حجاب کیس: فیصلہ قرآن کے برعکس مگر مسلمانوں کی لڑائی قانونی رہے:علما و دانشور

منصور الدین فریدی

حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ سراسر قرآن کے بر عکس ہے،بات صرف مذہبی آزادی کی نہیں بلکہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ،مگر اس کو کوئی سماجی مسئلہ بنانے کے بجائے قانونی طور پر نپٹنا ہوگا۔ مسلمانوں کے سامنے سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو پر امن رہنا ہوگا اور اپنے جمہوری اصولوں کی بنیادی پر آئین کے تحت لڑائی جاری رکھیں۔

ان خیالات کا اظہار ممتاز اسلامی علما اور دانشوروں نے کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کو اسلام کا لازمی حصہ مانتے سے انکار اور کالجوں میں حجاب کے استعمال پر پا بندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد کیا ہے۔ بیشتر دانشوروں کا ماننا ہے کہ یہ قانونی لڑائی ہے اس لیے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔قانونی طور پر اس کا سامنا کیا جائے۔

ممتاز دانشور اور قدم شری پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ ’’۔ یہ فیصلہ قرآن کے بالکل برعکس ہے ،قرآن کریم کی سورہ نور اور سورہ احزاب میں واضح طور پر پردے کے بارے میں ذکر اور وضاحت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 25 کے ساتھ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے ۔

 پروفیسر اختر الواسع نے بہرحال کہا کہ مسلمانوں کو اس کے خلاف کوئی احتجاج یا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لڑائی کو دراصل قانونی دائرے میں ہی لڑنا ہوگا ،مسلمانوں کو پر امن رہنے کے ساتھ سپریم کورٹ کا رخ کرنا ہوگا۔

دہلی کی تاریخی مسجد فتحپوری کے امام اور ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ کہا کہ صرف افسوس کا اظہار کرسکتا ہوں ،مگر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کا مقابلہ قانونی طور پر کرنا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں اخلاق کا دامن تھامے رہنا ہوگا جو سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ قانونی لڑائی ہے جمہوری اور دستوری بنیاد پر لڑی جائے گی۔

 مفتی مکرم نے کہا کہ بلاشبہ ہم انصاف کا احترام کرتے ہیں لیکن انصاف نظر بھی آنا چاہیے۔ایسا لگتا ہے کہ عدالت نے ایک سوچی سمجھی رائے لکھ دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وکیل دفاع نے کیا دلائل اور جواز پیش کئے کو ہائی کورٹ کو مطمین نہیں کرسکے ؟

مفتی مکرم احمد نے مزید کہا کہ حجاب کوئی معمولی چیز نہیں ،زندگی کا حصہ ہے کیونکہ حجاب قرآن کریم کے ساتھ حدیث میں موجود ہے۔ پیغمبر اسلام کا حکم ہے۔ یہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ کا حصہ ہے ۔بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی نا امیدی اور پریشانی کو عدالت ہی دور کرے گی۔

جماعت اسلامی ہند کے ڈاکٹر رضی الااسلام ندوی کا کہنا ہے کہ عدالت کا حجاب کو اسلام کا لازمی حصہ نہ ماننا ہی بالکل غلط ہے۔ میں نے ابھی کورٹ کا آرڈر نہیں دیکھا ہے ،اس میں اس کے لیے کیا دلائل دی گئی ہیں یہ دیکھنا ہوگا ۔لیکن جہاں تک قرآن کی بات ہے تو اس میں بالکل واضح طور پر حجاب کا ذکر سورہ نور اور سورہ احزاب میں موجود ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یقینا چہرہ چھپانے پر قرآن میں واضح طور پر نہیں کہا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر اختلاف ہوسکتا ہے۔لیکن چہرہ اور ہاتھوں کے سوا پورے جسم کو ڈھکنے کا حکم ہے۔ ڈاکٹر رضی الااسلام نے مزید کہا کہ اگر کچھ خواتین حجاب یا کسی اور اسلامی عمل کی پابندی نہ کریں تو اس کو غیر لازمی نہیں مانا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر رضی الاسلام نے مزید کہا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ اسکول انتظامیہ کو یونیفارم طے کرنے کا حق حاصل ہے ۔لیکن اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی یونیفارم سے ہٹ کر کچھ استعمال کرتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

اہم بات یہ ہے کہ یونیفارم مکمل ہو۔اس کے بعد کیا استعمال ہو اس کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔جس طرح سکھوں کو پگڑی کے لیے نہیں روکا جاسکتا ہے اس طرح حجاب کو بھی ممنوع نہیں ہونا چاہیے۔اگر پگڑی خلاف ورزی نہیں ہے تو حجاب کیسے ؟

اس مسئلہ پر  اب مسلمان کیا کریں گے؟ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ اس پر دو سطح پر کام ہونا ہے اول تو مسلمانوں کے نمائندہ شخصیات اور تنظیموں کو آگے آنا ہوگا ،اس مسئلہ پر مشورہ کرنا ہوگا۔کیا سپریم کورٹ جانا ہے یا نہیں ۔دوسرا معاملہ یہ اہم ہے کہ جو طالبات ایسے اسکولوں یا کالج میں زیر تعلیم ہیں جہاں حجاب کو ممنوع قرار دیا جائے گا تو پھر انہیں کیا کرنا ہوگا؟

اول اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ تعلیم کا نقصان نہیں کرنا ہے۔تعلیم سے محرومی کسی قیمت پر نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کے اسکول میں ایسا کوئی ڈریس کوڈ نہیں بنتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی متبادل اسکول تلاش کرنا ہوگا ۔اگر ایسا ممکن نہیں ہو آپ اس ڈریس کوڈ کا استعمال کرسکتی ہیں ۔قابل غور بات یہ ہے کہ حجاب پر عام زندگی میں پابندی نہیں ہے بلکہ اسکول یا کالج کے کیمپس میں ہوگی ۔اس لیے کچھ گھنٹے حجاب کے بغیر تعلیم حاصل کرنے کا راستہ بھی کھلا ہے لیکن حتمی فیصلہ طالبات کا ہی ہوگا ۔بس اتنا یاد رکھیں تعلیم سے محرومی نہ ہو جو دین کا حصہ ہے

انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ مفتی منظور ضیائی کا کہنا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ملک میں یکساں سول کورٹ کی دستک ہے۔ آج عدالت حجاب کو اسلام یا قرآن کا حصہ نہیں مان رہی ہے ،کل داڑھی اور ٹوپی کے ساتھ نماز پر بھی اعتراض ہوگا

۔بہرحال نا امیدی کفر ہے۔ مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سامنے سپریم کور ٹ کا دروازہ کھلا ہے۔ مسئلہ دستوری ہے۔ مذہبی آزادی کے ساتھ بنیادی حق سے محرومی کی بات ہے اس لیے حل عدالت میں ہی تلاش کرنا چاہیے۔

مفتی ضیائی نے مزید کہا کہ ابتک کرناٹک کی طالبات نے اس مسئلہ کو انتہائی اعلی ظرفی کے ساتھ عدالت میں رکھا تھا اب قوم کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملہ میں آگے لیجانے کے لیے منظم ہو اور سپریم کورٹ میں دستک دی جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *