’ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا مستقبل:عالمی تعلیمی کانفرنس ‘

جی ہاں!’’مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں ‘‘اب یہ بھرم ٹوٹ چکا ہے

’’ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا مستقبل:عالمی تعلیمی کانفرنس ‘‘کےآٹھویں روز معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر دانش ریاض کا اظہار خیال

’’ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا مستقبل:عالمی تعلیمی کانفرنس ‘‘آٹھویں روز معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر دانش ریاض نے شرکت کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا’’ کہ ہر طبقہ فکر کے فضلاء نے کئی روز سے جاری مذکورہ آن لائن پروگرام میں شرکت کی ہے اور اپنے خیالات سے آگاہ کیا ہے۔کچھ مثبت،کچھ منفی اور کچھ امید افزاباتیں ہوئی ہیں لیکن جس ہندوستان کو گذشتہ پندرہ برسوں میں میں نے دیکھا ہے اس کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اب یہ بھرم ٹوٹ چکا ہے کہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اب اپنے بچوں کو ان قلعوں میں بھیج کر اپاہج نہیں بنانا چاہتی بلکہ وہ دین کی حفاظت کے لئے ان اسلامک اسکولوں کا رخ کررہی ہے جہاں سے پڑھ کر آنے والا بچہ شام کی چائے پر والدین کا دل اس طور پر جیت لیتا ہے کہ اسے وہ دعائیں یاد رہتی ہیں جو والدین کو دلی سکون فراہم کرتا ہے‘‘۔
دانش ریاض نے کہا کہ ’’میں مشکور ہوں کل ہند طلبہ مدارس فورم کے ذمہ دار ان کا جنہوں نے مجھے ’’مدارس کی عصری افادیت‘‘پر اظہار خیال کے لئے مدعو کیا ہے۔ہندوستان میں اقلیتی تعلیمی اداروں میں سب سے مضبوط نظام مدارس اسلامیہ کے پاس ہی تھا جس سے مستفید ہوکر ایک ایسی فوج تیار کی گئی جس نے مختلف محاذ پر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جارہےعصری تعلیمی اداروں کے بالمقابل مدارس اسلامیہ کا وژن زیادہ محسوس کیا جاتا تھا لیکن جب مدارس اسلامیہ بھی پرائیویٹ ملکیت میں تبدیل ہونے لگے تو جہاں وقار کا خاتمہ ہوا وہیں انہوں نے سماج میں اعتبار بھی کھودیا۔ان دنوں بیشتر مدارس اسلامیہ پر یا تو مخصوص خاندان کی اجارہ داری ہے یا پھروہ کسی ایک کی ذاتی ملکیت قرار پائی ہے جبکہ چندہ عوام کا ہے۔ ’’خاندانی اجارہ داری اور ذاتی ملکیت ‘‘نے بھی نظام و نصاب پر دور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔جبکہ مدارس کے پروڈکٹ میں بھی وہ خوبیاں عنقاں ہوگئی ہیں جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتی تھیں‘‘۔
معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹرنے کہا کہ ’’لہذا اس گفتگو کے بعد جب مدارس کی عصری افادیت پر ہم گفتگو کریں گے تو اس کو دو خانوں میں رکھیں گے۔ اولاً ’’فارغین مدارس کی عصری افادیت ‘‘اور ثانیاً مستقبل میں’’ فارغین مدارس کی عصری معنویت‘‘۔زمانہ جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوا ہےاس کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے اولین طور پر مدرسۃ الاصلاح اور جامعۃ الفلاح نے اپنے نصاب میں وہ تبدیلیاں کیں کہ آج ان کے بچے مختلف میدانوں میں اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں یہاں کے تعلیمی نظام میں بھی وہ کمیاں دیکھنے کو ملیں جو کبھی ان داروں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں لیکن اسی دوران مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کی بنیاد نے طلبہ مدارس کےلئے نئی راہ کھولی اور فکر نانوتوی ؒ کے مکین ان عصری اداروں میں براجمان ہوئے جن کے دروازے بس ابھی ابھی کھولے گئے تھے۔لہذا مختلف جامعات،اداروں اور کارپوریٹ کمپنیوں میں اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہوئے فارغین مدارس یہ پیغام دینے میں تو کامیاب رہے کہ ان کی عصری افادیت بھی مستحکم ہے لیکن مدارس کا قیام جن بنیادوں پر ہوا تھا اس پیغام کو عام کرنے میں یہ فارغین مدارس ناکام رہے کہ ان کی معاشی ضرورت حائل آتی تھی‘‘۔
دانش ریاض نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت جبکہ مدارس کا مستقبل ہی دائو پر لگا ہوا ہے فارغین مدارس کی عصری معنویت کیا ہوگی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جزوقتی تبدیلیوں کے ساتھ اب بہت لمبا سفر طے کرنا انتہائی مشکل ہوگا لہذا مدارس کووہ بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جو اس کی معنویت و افادیت کو برقرار رکھے اور یہاں کےفارغین معاشرے کے لئے بھی مثبت رول ادا کرسکیں۔میں ان دنوں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں اس کا اظہار تو لاک ڈائوں کے دوران ہی اپنے مضامین کے ذریعہ کیا تھا لیکن یہاں بھی اس کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں ‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’دین کی بنیادوں کو قائم رکھنے اور نئی نسل کی آبیاری کے لئے گلی محلوں میںقائم مکاتب کےنظام کومضبوط بنانےکی طرف توجہ دی جانی چاہئے ۔بڑے شہروں میں یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ مختلف سوسائٹیز میں خودکفیل مکاتب قائم ہوں تو وہیں دیہی علاقوں میں یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ مسجدوں کے ایک حصہ کو مکتب کے لئے مختص کیا جائے اور دسویں تک کے بچے ان مکاتب سے مستفید ہوں اس ضمن میں مولانا عبد البر اثری کی اسلامیات(اردو انگریزی) سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جبکہ ’’ادارہ دینیات ‘‘کا نصاب معین و مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ممکن ہے کہ اور بھی بہترین نصاب ہوں جن تک میری رسائی نہ ہو لہذا ان تمام نصاب سے مستفید ہونا اس وقت کی ضرروت شمار کیا جاناچاہئے‘‘۔
اسی طرح ’’وہ مدارس جنہیں چھوٹے مدارس کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے انہیں چاہئے کہ یا تووہ کلی طور پر بند کردیں یا پھر مدرسہ کے ساتھ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کرلیں کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔دور دراز سے بچوں کو بلاکر ان چھوٹے مدارس میں رکھنا ،موجودہ ماحول میں انتہائی نامناسب ہے۔اسی طرح محض ’’چندہ اگاہی‘‘ کے لئے مدرسے کا نام استعمال کرنا بھی آنے والے دنوں میں مسائل پیدا کرے گا اور اس کا راست اثر بڑے مدارس پر پڑے گا،اسی طرح ماضی میں بڑے مدارس جس طرح اپنی شاخوں کو بڑھانے کے لئے چھوٹے مدارس کو ملحق کیا کرتے تھے اس وقت ان الحاق سے بھی پرہیز کیا جانا چاہئے۔بلکہ کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ چھوٹے مدارس کو مکاتب میں تبدیل کردیا جائے تاکہ مقامی طور پر وہ خود کفیل ہوسکے‘‘۔اسی طرح وہ مدارس جو بڑے ہیں اور مسلکی طور پر اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں ان کوزیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔لوگ اپنے اپنے حلقہ اثر کے بڑے مدارس کو سپورٹ کریں گے تو مالی و معاشی طور پر جہاں انہیں یک گونہ سکون حاصل ہوگا وہیں وہ نئے آئیڈیاز پر یکسوئی سے کام بھی کرسکیں گے۔‘‘
دانش ریاض نے کہا کہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ بڑے مدارس کو عصری علوم کے ساتھ آنٹرپرینیورشپ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے ۔اگر فارغین مدارس تجارت و معیشت میں مستحکم ہوتے ہیں تو وہ اس پیغام کو بھی عام کرنے کا سبب بنیں گے جسے انہوں نے مدرسے میں حاصل کیا ہے۔ہمارا مذہبی طبقہ جس قدر ’’عبادات‘‘ پر توجہ دیتا ہے اگر اسی قدر’’ معاملات‘‘ کے ضمن میں بھی سوچنے لگے تو یک گونہ تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔مدارس میں فقہ و اصول فقہ تو پڑھائی جارہی ہے لیکن سیرت النبیﷺ کو جس طرح پڑھایا جانا چاہئے اس میں بھی کمی دیکھنے کو ملتی ہے لہذا نبی ﷺ نے جو لیڈر شپ کوائیلٹی صحابہ کے اندر منتقل کی تھی آج کے دنوں میں وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔جب آپ’’معاملات‘‘پر توجہ دیں گے تو لیڈر شپ کوائیلیٹی پر بھی گفتگو ہوگی جوآپ کو’’ آنٹرپرینیورسفر‘‘پر لے جائے گا اور مدارس اسلامیہ کا مستقبل کسی طور پر محفوظ کیا جاسکے گا‘‘۔

One thought on “جی ہاں!’’مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں ‘‘اب یہ بھرم ٹوٹ چکا ہے

  1. ما شاء اللہ آپ نے اس موضوع کے اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے- جس تیزی سے ہند کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ مدارس اپنی معنویت مزید کھو دیں گے- مدارس اسلام کے قلعے ضرور ہیں لیکن صرف پرسنل لا کی حد تک اور پرسنل لا مکمل شریعت کا صرف ایک حصہ ہے، جس کی اجازت خود باطل طاقتوں اور باطل نظام نے بعض سمجھوتوں اور مصلحتوں کے تحت دے رکھی ہے، دو تین دہائیاں قبل تک لادینی نظام سیاست و حکومت کے تحت پرسنل لا کو لیکر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جس چین و اطمئنان کی بانسری بجا رہا تھا، اب پرسنل لا میں تیز رفتار مداخلت سے یہ سکون و اطمئنان بھی جاتا رہا- سن 1947 سے پچھلے 75 سالوں کا اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو ہماری جد و جہد کا ما حصل ہمیں سمجھ میں آ جائے گا- صرف 1970 اور 80 کی دہائی سے ہی اگر فسطائی طاقتوں کی منصوبہ بندیوں اور انکی بے پناہ سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی اور کانگریس کی ان کے تئیں کھلی ہمدردی اور سپورٹ پر غور و خوض سے کام لیا جاتا تو ہم مسلمان مستقبل کے بھارت کو بھانپ کر قدرے بہتر لائحہ عمل اختیار کرنے کی پوزیشن میں رہے ہوتے- خیر ان سطور سے کسی پر الزام مقصود نہیں ہے بلکہ صرف رنج و افسوس کا اظہار ہے-
    مدارس سے فراغت کے بعد جب غیروں کے درمیان رہنے، انکی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مدارس میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے والے ہم لوگ ایک دوسری ہی دنیا کی مخلوق ہیں- مدارس میں ہماری تعلیم اور باہر کی دنیا سے کوئی تال میل ہی سمجھ میں نہیں آتا- جے این یو جیسی یونیورسٹی میں بعض ہندو اردو فارسی اور عربی کے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کو، جنکی اکثریت مدارس سے فارغین کی ہوتی تھی، اوپا (Urdu, Persian, Arabic) والے کہہ کر چڑھاتے تھے، کیونکہ مدارس کے فارغین بھی ان سے الگ تھلگ آپس میں ہی مگن رہتے تھے- بعض (ہندوؤں) کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ یہ محدود علم والے لوگ ہیں جو دنیا (اسکے نظام) کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں- میری اس بات کو اگر خواہ مخواہ کی تنقید نہ سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ مدارس میں اس نظریئے سے پڑھائی ہوتی ہے جیسے کہ انہیں صرف جنت کے لئے تیار کیا جا رہا ہو اور دنیا سے کوئی واسطہ نہیں یا برائے نام واسطہ ہے، حالانکہ جنت کا راستہ بھی دنیا کی انہی پرخار وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے- فلاح و اصلاح کا حال تو پھر بھی دوسرے مدارس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ وہاں طلبہ غیر درسیات پر کافی توجہ دیتے ہیں- دیوبند جیسے اہم ترین مدرسے میں جسے بجا طور پر ام المدارس کا نام دیا جاتا ہے، آج بھی اس نیت سے پڑھائی ہوتی ہے یا کرائی جاتی ہے کہ وہ فراغت کے بعد کسی چھوٹے سے چھوٹے مدرسے میں پہنچ کر معمولی سی تنخواہ پر بچوں کو اردو اور دینیات کے عبارتیں رٹائیں گے یا کسی مسجد کا امام یا مکتب کا مولوی بنکر دین کی خدمت کریں گے، پھر نہ صرف یہ کہ زندگی بھر اپنے فقر و مسکینی کا رونا روتے رہیں گے بلکہ باہر کی دنیا میں ہو رہی اتھل پتھل سے بھی بڑی حد تک ناواقف رہیں گے- کیا اس طریقے سے دین کی مطلوبہ خدمت ممکن ہے؟ حالات آج جس دوراہے پر پہنچ چکے ہیں، صرف اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے-
    شرف الدین فلاحی سعودی عرب

Leave a Reply to danish Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *