جی ہاں !وہ وقت بھی دیکھا ہے—— پھر گلہ کیا کریں

دانش ریاض،معیشت،ممبئی
بات بہت پرانی نہیں ہے یہی کوئی پچیس برس ہوئے ہوں گے۔جب میں اپنے دوست دھننجے سنگھ کے ساتھ پٹنہ اسٹیشن کے قریب ہنومان مندر گھومنے گیا تھا۔ جب ہم بالائی منزل پر پہنچے تو اسٹیشن سے متصل اور مندر سے قریب مسجد میں مغرب کی آذان شروع ہوگئی۔دھننجے کو خبر تھی کہ میں نماز پابندی سے پڑھتا ہوں لہذا اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ ’’کیا تم نماز کے لئے مسجد جانے کا سوچ رہے ہو‘‘۔میں نے مثبت میں سر ہلادیا ۔اس نے کہا کہ اب جبکہ ابھی ہم پہنچے ہی ہیں اور دوبارہ نیچے اتر کر مسجد جانے اور پھر واپس آنے میں کافی وقت ہوجائے گا ،کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم یہیں نماز پڑھ لو ؟میں نے کہا کہ یہ ممکن تو ہے لیکن اگر کہیںکوئی دیکھ لیا تو کیا ہوگا ۔اس نے مقامی زبان میں برجستہ کہا کہ ’’تو نماج پڑھ ،ہم کھڑا ہوکر دیکھتے ہولا،کوئی ایتوتو سنبھال لیبو‘‘۔آخر میں نے وہیں نماز پڑھی اور وہ پہرہ داری میں کھڑا رہا۔شاید یہ پہلی اور آخری نماز ہو جو ہنومان مندر کے بالکل بالائی سطح پر ادا کی گئی ہو۔
یہ اس وقت کی بات تھی جب ہم چھوٹے تھے ہماری مسیں بس بھیگ رہی تھیں اور دل بالکل صاف و شفاف تھے ۔مذہب کی دیواریں کھڑی نہیں ہوئی تھیں اور مسجد و مندر میں آنے جانے والوں پر نگاہیں نہیں رکھی جاتی تھیں۔میں مندر کے چبوترے پر کھیلتا اور ہندو دوستوں کو مسجد میں لے جاتا جہاں امرود کے درخت لگے ہوئے تھے اور ہم امرود توڑ کرکھایا کرتے تھے۔مسجد کا وہ حصہ جہاں پھلدار درخت،پھول پودے لگے ہوئےتھے دھیرے دھرے وہاں مدرسہ کے لئے عمارت بنادی گئی ۔دور دراز سے چھوٹے چھوٹے بچے ’’اقامتی طلبہ‘‘کے نام پر لاکر رکھ دئے گئے اور پھر صبح و شام مسجد کے مائک سے نعت و بیانات کا ایساسلسلہ شروع ہواکہ پوری فضا میں ارتعاش پھیل گیا۔ وہ آبادی جہاں ہندوئوں کی اکثریت تھی اور مسلمان گنتی کے گھر تھے ۔انہیں یہ بڑا عجیب لگا کہ اسی مسجد میں جہاں ہمارے بچے کھیلنے جاتے تھے یہ کیا کھیل شروع ہوگیا ہے۔دھیرے دھیرے غیر مسلموں کی وہ قطاریں بھی ختم ہونے لگیں جو مسجد کے باہر عقیدت سے پانی پر دم کروانے کے لئے کھڑی ہوا کرتی تھیں۔بالآخر ایک دن یہ خبر بھی آگئی کہ مسجد سے متصل قبرستان کی زمین پر تنازع ہوگیا ہے اور فرقہ وارانہ فساد کی مکمل تیاری ہوچکی ہے ۔وہ تو بھلا ہو علاقے کے بڑے بزرگوں کا جنہوں نے وقت رہتے حالات پر قابو پایا اور مسجد کے مولوی کے ساتھ علاقے کے غیر مسلم سماج دشمنوں پر کارروائی کی اور حالات کو خراب ہونے سے بچایا۔انہیں دنوں بطور علاج مجھے پیپل کے پتوں کی ضرورت پڑی تو میں اپنے ’’غیر مسلم لنگوٹیا ‘‘کے ساتھ مندرچلا گیا۔ پیپل کے پتے توڑتے وقت بیشتر نگاہیں ہم دونوں دوستوں کو گھورنے لگیں ۔میں نے نگاہوں کی اس چبھن کا تذکرہ اپنے لنگوٹیا سے کیا تو اس نے برجستہ کہا ۔’’پیپل توڑ کر چپ چاپ گھر چل،تورا بعد میں بتیبو کہ کاہولو ہے‘‘۔
گھر آکر پھر اس نے تفصیل سے بتایا کہ مسجد کی خالی زمین پر جب مدرسہ کی تعمیر ہورہی تھی تو ’’چندہ اگاہی ‘‘کے لئے ایسا ماحول بنایا گیا کہ مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والے بیشتر لوگ نالاں ہوگئے۔مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے کبھی تو صرف آذان ہوتی تھی لیکن پھر ہر طرح کی کارروائی کا اعلان شروع ہوگیااسی دوران رمضان آیا تو تین بجے صبح سے ہی لائوڈ اسپیکر ایسےچنگھاڑنے لگا کہ دھیرے دھیرے وہ لوگ بھی مخالف ہوگئے جو کبھی فجر کی اذان کے ساتھ اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے۔
گرو گرام میں جو کچھ ہوا یا ہندتوا وادی پورے ملک میں جس طرح کا ماحول بنارہے ہیں کیا اس میں ان لوگوں کا حصہ نہیں ہے جو مسلمان نما بن کر اسلامی تعلیمات کو مسخ کررہے ہیں؟ میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ آخر ہندتواوادیوں کو ایندھن کون فراہم کررہا ہے؟ ہمارے لئے یہ آسان ہے کہ ہر طرح کی کوتاہیوں اور خامیوں کے لئے ہم آر ایس ایس کو مورد الزام ٹھہرالیں ۔اس کی ذیلی تنظیموں پر بھی تان توڑ سکتے ہیں لیکن یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہم اپنی کمیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں۔ دستور اور دستور کی دہائیاں دینے والے لاکھ یہ سمجھا لے جائیں کہ آج بھی ملک سیکولر ہے لیکن مجھے تردد اس لئے ہے کہ کاغذی طور پر بھلے ہی سیکولرزم کا اعلان کیا جاتا ہو لیکن عملی طور پر ہم ہندو راشٹر کے شہری بن چکے ہیں۔
آخر اس بات پر ہم غورکیوں نہیں کرتے کہ جوباتیں ایک ہندو صحافی بہت آسانی سے کہہ جاتا ہے وہی بات مسلمان صحافی کو کہنے میں پریشانی ہوتی ہے ۔
آخر ہم اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ جن مسائل کو ہندو سیاست داں بہت آسانی سے اٹھاتا ہے انہیں مسائل پر مسلم سیاست داں لب کشائی کی جرات بھی نہیں کرتااور اگر کسی نے کیا تو اس کا ایسا حشر ہوتاہے کہ وہ نشان عبرت بن جاتا ہے۔
انتظامیہ میں اونچے عہدوں پر تعینات اعلیٰ افسران جس خوش اسلوبی سے مسلمانوں کے مسائل حل کرلے جاتے ہیں انہیں مسائل کے ساتھ آپ اگر کسی مسلم افسر سے ملاقات کریں تو عموماًوہ ملاقات سے ہی پرہیز کرتا ہے اور کبھی ملاقات کی راہ نکل بھی گئی تو ٹکا سا جواب سنا دیتا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے وہ ادارے جو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے گئے ہیں ان سے جب ’’پروڈکٹیوکام ‘‘پر خرچ کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ ’’تفریحی پروگراموں‘‘پر خرچ کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیںاور بغیر کسی جھجھک کے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہماری ’’چندہ خورقیادت‘‘اب تک اپنا فسوں قائم کئے ہوئے ہے اور عوام کا قافلہ جوق درق غلاموں کی غلامی پر آمادہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *