مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا 9 جنوری 2022 کو 25 واں یوم تاسیس منایا گیا۔ اردو یونیورسٹی نے اب اپنے قیام کے 24 سال مکمل کرلیے ہیں۔ اس دوران یونیورسٹی نے ایک کرایے کی بلڈنگ سے لے کر وسیع کیمپس تک کا تابناک سفر کس طرح طئے کیا؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں قائم انڈیا کی پہلی اردو یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ میں اردو کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ لیکن سرزمین حیدرآباد پر گذشتہ صدی کے اوائل میں قائم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی موجودگی اردو والوں کے زخمی احساسات پر ایک طرح کا مرہم لگانے کا کام کررہی ہے۔
یونیورسٹی ویب سائب کے مطابق ’یہ پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے جنوری 1998 میں کل ہند دائرہ کار کے ساتھ قائم کی گئی۔ جسے سنٹرل یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ملک کے دوردراز علاقوں میں بسنے والے تعلیم سے محروم اور اردو ذریعۂ تعلیم کی پہلی نسل کے طالب علموں کے لیے روایتی و فاصلاتی طرز کے پروگراموں کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی خدمات فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ سال 1998 میں یونیورسٹی نے فاصلاتی تعلیم کے پروگراموں سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور 2004 میں اس نے اردو میڈیم کے ریگولر پروگراموں سے اپنی تعلیمی و تحقیقی بنیادوں کو مستحکم کیا‘۔ اردو یونیورسٹی کا وژن ’شمولیتی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے اردو کے ذریعے معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنا‘ ہے۔
آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا واقعی ان 25 برسوں میں اردو یونیورسٹی نے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی، جس کے لیے یہ قائم کی گئی تھی؟
حالانکہ 24 برس کسی یونیورسٹی کے معیار کو متعین کرنے میں ناکافی ہے لیکن یونیورسٹی اس دوران کس سمت میں سرگرم عمل ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ عرصہ کافی ہے۔ جب یونیورسٹی سال 1998 میں قائم ہوئی تو یہاں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز صرف فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یونیورسٹی ایک عارضی بلڈنگ سے حیدرآباد میں واقع عالمی سطح پر معروف انفارمیشن ٹکنالوجی کے مرکز گچی باؤلی میں منتقل کی گئی۔ بتدریج یونیورسٹی میں فاضلاتی تعلیم کے علاوہ ریگولر ایجوکیشن کی بھی سہولت کا آغاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ پورے ملک کے مختلف حصوں میں ریجنل مراکز قائم کیے گئے، جس میں سری نگر، دہلی، دربھنگہ، بھوپال، کولکاتہ، ممبئی، بنگلورو، پٹنہ اور رانچی شامل ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام کے پہلے دہے میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کا بھی تقرر کیا گیا۔ خاص طور پر اس دور میں غیر اردو داں فیلکٹی کے تقررات پر یونیورسٹی انتظامیہ پر الزامات عائد کیے گئے۔
اپنے قیام کے 24 برس بعد صورت حال یہ ہے کہ ’مختلف شعبہ جات کے تحت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کل84 پروگرام اور کورسز(25 پی ایچ ڈی؛ 21 پوسٹ گریجویشن؛10 گریجویشن؛ 05 پی جی ڈپلوما اور 05 ڈپلوما اور2 سرٹی فیکیٹ کورسز) فراہم ہیں ۔ ان کے علاوہ پالی ٹکنک کے ذریعے (08 ڈپلوما) اورآئی ٹی آئی کے ذریعے (08 سرٹی فیکیٹ ٹریڈس)کے کورسز فراہم ہیں۔ مزید یہ کہ یونیورسٹی انتخاب پر مبنی کریڈٹ سسٹم کے ذریعے بازار کی ضرورتوں کے مطابق ، لچک دار تعلیمی فریم ورک کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی اختراعی اور مناسب حال معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے‘۔
ان 24 برسوں کے دوران یونیورسٹی کو مختلف چھوٹے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں سے ایک اہم مسئلہ یونیورسٹی کے اسناد کو مختلف ریاستوں کی جانب سے تسلیم نہ کرنا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کو حل کرلیا گیا۔
اردو یونیورسٹی کو نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (NAAC) کی طرف سے اعلیٰ ترین ’A‘ گریڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس دوران معروف فلم اداکار دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان اور نغمہ نگار گلزار کو اعزازی ڈگری ڈی لیٹ دی گئی۔ آج یہاں انڈیا کی ہر ریاست سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
آج کل کسی بھی یونیورسٹی کا معیار اس کی رینکنگ کے مطابق طئے کیا جاتا ہے۔ یہ معیار مرکزی وزارت تعلیم کے تحت قائم کیا گیا ادارہ نیشنل انسٹی ٹیویشنل رینگنگ فریم ورک (National Institutional Ranking Framework) طئے کرتا ہے۔ این آئی آر ایف کے سال 2021 کی فہرست کے مطابق انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسس، بنگلورو کا رینک سب سے اول ہے۔ دوسرے درجہ پر دہلی میں قائم جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رینک 6 ہے۔ جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رینک 10 ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے دو تین کلو میٹر دور قائم یونیورسٹی آف حیدرآباد کا رینک 10 ہے۔ ٹاپ رینکنگ یونیورسٹیز کی فہرست میں عثمانیہ یونیورسٹی کا رینک 33 ہے۔ لیکن اس فہرست میں دیئے ٹاپ 200 یونیورسیٹیز میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا نام نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی کو اپنے معیار کو بلند کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔