جنسی نشہ

روبینہ فیصلروبینہ فیصل 

میرا، وینا اور منی شنی کی مشتبہ ویڈیو لیکس ہو نے تک ہی بات رہتی مگر ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ جب ایسی بات چل نکلتی ہے تو اس کے راستے تو بہت ہوتے ہیں مگر منزل کوئی نہیں ہوتی ہے۔
پاکستان میں ویڈیو لیکس کا راستہ اہم سرکاری عہدے داروں، ججوں اور صحافیوں کے گھر سے بھی گزرا اور آج کل ویڈیو لیکس کا ہر راستہ مولوی حضرات سے گزر رہا ہے۔ ہر دوسرے دن ایک انتہائی متلی کی کیفیت میں مبتلا کر نے والی کوئی غلیظ سی ویڈیو جگہ جگہ منہ مارتی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کر نے والا کوئی ذی روح یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اب تک اس کا فون اس تیزابی بارش سے پاک رہا ہو۔ نہ دیکھنا یا فوراً ہی ڈیلیٹ کر دینا اپنی اپنی یہ آپشنز بہر حال ہر ایک کے پاس موجود ہیں۔
ایسی تیزابی بارش کا ایک آدھ قطرہ مجھ تک پہنچا تو کھولتے ہی بند کر دینے کے باوجود متلی کی کیفیت نے مجھے فورا ہی دبوچ لیا۔ اس غلیظ عمل پر رونا تو ایک طرف میرا تو ان بچوں کی مجبوری اور بے بسی کو دیکھ کر معدہ ہی الٹ گیا۔ یہ رد عمل ہر حساس اور ذی شعور انسان کا ہو گا۔ مگر کیا ہم ایسا گھناؤنا عمل کر نے والوں کے مقاصد اور محارک تک پہنچنے کی کوشش کریں گے؟
مولویوں کے خلاف سازش؟ ہوتی ہے تو ہوتی رہے کیونکہ اس کو ویڈیو ٹیپ کر کے لیک کر نا تو سازش ہو سکتی ہے مگر ان سے یہ عمل کروانا سازش نہیں ہے۔ یہ ہو رہا ہے اور یہ ہو تا رہے گا اور ان لیکس سے بھی جو مقاصد حاصل کر نے ہیں وہ کر لئے جائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھیئے کہ ہر داڑھی رکھنے والا مولوی نہیں ہو تا۔ میں مولویوں کی وکالت نہیں کر رہی مگر یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی روپ بدل کر ایسی ویڈیو بنوا سکتا ہے اور جیسے اس ایک مفتی کی ویڈیو کے بعد کیمرے کو دیکھ دیکھ کر اب شوٹنگز والے انداز میں بنوائی جانے والی ویڈیوز کوا یک دوسرے کو ان الفاظ کے ساتھ فارورڈ کیا جا رہا ہے کہ ”مولویوں کے کرتوت دیکھو ذرا“ تو اس سے تشویش یہ ہوتی ہے کہ وہ مولوی صاحبان جو واقعی ہی میں نیک اور پرہیزگار ہوتے ہیں ان کے ماتھے پر بھی پکا ٹھپا لگتا جا رہا ہے۔
ایسے میں مجھے اپنے بچپن کے وہ نورانی چہرے والے مولوی صاحب یاد آتے ہیں جن کی سفید چمکتی داڑھی اور مقدس ماتھا جس پر محراب کا گہرا نشان تھا اور ان کی آنکھیں طہارت سے چمکا کرتی تھیں۔ وہ کبھی کسی بچے کو ساتھ لگا کر بھی پیار نہیں کیا کرتے تھے، شاباش دینے کے لئے صرف سر پر ہلکا سا ہاتھ پھیر دیا کرتے تھے۔ میں اپنے بچپن کے اس مولوی کی تصویر اپنے دل میں مٹنے نہیں دینا چاہتی اسی لئے میرا دل اداسی سے بھر جاتا ہے کیونکہ اب کی نسل کسی ایسے مولوی کی زیارت سے محروم ہو جائے گی جو حقیقت میں قرآن اور نماز اور اخلاقیات سکھانے والا ہو گا۔ کیونکہ اب اگر کوئی ہوگا بھی تو اس پر کسی کو یقین نہیں آئے گا۔
ان ویڈیوز کے پیچھے محرکات جو بھی ہیں ہمیں اس غلیظ کام کی طے تک پہنچنا چاہیے تاکہ اس کا سدباب کیا جاسکے۔ سزا دینا تو بدفعلی کے بعد کا مر حلہ ہے اس سے پہلے کیوں نہ فعل ہو نے ہی نہ دیا جائے۔ اس کے لئے کن باتوں پر غور کر نے کی ضرورت ہے اس پر ذرا دماغ کی تاریں ہلانے کی ضرورت ہے۔
مدارس میں یا گلی محلوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی یا جنسی تشدد کی جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر و بیشتر یہی کہا جا تا ہے کہ یہ گھٹن اور جنسی نا آسودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ چاہے ریپ کر نے والا شادی شدہ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی یہی ایک جنرل سٹیٹمنٹ دے دی جاتی ہے۔ لڑکیوں سے زیادتی کا معاملہ ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کے لباس یا اداؤں نے اکسایا ہو گا (یہ بات پاکستان میں ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی مباحثے کا باعث بنتی ہے ) ۔ اس ایک عنصر پر بات کر لیں تو اس میں شامل اور بہت سے محرکات پر پہلے بات کر نا اور سمجھنا ہو گی۔
یہیں سے بات شروع کر لیتے ہیں فرض کیا ایک عورت اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہے اور بہت سے مرد اسے دیکھ رہے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس عورت کی جسم کی نمائش کو وہاں موجود سب مرد ایک دعوت عام سمجھ کر اس پر حملہ آوار ہو جائیں گے؟ یقینی طور پر اس کا جواب منفی میں ہو گا۔ اس عورت کی عصمت دری بھی وہی کرے گا جس کو موقع ملے گا۔ پہلا سہولت کار ”موقع“ ہو تا ہے۔ موقع کو بھی دو میں تقسیم کر دیں۔ ایک موقع یہ ہے کہ آس پاس کوئی موجود نہ ہو اور دوسرا موقع جب شکار مکمل طور پر شکاری کے رحم و کرم پر ہو۔
جس کو اپنی طاقت عہدے یا دولت کا ناجائز فائدہ اٹھانا کہتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں شکار کو دبوچنا آسان ہو تا ہے۔ آس پاس کوئی موجود نہیں اور شکاری اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے تو وہ شکار کو چپ کروانے کے لئے (کہ جب وہ اس کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہو گا) اکثر اسے مار بھی دیتے ہیں۔ زیادتی کے بعد اکثر اسی خوف سے بچوں کو مار دیا جاتا ہے۔ زیادتی کے بعد عورتوں کو بچوں کی نسبت مارنے کے واقعات اس لئے کم ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کی طرح معصوم نہیں ہوتیں اور اپنا برا بھلا سمجھتے ہوئے بات کو پینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اور یہ مشرقی لڑکیوں کی ٹریننگ کا حصہ ہو تا ہے کہ۔ بات کو دبا جاؤ۔ ان کی ایسی ٹریننگ انہیں بعض اوقات زیادتی کے بعد قتل ہونے سے بچا لیتی ہے۔ شکاری جانتا ہے کہ لڑکی بولے گی تو اپنا اور اپنے گھر والوں کا اور اپنی آنے والی نسلوں کا نقصان ہی کرے گی۔ لڑکیوں کو ان کی اس معاملہ فہمی اور نام نہاد مصلحت آمیزی کا پھل ان کی ”زندگی“ کی صورت مل جاتا ہے مگر معصوم بچوں سے ایسی سمجھداری کی امید نہیں ہوتی اس لئے وہ بچارے بن موت مارے جاتے ہیں۔
یہ عجیب و غریب سی مشرقی تربیت کبھی کبھار مغرب میں بھی بچیوں کے پاؤں کی بیڑی بن جاتی ہے۔ یہاں کینیڈا کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک پاکستانی لڑکی کا کسی یونیورسٹی کیمپس میں ریپ ہوا لیکن عدالت نے گورے مجرموں کو رہا کر دیا۔ ہم سب غصے سے بھر گئے کہ شاید کینیڈا کی عدالتیں بھی متعصب ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ ایک تو لڑکی نے سانحے کے فوراً بعد نائن ون ون (ایمرجنسی پو لیس) کو کال نہیں کیا تھا بلکہ گھر بھی کوئی ہفتہ بھر گزر جانے کے بعد بتایا تھا اور دوسرا عدالت میں اپنی فطری حیا کی وجہ سے لڑکوں کو پہچاننے میں شک و شبہ کا شکار رہی۔ لڑکوں کے وکیل نے اس شک کا فائدہ اٹھایا اور ان کو کو باعزت بری کروا کے یہ جا وہ جا۔
دوسرا ”موقع“ وہ ہو تا ہے جو ایسے شکاریوں کو ان کی پوزیشن اور ان پر اعتماد کی وجہ سے ملتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے اپنے رتبے کا ناجائز استعمال کہہ سکتے ہیں۔ میں ساؤتھ ایشئین عورتوں میں ڈپریشن کی وجوہات پر کام کر رہی تھی، ان میں بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان کی پڑھی لکھی اچھے گھروں کی خواتین تھیں۔ بائی پولر اور کلینکل ڈپریشن کی مریضہ بنی ان خواتین کی کہانیوں میں جو قدر مشترک تھی وہ تھی ان کے بچپن میں ہو نے والے اپنے ہی کسی انکل (فیملی فرینڈ یا رشتے دار) کے ہاتھوں عصمت دری اور خوف کی وجہ سے ماں باپ کو نہ بتانا اور چھپا کے رکھنا اور اگر بتایا بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
یہ تو ہو گیا شکار ہو نے والوں کا قصہ اب بات کرتے ہیں شکاریوں کی۔ یہ جنسی شکاری کون ہوتے ہیں؟ کیا یہ صرف گھٹن اور جنسی ناآسودگی کا شکار ہوتے ہیں؟ کیا یہ لڑکیوں کے اشتعال انگیز کپڑوں سے مشتعل ہو کر ایسی حرکتیں کرتے پھرتے ہیں۔ نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں۔ یہ تو بہت معمولی باتیں ہیں ان کی وجوہات تو بہت گمبھیر ہیں۔ اتنا کہہ دینا بھی آسان نہیں کہ یہ جنسی مریض ہوتے ہیں۔ یہ بات درست تو ہے مگر سوال ”کیوں“ کا آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہ مرض کیوں ہو تا ہے۔ ہائپر سیکچوئلیٹی (افراط یا جنسی عمل کی زیادتی) ایک ڈس آرڈر ہے۔ ایک مینٹل ڈس آرڈر۔ ذہنی عارضہ۔
جو لوگ اس سارے بکھیڑے میں عورتوں کے لباس کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ نقطہ سمجھیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو پورن سٹار اور پورن ویب سائٹس کا بزنس تو ٹھپ ہو جانا چاہیے۔ مگر ان سب چیزوں کا کردار ایک catalyst جیسا کا ہے۔ اس کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھوکے جانوروں کے آگے آپ کھلا گوشت ڈال دیں گے تو وہ منہ ماریں گے۔ یہ عورتوں کے لباس پہننے کی آزادی پر ہر گز کوئی فتوی نہیں۔ یہاں ہم شکاریوں کی بات کر رہے ہیں۔ شکار ہو نے والوں کی نہیں۔
”جنسی نشہ“ الکحل کے نشے یا کسی بھی ڈرگ کے نشے جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ پروگریسیو ہو تا ہے یعنی اگر بر وقت علاج نہ کرایا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اور اس راہ کے مسافر) اس میں مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں ) کہاں جا کر رکیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس نشے میں مبتلا لوگ کثرت سے جنسی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا رویہ عجیب ہو نے لگتا ہے۔ حد سے زیادہ پورنوگرافی دیکھنا، خود لذتی (ماسٹربیشن کرتے رہنا) ، سیکس ورکر کے پاس جاتے رہنا، ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ جنسی تعلقات رکھنا۔
اس نشے کی طلب اور شدت بڑھتی جاتی ہے اور راستے مزید کانٹوں بھرے ہو نے لگتے ہیں۔ جب ان کی طلب بڑھتی ہے تو حلق میں پیاس کی وجہ سے کانٹے چبھنے لگتے ہیں، دماغ میں دھند چھا جاتی ہے، اپنا آپ اپنی ہی جلد سے باہر نکلتا محسوس ہو تا ہے، تب یہ لوگ زیادہ رسک بھی لینے لگ جاتے ہیں اور جو بھی ہاتھ لگ جائے اسی کے ساتھ بدفعلی کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچے، ایسے لوگوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں اور سوچیں مدرسوں، سکولوں یا کام والی جگہوں پر جہاں پر بچے مکمل طور پر کسی کے اختیار میں ہوتے ہیں وہاں ایسے ذہنی مریض بیٹھے ہوں تو پھر بچے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ایسے لوگوں جذباتی اور اخلاقی طور پر بالکل خالی پن کا شکار ہوتے ہیں۔ رشتوں میں دھوکہ دینا ان کا معمول بن جا تا ہے۔ اور کسی رشتے میں بندھ کر اس کو بغیر کسی پچھتاوے کے چھوڑ دینا اور لوگوں کو بغیر کسی احساس کے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا، فنانشل معاملات اور لوگوں کے احساسات۔ ہر معاملے میں ان جنسی نشئیوں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہو تا ہے۔ کثرت سے عورتوں اور اگر نشئی عورت ہے تو مردوں کے ساتھ تعلقات رکھنا بھی اسی ڈس آرڈر کا حصہ ہے۔ بتا یا نا۔ کہ اس کے مختلف راستے ہیں منزل کوئی بھی نہیں۔
یہ کون لوگ ہوتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا بچپن ٹرامٹک ہو تا ہے یا خود ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہو چکی ہوتی ہے۔ جب ان کو سنبھالنے کا وقت ہو تا ہے تب ان کو سنبھالنے کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔
مکمل اختیار انسانوں کو جانور بنا دیتا ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہاں کینیڈا میں ریڈ انڈینز بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی ہے۔ ہم پاکستان کے مدرسوں اور مولویوں کو رو رہے ہیں یہاں کینیڈا میں 1947۔ 1965 میں ریزیڈینشیل (چرچ کے زیر انتظام) سکولوں میں مقامی باشندوں کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر بھرتی کیا گیا تھا اور وہاں جو ان کے ساتھ پادریوں اور راہبوں نے سلوک کیا وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ ان بچوں کے ساتھ، جذباتی، جسمانی اور جنسی ہر طرح کا تشدد کیا گیا۔ ان میں سے کئی تو مر گئے اور اب ان کی اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں اور جو اس وقت بچ گئے تھے وہ اب زندہ لاشوں کی طرح جی رہے ہیں۔
دنیا ان جنسی مریضوں سے بھرتی جا رہی ہے تب ہی تو ڈارک ویب سائٹس کا کاروبار دھڑا دھڑ ہو رہا ہے۔ شو بز میں ہالی وڈ ہو یا بالی وڈ۔ کوئی بھی وڈ کیا بچوں کو بغیر ان کا جنسی استحصال کیے کام دیتا ہے؟ اگر ہالی ووڈ کے چائلڈ سٹارز کی کہانیاں ہی پڑھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ایسے غلیظ کاموں کے لئے جنسی گھٹن یا لباس کی بحث کتنی بے معنی ہے۔ یہ تو ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کا علاج ناممکن نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی ابھی کوئی دوائی نہ ہو مگر تھراپی اور کونسلنگ کے ذریعے کچھ تدابیر کی جا سکتی ہیں۔
مگر شرط یہی ہے کہ پہلے اس مرض کی تشخیص تو کریں۔ خود میں یا اردگرد کے لوگوں میں۔ اندھیرے میں رہیں گے تو یہ اندھیرا ایک پہیے کی طرح گھومتا رہے گا۔ بچے اور کمزور زیادتیوں کا نشانہ بنتے رہیں اور پھر جب ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت آئے گی تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس تھیوری میں مائیکل جیکسن کی مثال فٹ کر نا چاہیں تو با آسانی ہو جائے گی۔ مقصد اس سائیکل کا حصہ بننا نہیں بلکہ اس سائیکل کو توڑنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *