پاکستان: بیرونی سازش ثابت ہوئی تو مستعفیٰ ہو جاؤں گا ۔ ہندوستان سے تعلقات میں بہتری کا دارومدارمسئلہ کشمیر پر ہے۔ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف

اسلام آباد : پاکستان میں سیاسی رسہ کشی اور جمہوری عمل کا اختتام پیر کو پاکستان مسلم لیگ  ن کے لیڈر شہباز شریف کے وزیر اعظم چنے جانے کے ساتھ  ہوا۔  پاکستان کی قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آج نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں ووٹنگ کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ملک کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ شہباز شریف نے کُل 174 ووٹ حاصل کیے۔

شہباز شریف 174 ووٹوں کے ساتھ وزیراعظم منتخب پینل آف چیئر ایاز صادق نے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کارروائی دوبارہ شروع کی اور ووٹنگ کا عمل کرایا، جس کے نتیجے میں شہباز شریف 174 ووٹوں کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اعلان کیا کہ تحریک انصاف رہنما اور وزیراعظم کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔

ہندوستان کا ذکر

نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان کے ساتھ قیام پاکستان سے ہی ہمارے تعلقات بہتر نہ بن سکے لیکن آج میں کہنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف نے ہندوستان  سے امن کا ہاتھ بڑھایا تھا تو وہی نواز شریف تھا جس نے کشمیر کے حق خودارادیت کے لیے تقریر کی تھی۔ ہم ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ شہباز شریف نے نریندر مودی کو مشورہ دیا کہ دونوں جانب جو مسائل ہیں، کیوں ہم آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ آئیں کشمیر کا اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ حل کریں۔

شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرنے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ شہباز شریف کی تقریر کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری واپس سپیکر کی نشست پر آئے اور اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کر دیا۔ نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف عہدے کا حلف آج رات اٹھائیں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ  اگرغیر ملکی سازش کا الزام درست ثابت ہوا تو  عہدے سے استعفا دیدوں گا۔

شہباز شریف کا خطاب 

شہباز شریف نے کہا کہ ’قوم کے لیے آج ایک عظیم دن ہے، کہ اس ایوان نے ایک سیلیکٹڈ وزیراعظم کو آئین اور قانون کے ذریعے گھر کا راستہ دکھایا۔‘ منتخب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، جو پوری قوم کی کامیابی ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جانب سے ہمیشہ کے لیے نظریہ ضرورت کو دفن کیا گیا۔ ’جس روز فیصلہ دیا گیا اس دن کو یادگار دن تصور کرنا چاہیے۔ایک ہفتے سے ڈرامہ چل رہا تھا، اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا تھا کہ بیرونی سازش ہورہی ہے۔بیرونی سازش کے نام پر مسلسل جھوٹ بولا گیا۔ ’یہ کہتے ہیں خط سات مارچ کو آیا، ہماری ملاقاتیں اور فیصلے اس سے بہت پہلے ہو چکے تھے۔ 22 کروڑ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’میں بطور منتخب وزیراعظم کہتا ہوں کہ پارلیمان کی سکیورٹی کمیٹی کے ان کمیرہ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ دی جائے۔ان کے مطابق ’اس بریفنگ میں مسلح افواج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری خارجہ اور وہ سفیر شامل ہوں جنھوں نے خط لکھا اور اس کے بعد ان کی برسلز ٹرانسفر ہو گئی۔

شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں قطعاً نہیں کرنی چاہیے تاکہ پوری قوم کو پتا چلے، آج میں اپنی طرف سے اور بلا خوف تردید قائدین کی جانب سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر رتی برابر بھی ایسی بات سامنے آ جائے کہ ہمیں کسی بیرونی طاقت سے وسائل ملے یا ہم اس میں ملوث ہیں، تو آج میں ایک سکینڈ کے اندر مستعفی ہو کر گھر چلا جاوں گا۔

’سعودی عرب کی محبت، شفقت اور دوستی فراموش نہیں کر سکتے‘ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی محبت، شفقت اور دوستی کبھی فراموش کر سکتا۔ اس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے پچھلی حکومت کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر سعودی عرب کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 1998 میں پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کر کے انڈیا کے دانت کھٹے کیے تو پاکستان پر معاشی پابندیاں لگیں۔میں وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب میں تھا۔ اس وقت سعودی قیادت نے کہا، آپ مشکل میں ہیں، آپ فکر نہ کریں آپ کی تیل کی ضرورت ہم پورا سال پوری کریں گے۔‘ شہباز شریف نے پچھلی حکومت کے طرزعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ کے اس جملے کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم سعودی عرب کے بغیر بھی کشمیر کے معاملے پر بات کر سکتے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’ایسا اس ملک کے بارے میں کہا گیا، جہاں خانہ خدا ہے، روضہ رسول ہے، جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر سے اربوں مسلمان خدا کے حضور جھکنے کے لیے جاتے ہیں۔‘ ’ایسے سعودی عرب، جس نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا، کے بارے میں ایسی بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘ شہباز شریف کے مطابق ’ہم سعودی عرب کی فراخ دلانہ، شفقت، محبت، دوستی اور امداد کو زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم خادمین حرمین شرفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے مشکور ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے رہے۔

صدر عارف علوی چھٹیوں پر چلے گئے

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی خرابی صحت کی وجہ سے چھٹیوں پر چلے گئے ہیں۔ صدراتی ترجمان کے مطابق صدر نے بے چینی کی شکایت کی جس کے بعد ڈاکٹر نے ان کا مکمل معائنہ کیا اور انہیں چند دن آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر کے رخصت پر جانے کے بعد چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بن جائیں گے اور وہ نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سے حلف لیں گے۔

پارلیمانی تاریخ کا ایک غیرمعمولی اجلاس

اجلاس تقریباً سوا گھنٹے کی تاخیر  سے شروع ہوا ۔ پیر کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے بلائے گئے اس اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف جبکہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار شاہ محمود قریشی کے درمیان مقابلہ ہونا تھا، جو نہ ہو سکا کیونکہ پی ٹی آئی مستعفی ہوتے ہوئے تمام عمل کا بائیکاٹ کر گئی۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز قائم مقام سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ مریم نواز، حمزہ شہباز اور کیپٹن صفدر سمیت دیگر اہم شخصیات بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود ہیں۔ اس دوران ایوان میں گہماگہمی ہی نہیں کھسر پھسر بھی سنائی دے رہی تھی، جس میں اس وقت کچھ اضافہ دیکھنے کو ملا جب قائم مقام سپیکر نے مائیک وزرارت عظمیٰ کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو دیا۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر کا آغاز کیا تو ایسا لگا کہ یہ بھی تحریک عدم اعتماد والے اجلاس کی طرح خاصی طویل ہو گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا، ان کا اجلاس تقریباً 30 منٹ تک جاری رہا جس میں انہوں نے مبینہ دھمکی آمیز خط کا ذکر کیا اور کہا کہ آج کوئی جیت کہ بھی ہارے گا اور کوئی ہار کے بھی جیت گیا۔ ’آج قوم کے سامنے دو راستے ہیں، جن میں سے ایک کو اختیار کرنا ہے۔ ایک راستہ غلامی کا ہے اور دوسرا خودی کا ہے۔‘ انہوں نے حکومتی بینچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے۔

شاہ محمود قریشی نےکہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں قائد ایوان کے انتخاب میں حصہ لینا ایک ناجائز حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے، اس لیے ہم اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے، میں وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہوں، پارٹی کے فیصلے کے تحت ہم سب اسمبلی سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کررہے ہیں، اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلےگئے۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے بھی وزیراعظم کا انتخاب کرانے سے معذت کرلی، ان کا کہنا تھا کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں اس کارروائی کا حصہ بنوں، قاسم سوری نے بھی ایوان کی کارروائی ایاز صادق کے حوالے کرتے ہوئے اسپیکر کی نشست چھوڑ دی۔

شاہ محمود قریشی نے تقریر کا اختتام وزارت عظمیٰ کی امیدواری سے دستبرداری اور اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

اس کے ساتھ ہی ایوان میں نعرے بازی شروع ہو گئی اور پی ٹی آئی کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے۔ شاہ محمود قریشی کے اعلان کے فوراً بعد قائم مقام سپیکر قام سوری نے بھی یہ کہتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ وہ اس عمل کا حصہ بنیں۔ انہوں نے پینل آف چیئر کے رکن سردار ایاز صادق کو سپیکر کی نشست سنبھالنے کی دعوت دی اور اٹھ گئے۔

اس کے بعد کی کارروائی سردار ایاز صادق کی صدارت میں جاری رہی۔ ایاز صادق نے وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع کیا اور دو منٹ تک گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی رکن کسی وجہ سے ہال سے باہر نکلا ہے تو ان کو خبردار کیا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *