ایک حقیقت پسندانہ جائزے پر ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ

عدیل اختر
ملی گزٹ کے ایڈیٹر محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب ملت کے ان لوگوں میں سے ہیں جن سے ملنے والے لوگ اچھے آداب و اخلاق کا تاثر لئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ راقم السطور کو بھی ان  سے گاہے بہ گاہے ملتے رہنے کا شرف حاصل ہے۔ معاملات میں کھرے اور اخلاقیات میں حسین ڈاکٹر صاحب سے مل کر ہمیشہ خوشی کا احساس ہی ہوا۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی ایک مثال ہے ان کی شخصیت۔ ان کی علمی فضیلت اور سنجیدہ کاوشوں سے لوگ بالعموم واقف ہیں ہی۔  ان کی ایک حالیہ تقریر سوشل میڈیا پر بڑی دلچسپی اور تائید کے ساتھ سنی جارہی ہے۔ انھوں نے یقینا دکھتی رگوں پر انگلی رکھی ہے اور بصیرت مندانہ تبصروں سے خود احتسابی کے موضوعات کو اجاگر کیا ہے۔
اس طرح کی بامقصد گفتگو کا یہ حق ہے کہ اسےفضا میں معلق نہ چھوڑا جائے یا بالکل یکطرفہ نظریہ کے طور پر نہ قبول کر لیا جائے بلکہ بات میں بات ملائی جائے اور سنجیدہ اختلاف رائے کی آزادی کے ساتھ گفتگو میں حصہ لیا جائے۔
چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے جو مسئلہ سب سے آخر میں ذکر کیا ہے وہیں سے بات شروع کرتے ہیں اور ہمارے خیال میں یہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔ یعنی ہم مسلمانوں کی اخلاقی حالت۔ یہ ملت کے کسی ایک طبقے کا مسئلہ نہیں ہے چھوٹے بڑے “اونچے نیچے” سبھی کی اخلاقی حالت کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی اخلاقیات کے معیاری ہونے کی دعا کرنی چاہئے جن کو عام مسلمان اپنے سے اوپر دیکھتے ہیں اور ان کا تاثر لیتے ہیں۔ اس سطح کے لوگوں میں ارباب مدارس بھی شامل ہیں، جدید تعلیمی اور سماجی ادارے چلانے والے اصحاب اختیار بھی شامل ہیں، تنظمیں چلانے والے قائدین بھی شامل ہیں، بڑی بڑی مسجدوں کے شاہی اور موروثی امام بھی شامل ہیں، بڑے عہدوں اور منصبوں پر پہنچنے والے اکابرین قوم بھی شامل ہیں۔ اور سب سے زیادہ نمایاں طور پر وہ لوگ ہیں جنہیں مسلمان اپنے سیاسی نمائندوں کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
اس طبقے میں’ بہ استثنا ء چند’ بالعموم خود غرضی، تکبر ذات، موقع پرستی، چھل کپٹ، اختیارات کے غلط استعمال، باہمی حسد، سازشی طور طریقے، منصبوں پر تاعمر جم کر بیٹھنے کی حرص، نئے افراد کو ابھرنے سے روکنا، ماتحتوں کو کم تنخواہوں پر رکھنا، کسی کو آگے بڑھنے میں مدد نہ دینا اور اپنے مقام و منصب کو اربابِ اقتدار کی خوش نودی کے لئے استعمال کرنے جیسی تقریباً سبھی اخلاقی کمزوریاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ کہیں کچھ، کہیں کچھ، اور کہیں سب کچھ ایک ساتھ۔  مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد سے بھی ہم مسلمانوں کا یہ سربر آوردہ طبقہ بچا ہوا نہیں ہے۔ خاص طور سے چندوں کے ذریعے بڑے بڑے مدارس چلانے والے مہتم حضرات۔
اپنی اس کمزوری اخلاق کی وجہ سے یہ سربر آوردہ طبقہ عام مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کرنے کی طرف بھی مائل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے لئے خود بدعنوانی کی ایک مثال اور ترغیب بنا ہوا ہے۔ جناب ظفر الاسلام صاحب نے ایک مرد مجاہد  کے لقب کے ساتھ سرسید احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کیا ہے۔ ان محسن ملت کی مخلصانہ کاوش سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے اکثر نے ان کی شخصیت کے جس بڑے پہلو کو عام طور سے نظر انداز کیا ہے وہ یہی تہذیب الاخلاق ہے۔ سرسید نے اپنے مشن کی شروعات  اخلاقیات پر زور دے کر کی۔ ان کے رسالے تہذیب الاخلاق کا عنوان ہی یہ بتاتا ہے کہ سرسید کی نظر میں اخلاق کی اصلاح کتنی ضروری اور اہم تھی۔
اب رہا سوال اس کا کہ جذباتیت نے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور جذبات کی نفی نے ایمان واسلام کو کتنا نقصان پہنچا یا ہے تو یہ ذدا مفصل بحث کا موضوع ہے سر سری طور سے کوئی یک طرفہ بات کہنا اور قبول کرلینا قرین انصاف نہیں ہے۔ مسلمانوں کی “جذباتیت” ان کی دینی حمیت اور ایمانی حساسیت کی وجہ سے ہے۔ اس کے ساتھ یقینی طور سے فراست و حکمت کو وابستہ رہنا چاہئے لیکن دینی حمیت اور ایمانی حساسیت کی نفی کرکے جس دانشورانہ فکری رویے کی تشہیر و تائید کی جاتی ہے وہ مسلمانوں کے لئے دین و دنیا کے اعتبار سے اس جذباتیت سے زیادہ نقصان دہ ہے جس میں فراست وبصیرت سے کام‌نہ لیا جائے۔ دین و ایمان کی بات تو اپنی جگہ صرف قومی غیرت بھی وہ قیمتی جذبہ ہوتا ہے جس پر ہر قوم فخر کرتی ہے اور اپنی آن بان کے لئے مرمٹنے کو اپنی فتح سمجھتی ہے۔ یہ ہماری ذہنی پژمردگی ہے کہ آج ہم ہر اس بات کو جذباتیت کہہ کر بے وزن کرتے ہیں جو ہمارے لئے آرام اور سہولت کا ذریعہ نہیں بنتی یا  ہماری زندگی کے سکون کو درہم برہم رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایمانی تاریخ کا سلسلہ ازل سے ہی جذبہ ایمانی کی اتباع سے جڑا ہوا ہے۔ اسے ہی ہمارے لئے اسوہ بنایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم کی بت شکنی اور پھر آگ میں ڈالے جانے کو پسند کرلینا، حضرت موسیٰ کا فرعون کو چیلنج کرنا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار قریش سے ہم آہنگی پر راضی نہ ہونا ،تن تنہا طائف پہنچ جانا، مدینہ میں استحکام حاصل کرلینے سے پہلے اہل مکہ کے قافلہ تجارت کو روک کر مکہ والوں کی دشمنی کو اور بھڑ کادینا، ذرا سی جمیعت ملنے پر مکہ والوں کے سر پر جا پہنچنا اور طواف کے لئے اصرار کرنا، حضرت عثمان کے قتل کی افواہ سننے پر تلوار نکال لینا اور بدلہ لینے کی بیعت کر لینا ،اہل مکہ کی طرف سے صلح نامہ حدیبیہ کی ذرا سی خلاف ورزی پر معاہدہ ختم کردینا جیسی ساری باتیں ہماری ایمانیات کے لئے مثال اور نقش راہ ہیں لیکن ہمارے آج کے دانش ورانہ آدرش کے لحاظ سے نرے جذباتی طرز عمل کہے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ جذبہ ہے جسے علامہ اقبال جیسے دانا اور فلسفی نے عشق کانام دیا ہے اور اسے عقلیت سے برتر و بلند چیز قرار دیا ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے حوالے سے اگر بے شعوری والے جذباتی رویے کا جائزہ لیا جائے تو اسے کیا کہا جائے گا کہ انگریز (مذہباً عیسائی بہ الفاظ دیگر اہل کتاب) کی دشمنی میں ہم اتنے اندھے ہوئے کہ ٹھیٹھ مشرک قوم جو مشرکین عرب کی ہو بہو ہے اور جسے قرآن نے مومنوں کی شدید دشمن قرار دیا ہے ان سے بھائی چارے کا رشتہ قائم کرنے کو ہم نے اپنا ایمان بنا لیا اور ان کے ساتھ “ایک ہی جہت” پر چلنے (یکجھتی بنانے) پر ہمیشہ کے لئے راضی ہو گئے؟  یہ عقل مندی اور فہم و فراست تھی یا نری جذباتیت کہ خواہی نخواہی تقسیم ہند کا فیصلہ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کے سواد اعظم کے ساتھ جانے کے بجائے “امام الہند” اور “شیخ الاسلام” کا لقب پانے والی ہستیوں نے پورا زور مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں لگا دیا اور ہمیں اس قوم کا دست نگر بناگئے جو آج ہمارے خون کی پیاسی نظر آرہی ہے؟
 ماضی کے معاملوں اور فیصلوں کو اپنی اپنی نظر سے دیکھ کر اور یک طرفہ رایے زنی کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اس بات پر اتفاق کریں کہ قرآن و سنت کو رہنما بناکر اقامت دین کے موقف کے ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی و تعلیمی میدانوں میں کام  نہ کرنا کل بھی ہمارا سب سے بڑا قصور تھا اور آج بھی یہی سب بڑی کوتاہی ‌اور پست ہمتی ہے۔ ہماری اس پست ہمتی نے ہماری تمام روایتوں کو ہمارے لئے ایک بوجھ بنا دیا ہے اور زمانے کی خدا مخالف تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جینے کو ہماری فکری روش بنا دیا ہے۔ اسی روش کی وجہ سے ہم ہر اس چیز کو جس میں تھوڑے سے ایچ پیچ کی گنجائش نظر آتی ہے دین سے نکالنے کے لئے آمادہ ہو ئے جارہے ہیں کیونکہ کہ ہمیں اس پر اکسانے والی طاقتیں بڑی ہو شیاری کے ساتھ سرگرم ہیں۔
ایسا ہی ایک مسئلہ بنک انٹرسٹ کا ہے۔ دین کا نام لینے والا کوئی اسکالر ربوی کا تو انکار نہیں کرتا کیونکہ یہ قرآن کی اصطلاح ہے اور سیدھے سیدھے منکر قرآن ہونے کا الزام سر پر آجائے گا لیکن لفظ ربوی کی تعریف اور بنک کے مروجہ سود پر اس کے اطلاق کو لے کر ایک بحث لمبے عرصے سے چلی آرہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلے زمانے کے بھی کچھ بڑے نام ہیں جنھوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آج کا بنک انٹرسٹ ربوی نہیں ہے جو قرآن و سنت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اطمینان کی بات ہے کہ فقہاء نے اسے عام طور سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس مسئلہ کی ٹیکنکل بحث تو ہم اسکالرز کے لئے چھوڑ تے ہیں لیکن ظفر الاسلام صاحب کے وائرل ویڈیو نے عام مسلمانوں کو اس کے حلال ہونے کا جو میسج دیا ہے اس کے پیش نظر یہ سوال ضرور یہاں کریں گے کہ انٹرسٹ پر مبنی معیشت عام انسانوں کی فلاح کا ذریعہ ہے یا  استحصال کا؟ سودی قرضے معیشت کو فروغ دیتے اور فراوانی مال کو عام کرتے ہیں یا قرض دار کو کمزور، بے بس اور مفلس بناتے ہیں؟ اس سے دولت کی نمو ہوتی ہے یا کساد بازاری جنم لیتی ہے؟ غریب محنت کش اور کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب کر جو خود کشی کرتے ہیں کیا یہ سود کی لعنت کی وجہ سے نہیں ہے؟ اس لئے بنک جس کو سود پر قرض دیتا ہے  وہ اس کے لئے ربوی سے مختلف کیسے ہے؟ آپ مانیں یا نہ مانیں بنک کے کرم چاری اس بات کو مانتے ہیں کہ بنک سود پر قرض دے کر قرض دار کو بری طرح برباد کردیتا ہے۔ تو جب بنک کا نظام معیشت ہی ظلم واستحصال پر مبنی ہے اور اپنے آپ میں باطل ہے تو اس بنک میں پیسے جمع کرکے سود کی رقم کھانا صحیح کیسے ہو سکتا ہے؟
موصوف نے اسلامنک بنکنگ کی کوششوں پر مایوسی کے بجائے اعتراض کا اظہار کیا ہے جس کا مطلب یہ نکلتا ہے  کہ ایسی جستجو اور کوشش ہی بیکار ہے۔ حالانکہ سودی معیشت کا متبادل فروغ دینے کی کوشش لائق تأئید وتحسین ہے اور کار ثواب ہے۔ رہی بات اسلامک بنکنگ کے نام پر فراڈ ہونے کی تو اس کی وجہ اخلاقی گراوٹ اور بے ایمانی و بے کرداری کو سمجھنا چاہئے  جو ہماری عام اخلاقی حالت کی وجہ سے ہے۔ اسلامک بنکنگ ماڈل کو فروغ دینے میں دقتوں اور تکنیکی وجوہات کا مسئلہ الگ ہے اور یہ بلا شبہ ایک جوکھم بھرا کام ہے لیکن اسلامک بنکنگ کے تصور کی افادیت کا اعتراف ہم تھکے ہارے لوگوں سے زیادہ خود بنکنگ کی دنیا میں جینے والوں کو ہے۔ اسی لئے انٹرسٹ فری بنکنگ ونڈو اور بنکنگ کورس بڑے مغربی بنکوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہاں یہ بات حقیقت  ہے کہ ایک مکمل اسلامی نظام کے اندر ہی اسلام کا غیر سودی بنکنگ نظام مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن جس طرح آپ کسی کرپٹ آدمی کے نماز پڑھنے پر فعل نماز سے بے زاری ظاہر نہیں کرسکتے اسی طرح کرپشن یا ناکامی کی وجہ سے غیر سودی معیشت کی نفی کرکے سود کو حلال کرنے پر بھی زور نہیں دے سکتے۔
تقریباً یہی منفی اور تھکا ماندہ رویہ اب حجاب کے معاملے میں بھی برتا جارہا ہے۔ حجاب کو آپشنل بتایا جارہا ہے ستر کو ایسینشل بتایا جارہا ہے اور قرآن کی اصطلاح “جلباب” پر پردہ ڈالا جارہا ہے کیونکہ آج  کی خدا مخالف تہذیب کے ناخدا  مسلم خواتین کی نقاب و حجاب کو پسند نہیں کررہے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ دین کو اپنانا یا نہ اپنانا آپشنل ہے یہ آپشن آج سب کے لئے کھلا ہوا ہے جس کے لئے بھی دین کی مسلمہ اور متواتر قدریں نا گوار خاطر ہیں وہ اس آزادی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے
مدرسوں اور مولویوں کی تنگ نظری و تنگ دامانی پر موصوف کا تبصرہ بجا ہے، اسی طرح عام مسلمانوں کی بے راہ روی اور فضول خرچی نیز واعظین اور مصلحین کی منافقانہ روش پر تنقید بھی بے جا نہیں ہے۔ لیکن ایک ہی غزل میں کچھ اچھے اور کچھ بوگس شعر ہوجانے کی وجہ سے غزل کا مزہ کرکرا ہو گیا ہے حالانکہ ایسے مشاعروں کے شوقینوں کی نظر میں موصوف نے یہ مشاعرہ لوٹ لیا ہے اور یہ غزل سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *