لک اصغر ہاشمی / منصور الدین فریدی / گوہاٹی بیورو
نفرت انگیزی کے خلاف موہن بھاگوت کے الفاظ قابل ستائش ہیں،امید افزا ہیں۔ کیونکہ نفرت انگیز بیانات سے یقینا ماحول خراب ہورہا ہے ،مسلمانوں پریشان ہیں،اس کی روک تھام چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سمت میں ہر مثبت پہل کا خیر مقدم کیا جائے گا،بات صرف آرایس ایس کی کوششیوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اس سلسلے میں حکومت کو بھی حرکت کرنی ہوگی ۔جب تک زمینی حالات نہیں بدلتے ملک کا ماحول بہتر نہیں ہوگا۔
یہ ردعمل ہیں مسلم علما اور دانشوروں کا جو راشٹریہ سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان پر آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دھرم سنسد میں نفرت انگیزی کو ’’ہندووں کے الفاظ‘ نہیں مانا جاسکتا ہے۔
بیشتر دانشوروں نے ایک جانب جہاں اس بیان اور وضاحت کو ایک مثبت پہل قرار دیا ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ ملک کے حالات میں تبدیلی کا راستہ حکومت کے گلیاروں سے ہی گزرتا ہے اور زمینی حقیقت کو بدلنے میں بھی موہن بھاگوت کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
دہلی فتحپوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے موہن بھاگوت کے بیان پر کہا کہ موہن بھاگوت ایک بڑے لیڈر ہیں اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ماضی میں بھی انہوں نے اس تعلق سے بہت مثبت پیغامات اور بیانات دئیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔ مگر اہم بات یہ بھی ہے کہ اب لفظی بیانات کے ساتھ زمینی حقیقت کو بدلنے کے لیے بھی متحرک ہونا پڑے گا۔کیونکہ ان بیانات سے زمینی حقیقت بدلے یہ زیادہ اہم ہوگا۔وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اس قسم کی وضاحت کرچکے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن انہیں اور آگے بڑھ کر ان واقعات کو روکنے میں اہم کردار نبھانا ہوگاجن کے سبب مسلمانوں میں عدم تحفظ پیدا ہورہا ہے۔
مولانا مفتی مکرم نے مزید کہا کہ عام انسانوں یا مسلمانوں کو یہ نہیں معلوم کہ ہندوازم اور ہندو تو کیا ہے؟
ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہندو لیڈر نفرت انگیز بیانات جاری کررہے ہیں اور وہ بھی واضح لفظوں میں مسلمانوں کے خلاف ۔اس لیے بیانات کے ساتھ ساتھ ممینی حقیقت کو بدلنے کے لیے ضروری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت کی مثبت سوچ کا خیر مقدم ہے کیونکہ جب تک عملی طور پر قدم نہیں اٹھایا جائے گاملک میں ماحول بہتر نہیں ہوگا۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت کے دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے بارے میں بیان کی سراہنا کی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹیوٹ میںکہا ہے کہ یہ بیان خوش آئند ہے، لیکن یاد دلاتے ہیں کہ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نفرت پھیلانے اور پولرائز کرنے والی نفرت انگیز مہمات کے خطرے پر قابو پانے کے لیے زیادہ پرجوش اور فعال طور پر سامنے آئیں گے
ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بیان قابل ستائش ہے،اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔بلاشبہ بیان دیر میں آیا لیکن اس کو مثبت طور پر لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ اہم بات یہ بھی ہے کہ زمینی حالات کو بدلنے کے لیے حرکت میں آنا ہوگا ۔
آر ایس ایس کوئی معمولی تنظیم نہیں ہے ،آج اگر حکومت میں شامل یا حکمراں جماعت کے حامی لوگ نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی ضروری ہے۔ اگر سدرشن ٹی وی پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے تو اس کو روکنا چاہیے ،کاروائی ہونی چاہیے۔
کرناٹک میں حجاب کے معاملہ پر نفرت کا ماحول بن رہا ہے اس کو کون روکے گا؟ ایسے معاملات پر بھاگوت حکومت سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو حکومت یا پارٹی میں نہ رکھا جائے۔
پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ ہم ان کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں،ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موہن بھاگوت ہندوستانی معاشرے میں مکالمہ کی بنیاد ڈالیں جو ملک میں خوف ،دہشت اور نفرت کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا نے کہا کہ میں نے دھرم سنسد کے معاملے پر سنگھ کے بہت سے لوگوں سے بات کی ہے۔ وہ خود اس سے پریشان ہیں۔
سنگھ کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سنگھ اور ہندو مذہب کا نظریہ نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو بلا لحاظ مذہب پست کر دیا جائے گا۔
ویسٹرن کولڈ فیلڈز کے سابق چیف مینیجر اور ناگپور میں ایک بڑی این جی او کے مشیر غلام قادر کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت جی کی باتیں بہت اچھی اور طے شدہ ہیں لیکن وہ کون لوگ ہیں جو مذاہب کی پارلیمنٹ میں اشتعال انگیز باتیں کرتے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے؟یہ بھی سامنے آنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے اعتراض کے باوجود دھرم سنسد کا عمل نہیں رک رہا ہے۔
اس سے پہلے کہ مسئلہ ناسور بن جائے، سنگھ کو حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ایسی تنظیم پر پابندی لگائیں۔ ملک پہلے ہی کورونا کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، دوسری جانب کچھ لوگ ماحول کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔
خورشید رزاق، مسلم راشٹریہ منچ، قومی کنوینرکے مطابق کسی کو ملک توڑنے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہماری تنظیم، ہمارے لیڈر اندریش کمار ملک کی سالمیت، بھائی چارے کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی پارلیمنٹ کے منتظمین کی اپنی سوچ ہے۔ ان سے پوچھنا بہتر ہوگا کہ وہ ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔
آسام مرکزالعلوم کے سربراہ محمد ہلال الدین قاسمی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
محمد ہلال الدین قاسمی نے آواز دی وائس کو بتایا کہ بھاگوت کا بیان ہندو مذہب کے حقیقی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔ کوئی بھی مذہب دوسرے مذاہب سے نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ ڈاکٹر موہن بھاگوت ایک صاحب علم ہیں۔ وہ ہندو مذہب کے اساسی پہلووں سے واقف ہیں۔
پدم شری ڈاکٹرالیاس علی نے کہا کہ بھاگوت کا بیان مثبت ہے۔ ہر مذہب میں شدت پسند عناصرہوتے ہیں اور ہندوازم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ڈاکٹر علی کہتے ہیں کہ ایک مہذب معاشرے کو عناصر کے خلاف آواز اُٹھانا چاہیے۔آئیے اس کی شروعات کریں۔
وحیدہ رحمان(آسامی زیورات کی ماہر) موہن بھاگوت کے بیان سے میں پوری طرح متفق ہیں۔ اس طرح کے بیان سے ہندواورمسلم برادریوں کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
مینی مہنت(مصنف و مبصر): تمام دائیں بازو کے ہندو شہریوں نے دھرم سنسد میں مسلم مخالف بیانات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دھرم سنسد کے خلاف بیان کسی اور کی طرف سے نہیں آرایس ایس سربراہ کا آیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ بھاگوت کے الفاظ ہندومت کی غلط تشریح کرنے والوں کو خاموش کر دیں گے۔