شاہ تاج خان،ممبئی
اسٹیفن ہاکنگ نے اپنے طرزعمل سے ثابت کیا کہ معذور افراد خاندان اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنےمعاشرے کے لیے ایک مفید انسان بھی ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتے تھے جہاں ان کی تمام صلاحیتوں اور ذہنی قوتوں کو پنپنے کے مکمل مواقع فراہم تھے۔ مغربی ممالک کے معاشرے میں معذور افراد کی مکمل شرکت کے لیے بنیادی ڈھانچے میں ضرورت پر مبنی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ایسے افراد کو متحرک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ جہاں تک ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے، اس پر بھی بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔
امید دی ہاپ فری اسپیشل اسکول
پرویز فرید صاحب جنہوں نے امید دی ہاپ فری اسپیشل اسکول کی بنیاد رکھی اور خصوصی صلاحیتوں کے حامل بچوں کو تعلیم دینے کی مہم شروع کی۔ امید اسکول شروع کرنے کا خیال ان کے ذہن میں اچانک نہیں آیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی کا بیٹا اسپیشل چائلڈ ہے۔ جس کی تعلیم کے لیے انھوں نے بہت کوشش کی۔
بچے کے لیے خصوصی اسکول کی تلاش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایسے اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے اور داخلے کے لیے انتظار کی فہرست بہت طویل ہے۔ پھر پرویز صاحب نے خود اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر ممبرا میں امید اسکول وجود میں آیا۔
پرویز صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان میں دیکھا تھا کہ ان بچوں کی ضروریات عام بچوں سے بہت مختلف ہیں۔ ان کی ضرورت کے مطابق سازگار ماحول بنانے کی ضرورت ہوگی، انہیں ان کی ضرورت کے مطابق ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ اپنے بھتیجے کے لیے صحیح اسکول کی تلاش آج سینکڑوں بچوں کا سہارا بن چکی ہے۔
ان میں سے کچھ کو سمجھیں
مہاراشٹر کے شہر ممبرا میں ہنستے مسکراتے معصوم بچوں کے والدین ایک امید لے کر یہاں آتے ہیں۔ اس اسکول کے اساتذہ ،یہاں زیرتربیت بچوں کی ضروریات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی ضرورت کے مطابق ان بچوں کا ہاتھ پکڑ کر معاشرے میں مناسب مقام حاصل کرنے اور پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ زندگی ہے، کچھ خواب، کچھ امیدیں
پرویز صاحب کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے بارے میں لوگوں میں بہت غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے معاشرے کو آگاہ کرنا ہوگا۔ تاکہ خاندان اور معاشرہ انہیں کھلے دل سے قبول کرے۔ ان خصوصی بچوں میں کسی نہ کسی قسم کا ذہنی مسئلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرے اور بیرونی ماحول سے جڑنے سے خود کوقاصر پاتے ہیں۔
وہ اپنی ضروریات کے بارے میں بات کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اگر ان کے ارد گرد کے لوگ ان کو نہ سمجھیں تو صورتحال سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ پرویز صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اندھے، گونگے اور بہرے اور ذہنی طور پر معذور بچوں کے حوالے سے بہت غلط احساس پایا جاتا ہے۔
انہیں معاشرے اور خاندان پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحیح تربیت اور مناسب مشاورت بھی ان بچوں کو ملک کے ذمہ دار شہری بننے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ نٹ کھٹ بچے
لوگ اکثر امید اسکول میں خصوصی بچوں کے ساتھ اپنا کچھ وقت گزارنے آتے ہیں۔ پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ہم وقتاً فوقتاً لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ بار بار ان بچوں سے ملنے آتے ہیں اورامیداسکول کا یہ اقدام ان بچوں کے تئیں عام لوگوں کے جذبات اور خیالات کو بدلنے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
عبدالمجید انصاری صاحب نے بتایا کہ جب بھی مجھے وقت ملتا ہے میں اسکول آتا ہوں اور ہر بار ایک نیا تجربہ لیتا ہوں۔ میں نے ایک بار ایک بچی کو پہلی بار اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے دیکھا اور جب اس نے پہلا قدم اٹھایا تو اس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک لڑکی جو بہت کوشش کے بعد ’ایپل‘ بولنے میں کامیاب ہوئی، میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس کے چہرے پر کامیابی کی خوشی بیان کروں۔ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ یہ بچے کتنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس خصوصی بچوں کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام نہیں، عبدالمجید صاحب پوچھتے ہیں کہ ہم ان کی ضروریات کو کب سمجھیں گے؟
معذور ہم کو مت کہو ،ہم روشنی پھیلائیں گے*
لاک ڈاؤن سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آن لائن تعلیم سے عام بچوں کو کسی حد تک مدد ملی لیکن خصوصی صلاحیتوں کے حامل بچے آن لائن تعلیم حاصل نہ کر سکے جس کی وجہ سے ان کی تمام تر تعلیمی ترقی صفر ہو گئی۔ اب انہیں دوبارہ شروع کرنا ہوگا۔
ایک نابینا ٹیچر کا کہنا ہے کہ ہم آن لائن کچھ نہیں کر سکتے، ہم ہر چیز کو ہاتھ سے چھو کر پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ بچے نے کیا لکھا ہے اور نہ ہی بچہ سمجھ سکتا ہے کہ استاد نے کیا کہا ہے۔ چاہے وہ بریل میں پڑھنا ہو یا کمپیوٹر پر کام کرنا۔
بارہویں جماعت کے ایک نابینا طالب علم کا کہنا ہے کہ اسکول نہ آنے کی وجہ سے اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پاس کوئی خاص کمپیوٹر نہیں تھا، اس لیے اس کی پڑھائی میں کافی نقصان ہوا۔ اسپیشل بچے کی ماں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اسپیشل چائلڈ ہے وہ ہائپر ایکٹیو ہے۔ جب وہ اسکول آتا تھا تو خوش ہوتا تھا لیکن لاک ڈاؤن میں بہت چڑچڑا ہو گیا تھا۔ اسے سنبھالنا بہت مشکل تھا۔
پرویز صاحب کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو سنبھالنے اور سمجھنے کے لیے ہر وقت تجربہ کار اور ماہر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نہ صرف بچوں کو بلکہ ان کے والدین کو بھی یہ تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھنے اور سنبھالنے میں آسانی پیدا کریں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امید اسکول کی کوشش ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر اپنے خاندان کا سہارا بنیں یا کم از کم اپنی ذمہ داری اٹھا سکیں۔
تعلیم کے ساتھ تربیت
خصوصی تعلیمی اداروں میں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ خصوصی بچوں کو فن اور کرافٹ، ڈریس ڈیزائننگ، کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ جیسی پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے بے روزگاری سے بچایا جا سکتا ہے۔ پرویز فرید صاحب کہتے ہیں کہ ہم ان بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے معاشرے میں موجود رکاوٹوں کی نشاندہی نہیں کی جائے گی اور ان کو دور کرنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے جائیں گے تب تک یہ بچے صرف معذور بن کر رہ جائیں گے جو بعد میں معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے۔ جس کے ذمہ دار بچے نہیں بلکہ ہم اور آپ ہوں گے۔ اس لیے اگر انہیں مرکزی دھارے سے جوڑنا ہے تو خاندان، سماج اور حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔