بڑھتے زر مبادلہ کے اثرات

سراج الدین فلاحی
کووڈ اور مندی کی مار جھیل رہی معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ حالیہ دنوں میں ہمارے  ملک کے فاریکس ریزرو میں ریکارڈ اضافہ ہواہے۔ اس ہفتے RBI کے ذریعے ریلیز کیے گیے ڈیٹا کے مطابق ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار اس کا فاریکس ریزرو 600 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ آج ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ فاریکس ریزرو کیا ہوتا ہے؟ یہ 600 بلین ڈالر کا آنکڑا کیسے پار کر گیا اور معیشت پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ IMF کے مطابق فاریکس ریزرو اس غیر ملکی اثاثے (External Assets) کو کہتے ہیں جسے ملک کی مونیٹری اتھارٹی یعنی سینٹرل بینک توازن ادائیگیوں (Balance of Payments) کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈالر جس کو ہم کسی بھی سامان کے امپورٹ کے لیے بطور ادائیگی استعمال کرتے ہیں فاریکس ریزرو کہلاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک کی کرنسیاں ہندوستان کے لیے فاریکس ریزرو ہیں۔
دنیا میں ملکوں کی بناوٹ، لوکیشن اور  آب و ہوا کے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ملک کسی نہ کسی پروڈکٹ میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس لئے دنیا کے تمام ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات رکھنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک کی اپنی ایک ذاتی کرنسی ہوتی ہے جیسے امریکہ میں ڈالر، برطانیہ میں پاؤنڈ اور  انڈیا میں روپیہ۔  ہر ملک کی کرنسی اپنے ملک میں قانونی حیثیت رکھتی ہے اسی لئے اس کرنسی کو اپنے ملک میں کسی بھی چیز کی خریدو فروخت کے لئے ذریعہ مبادلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔البتہ وہ کرنسی دیگر ممالک کے اندر اشیاء اور خدمات کے لین دین میں قابل قبول نہیں ہوتی۔ چنانچہ لین دین سے  پہلے اس کو اس ملک کی کرنسی میں بدلا جاتا ہے جس ملک سے اشیاء اور خدمات کا لین دین کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک میں دیگر ممالک کی کرنسیوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ملک کی اپنی کرنسی کو چھوڑ کر دنیا کی تمام کرنسیاں فارین ایکسچینج (Foreign Exchange) کہلاتی ہیں۔ وہ ریٹ جس میں ایک ملک کی کرنسی کو دوسرے ملک کی کرنسی سے بدلا جاتا ہے اسے فارین ایکسچینج ریٹ (Foreign Exchange Rate) کہتے ہیں۔
ہمارے ملک کی مونیٹری اتھارٹی RBI ہے۔ یہ ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کا ریزرو رکھتی ہے تاکہ ہندوستان پٹرولیم پروڈکٹ، کیپٹل گڈس اور دیگر اشیاء و خدمات کو امپورٹ کر سکے۔زیادہ تر ممالک ڈالر اور یورو کے ٹرم میں فاریکس ریزرو رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی فاریکس ریزرو کا جو ذخیرہ ہے اس میں 90 فیصد ڈالر ہے یہ انڈیا کی تقریبا 20 فیصد GDP کے مساوی ہے۔ اس میں گذشتہ ایک سال کے دوران کافی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ  کووڈ کی مار جھیل رہی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے دنیا کے بڑے ملکوں کے مرکزی بینکوں بطور خاص امریکہ کے فیڈرل ریزرو نے  اپنے ملک میں کافی زیادہ Liquidity بڑھائی تھی اس کا سیدھا اور مثبت اثر انڈیا جیسی Emerging معیشتوں پر بھی پڑا اور بہت بڑی مقدار میں فارن کیپٹل جن میں FDI اور FII دونوں شامل ہیں انڈیا اور چین میں آیا۔ مثلا ریلائنس کے پاس فیس بک سے ایک بلین ڈالر آیا،  اسی طرح دیگر ذرائع سے ڈالر آیا جس کی وجہ سے ہمارا فاریکس ریزرو بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں روپیہ کی ویلیو بڑھ (Appreciate) گئی تھی۔ RBI نہیں چاہتی ہے کہ ہمارے ملک کے کرنسی کی ویلیو بہت زیادہ بڑھے کیو نکہ اس سے ایکسپورٹ پر چوٹ پڑتی ہے اور وہ کم ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہے کہ ڈالر کے بالمقابل ہمارے ملک کے کرنسی کی ویلیو بہٹ زیادہ گھٹ جائے۔ گھریلو کرنسی کی ویلیو کے گرنے سے امپورٹ مہنگا ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے دنوں روپیہ کی ویلیو بڑھنے لگی تھی۔ روپیہ کی ویلیو بڑھنے سے چونکہ ایکسپورٹ کم ہو جاتا ہے اس لیے اس کی ویلیو کو کم کرنے کے لیے RBI نے عالمی منی مارکیٹ میں ڈالر خریدنا شروع کر دیا تھا، ڈالر خریدنے سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور روپیہ کی ویلیو گھٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ RBI کے پاس ڈالر کا ایک بڑا ذخیرہ ہو گیا ہے۔ چونکہ انڈیا اور چین دونوں  کی آبادی  بہت زیادہ ہے اور چین کے ساتھ انڈیا بھی ایک ابھرتی ہوئی معیشت شمار کی جاتی ہے اس لیے دونوں ممالک کو  فائدہ ہوا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ چین کا فاریکس ریزرو 3371 بلین ڈالر اور انڈیا کا فاریکس ریزرو 642 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ تیسری بڑی وجہ جسے ہم سب جانتے ہیں کہ کووڈ میں چونکہ ہمارے ملک میں ڈیمانڈ کم ہو گئی تھی اس لیے ہمارے یہاں سے امپورٹ بھی کم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا بیلینس آف پیمنٹ سرپلس میں آ گیا تھا یعنی ہمارا ایکسپورٹ ہمارے امپورٹ سے زیادہ ہو گیا تھا اس کی وجہ سے فارن ریزرو بڑھ گیا۔ ان سب کے علاوہ Remittances کی شکل میں بھی فارن ریزرو خوب آیا۔
کرنسیوں کے علاوہ بانڈز، ٹریزری بل، گولڈ اور SDR کو بھی فاریکس ریزرو میں شامل کیا جاتا ہے۔ IMF کی طرف سے تمام ممبر ممالک کو قرض لینے کے لیے ایک کوٹا مقرر کیا جاتا ہے اسے Special Drawing Right یعنی SDR کہتے ہیں۔ عام طور جس ملک کی جتنی زیادہ GDP ہوتی ہے اس کے SDR کا کوٹا IMF میں اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے اور وہ اسی کوٹے کے بقدر IMF سے پیسہ نکال سکتا ہے۔ ہندوستان کا کوٹا 2.73 فیصد ہے اور یہ نمبر یہاں کے فاریکس ریزرو کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انڈیا کے پاس فارن ریزرو نہیں ہے اور دیگر ممالک سے اسے پیسے نہیں مل رہے ہیں تو وہ امپورٹ یا کسی بھی طرح کی عالمی ادائیگی کے لیے کم شرح سود پر اپنے کوٹے کے بقدر IMF سے پیسہ لے سکتا ہے۔
 ملکوں کی معیشت کے لیے فاریکس ریزرو کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ فاریکس ریزرو ہوتا ہے معیشت اتنی ہی زیادہ مستحکم تصور کی جاتی ہے۔ ابھی انڈیا کے پاس تقریبا 15 ماہ کا فاریکس ریزرو اکٹھا ہو چکا ہے جس پر سرکار بہت خوش ہے اور اسے خوش ہونا بھی چاہیے لیکن معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سرکار کو اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک غیر ملکی سرمایہ کار یہاں پیسہ لگا رہے ہیں فاریکس ریزرو بڑھ رہا ہے جیسے ہی ان ملکوں کے مرکزی بینکوں نے لکویڈیٹی گھٹائی اور سرمایہ کاروں نے پیسہ نکالنا شروع کر دیا ویسے ہی فاریکس ریزرو کا مذکورہ بالا ڈیٹا تیزی سے نیچے کی طرف لڑھک جائے گا۔ بہر حال ابھی فاریکس ریزرو کے معاملے میں ہندوستان چین، جاپان اور سویٹزر لینڈ کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ یہ مقام آزاد ہند کی تاریخ میں پہلی بار انڈیا کو ملا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ  ہماری سرکار اکثر قرضوں کا رونا روتی ہے۔ اب سرکار کو چاہیے کہ آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے انڈیا پر جو قرضہ جات ہیں جن پر سود کی ادائیگی کے نام پر ایک بہٹ بڑی رقم انڈیا کو دینی پڑتی ہے انہیں لوٹائے اور ملک کی آمدنی کو تعلیم، صحت اور دیگر انفراسٹرکچر پر لگائے تاکہ امیروں کے ساتھ ساتھ غریب اور مڈل کلاس بھی اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سرکار کے ساتھ ساتھ ملک کی عوام بھی فاریکس ریزرو کے بڑھنے پر تالیاں بجائے گی ورنہ ایسے فاریکس ریزرو کا کیا فائدہ جو عوام کے کام نہ آ سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *