چاند پٹی کا سفر واقعی یادگار رہا !

______ محمد مرسلین اصلاحی
اعظم گڈھ کے شمال میں واقع چاند پٹی اس لحاظ سے بھی معروف ہے کہ سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابو اللیث اصلاحی مرحوم کا وطن مالوف ہے اور مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب جو آپ کے چچا زاد بھائی اور معروف عالم دین ہیں، ہندوستان میں مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگردوں میں آخری یادگار ہیں ۔ان دنوں تمام تر سرگرمیوں سے دست کش ہوکر اپنے آبائی وطن چاند پٹی میں گوشہ گیر ہیں ۔ چوں کہ اس وقت عمر کی نویں دہائی میں ہیں عموما اس عمر میں قوی ناتواں اور عارضے کا ہونا امکانی ہوتا ہے ۔  اس کے باوجود سماعت و بصارت ، ذہن و حافظہ حمد للّہ  بالکل درست ہے ۔ مولانا خوش باش ، زندہ دل ، درویش صفت ، با ذوق اور علم دوست انسان ہیں ۔1941 میں مدرسہ الاصلاح میں داخل ہوئے اور 1948 میں فراغت حاصل کی ، دو سال تخصص فی القرآن کیا گویا آپ کا متعلمانہ سفر 1950 تک ہے ، فراغت کے معا بعد مولانا اختر احسن اصلاحی کے ایما پر مدرسے میں قرآن مجید کے استاذ کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے لگے ۔ 1960 میں کرسیء صدارت پر فائز ہوئے اور 1961 میں بعض وجوہ کی بنا پر مدرسے سے مستعفی کر دیئے گئے ۔ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے ۔ مدھیہ پردیش کے امیر جماعت کی حیثیت سے دس سال جماعت کی سرگرمیوں میں مصروف کار رہے ۔ اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو زنداں کی قید کاٹی ۔ سیاست کے گلیارے میں تلوے سہلائے لیکن بہت جلد اس کوچے کو خیر باد کہہ دیا ۔ جامعہ الفلاح قائم ہوا تو اس کی تاسیس و تعمیر میں اہم کردار ادا کیا اور مدت ہائے دراز تک تدریس و تصنیف کے کاموں میں سرگرم عمل رہے۔  ان دنوں مستقل طور پر گھر پر ہی ہیں ۔ پیرانہ سالی کے باوجود مطالعہ ، تصنیف و تالیف ، روزنامچہ اور دیگر علمی مشاغل بدستور جاری ہیں ۔ چند دن پہلے کافی علیل تھے حالاں کہ اب رو بہ صحت ہیں، آپ کا قلم بڑا عمدہ اور  مطالعہ اس قدر گہرا ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں عالمانہ شان پائی جاتی ہے ۔ زبان و اسلوب ، انداز تکلم ، تلفظ کمال کا ہے سچ تو یہ ہے کہ جنہوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی آنکھیں دیکھی ہوں زبان و بیان کے معاملے میں کوئی غلطی کیسے کر سکتا ہے ۔ جس عہد میں ابو صالح اصلاحی ، عبد اللطیف اعظمی ، انور اعظمی ، خلیل الرحمن اعظمی جیسے صاحب زبان و قلم مولانا اصلاحی کے فیض یافتگان آپ کے معاصر رہے ہوں ۔ اس کی زبان و ادب کے متعلق کسے کلام ہو سکتا ہے ۔ آپ کا شمار ابنائے مدرسۃ الاصلاح کے ان اساطین میں ہوتا ہے جنہوں نے مدرسۃ الاصلاح کا زریں عہد دیکھا ہے جس وقت مدرسے پر مولانا اختر احسن اصلاحی ، مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا شبلی متکلم ندوی  ، مولانا بدر الدین اصلاحی ، مولانا غالب احسن اصلاحی ، مولانا داؤد اکبر اصلاحی جیسے یگانگان عصر موجود تھے جن سے بزم فضل و کمال آراستہ تھی ۔  جنہوں نے مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس روایت کو زندہ رکھا جس کے روح رواں علامہ شبلی نعمانی اور علامہ حمید الدین فراہی رح تھے ۔ وہ ایک انجمن تھی جو بکھر گئی۔ مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں ۔جامعۃ الفلاح سے سبکدوش ہونے کے بعد مستقل طور اپنے آبائی وطن چاند پٹی میں مقیم ہیں ۔19 فروری بروز یکشنبہ استاذ گرامی مولانا نسیم ظہیر اصلاحی صاحب کی معیت میں برادر جمال احمد خان اصلاحی ، ابو عاصم اصلاحی سنجری  ، محمد ثاقب اور خاکسار مولانا کے دولت کدے پہنچے۔ مولانا نے بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ اس ملاقات کا مقصد اصلا راقم کی زیر ترتیب کتاب  “ادیب الہند_ مولانا امین احسن اصلاحی __ ادبی و نثری خدمات ” کے بعض اہم گوشوں سے متعلق معلومات کی فراہمی تھی۔ چوں کہ آپ بزم اصلاحی کی آخری شمع ہیں جس سے کچھ روشنی کی توقع ہے  ۔ بقول علامہ اقبال !
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو فاش کردیا
میں ہی تو  ایک راز تھا سینہ ء کائنات میں
آپ مولانا امین احسن اصلاحی سے بڑے قریب رہے ۔ مدرسہ الاصلاح اور مولانا اصلاحی سے متعلق بعض وضاحت طلب امور پر پورے ضبط کے ساتھ اپنی یادداشت بیان کی ۔ دوران گفتگو آپ کے تاثرات سے محسوس ہوتا تھا کہ گویا آپ اسی دور میں ہوں جہاں حسرتوں کی جھلکیاں یادوں کے شبستاں میں کسی چراغ کا اجالا ہوں۔ یادوں کا ایسا حسین گلدستہ ! جہاں لالہ کاری بھی تھی اور رشک و  تاسف بھی۔ مولانا ایک ایک بات پر توقف کرتے گویا گذشتہ دنوں کی یادیں اب بس بے ربط خیالوں کا دھواں ہو گئی ہیں ۔
بوئے گل ، نالہ ء دل ، دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
 دوران گفتگو بہت ساری باتیں زیر بحث آئیں ۔ کہنے لگے طالب علمی کا زمانہ تھا بڑی غربت تھی ۔ جہاں عوام مفلوک الحال ہو تو ادارے خوش حال کیسے ہو سکتے تھے۔ آمد و رفت کے ذرائع  نہ تھے۔ چاند پٹی سے پیدل اعظم گڈھ جاتے اور وہاں سے ریل گاڑی سے مدرسہ آتے ۔ داؤد اکبر اصلاحی کے متعلق فرمایا کہ قرآن مجید کے بے مثال استاذ تھے۔  پائجامے پر پیوندکاری ہوتی، نہ کوئی عار نہ کوئی ننگ ۔ مولانا اصلاحی کے متعلق فرمایا کہ دوران درس مادری زبان کی طرح عربی بولتے تھے ۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی تشریح میں عمدہ نکات بیان کرتے ۔ غضب کا استحضار تھا ۔ بلند آواز ، پر وقار لب و لہجہ ، چہرے مہرے سے علمی شان نمایاں تھی ۔ بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے، بے مثال مقرر تھے، خطاب کرتے تو سماں باندھ دیتے اسی سبب آپ کو ابو الکلام ثانی کہا جاتا تھا ۔ بڑے خوددار اور غنی صفت انسان تھے ۔ مولانا بدر الدین اصلاحی سے چشمک رہی اور انہیں کے روئیے سے ملول ہوکر مولانا نے مدرسہ چھوڑا اور بمہور آگئے ۔ جماعت اسلامی 1941 میں قائم ہوچکی تھی ۔   1946 میں تقسیم کا غلغلہ ہوا تو مولانا مودودی کے ایما پر پٹھان کوٹ چلے گئے ۔ان دنوں مرکز پٹھان کوٹ منتقل ہو چکا تھا۔ تقسیم کے بعد حالات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ واپسی ممکن نہ رہی ۔ مولانا اصلاحی طبعاً تند خو اور جذباتی تھے ، اردو زبان ایسی شان دار تھی کہ ان کے بولے ہوئے الفاظ آج بھی زبان زد ہیں انھوں نے مدرسے سے کبھی تنخواہ نہ لی البتہ اختر احسن صاحب ان کے اخراجات کے ذمہ دار تھے ۔ گھر جاتے تو صرف دو روپیہ اختر احسن اصلاحی صاحب لے لیتے اور واپسی پر اہلیہ سے دو روپیہ ۔ دنیا کے علائق سے بے نیاز تھے ، بڑے با ذوق ، وضع دار اور مضبوط قوت ارادہ کے مالک تھے ، حق گوئی اور بے باکی آپ کی شخصیت کا وصف ثانی تھا، یہی وجہ ہے کہ غلط کار رویوں سے سخت نفرت تھی ۔ مولانا اختر اصلاحی صاحب  کے متعلق فرمایا کہ مولانا امین احسن اصلاحی انہیں بہت عزیز رکھتے اور بڑا بھائی سمجھتے ۔ اختر احسن اصلاحی صاحب نہایت خدا ترس اور خاموش طبع انسان تھے ۔ منتہی درجات میں قرآن نہ پڑھاتے اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ فرماتے تھے کہ میں قرآن پڑھانے کی اجرت نہیں لے سکتا ۔ شبنم سبحانی ، نجات اللہ صدیقی ، عبد الحق انصاری وغیرہ نے مدرسے پر رہ کر آپ سے قرآن پڑھا ۔ مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے بڑے قریب رہے اور انہیں بزرگوں کی روایات کے پاس دار ہیں ۔ مولانا سے ہمارے استفسار کا مقصود اصلا وہ معلومات تھیں جن کی بابت ابنائے مدرسۃ الاصلاح میں مولانا اصلاحی کے متعلق بعض غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ حالاں کہ مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب عمر کے جس پڑاؤ میں ہیں ان کی روایات کی حیثیت کسی تاریخی استناد کی تو نہیں ہے البتہ واقعات و حادثات کی بابت معلومات میں اضافے کا سبب ضرور ہیں باوجود اس کے کہ یادداشت سے نکلا ہوا ایک اک لفظ اس لحاظ سے اہم ہے کہ آپ اس دور کے امین ہیں جو مدرسۃ الاصلاح کا عہد عروج کہا جاتا ہے جس عہد میں ایسے اساتذہ کی ایک کاہکشاں موجود تھی جنہوں نے علامہ فراہی سے اکتساب فیض کیا تھا ۔ مولانا امین احسن اصلاحی بھی انہیں میں سے ایک تھے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے عادات و اخلاق سے متعلق استفسار پر آپ نے ایک ایسا جامع لفظ کہا جس میں آپ کی شخصیت سمٹ گئی کہ :
“وہ باشاہ صفت انسان تھے !!!
نور اللہ مرقدہ ۔
چاند پٹی کا یہ سفر واقعی یادگار رہا !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *