان پر ٹوٹی ہے میں اس میں کیوں شریک کار بنوں۔
نواز دیوبندی نے شاید ایسے ہی موقع کے لئے کہا ہے کہ
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا،میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں، اگلا نمبر آپ کا ہے
باطل قوتیں جس سرعت کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کررہی ہیں اور جس ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کے درپے آزار ہیں اس کے خلاف تو سنجیدگی سے غور و فکر کیا جانا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ منافقین کے ساتھ مخلصین بھی اس طرح آپس میں الجھ گئے ہیں کہ اب شناخت کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ویسے یہ بات یاد رکھیں کہ شیطان اپنی چالیں چل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر اور بہترین تدبیر اختیار کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *