
پاکستان کےقومی اسمبلی اجلاس میں عمران خان کا خطاب اور خطے کی غیر یقینی صورتحال
دانش ریاض،معیشت،ممبئی
عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کے بعد بھلے ہی عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے لیکن قومی اسمبلی اجلاس سے ان کا آخری خطاب لاجواب رہا ہے۔تقریر کے معاملے میں مجھے مریم نواز کا لب و لہجہ ،انداز اور الفاظ کو برتنے کا سلیقہ زیادہ پسند ہے لیکن عمران خان کی برجستہ تقریر نے لاکھوں شائقین کو ان کا گرویدہ بنادیا ہےجو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔وسط ایشیا کے ساتھ بر صغیر اور اس کے ہمسایہ ممالک جن مسائل سے جوجھ رہے ہیں اس میں معاشی مندی سر فہرست ہے۔معاشی مندی کی وجہ سے ہی سیاسی اتھل پتھل کا سلسلہ چل رہا ہے۔سر ی لنکامیں جو صورتحال ہے کم و بیش پاکستان بھی اسی کا شکار ہے۔ہندوستان کی حالت بھی تقریباً ویسی ہی ہے لیکن فرقہ وارانہ منافرت نے تھوڑے وقتوں کے لئے اس پر پردہ ڈالے رکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر خطے کی تمام حکومتیں غیر مستحکم کیوں ہوتی جارہی ہیں اور اس پورے خطے میں غیر یقینی صورتحال کیوں پیدا کی جارہی ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب محض پاکستان کے تناظر میں جاننا ہو تو عمران خان کی تقریر کے بیانیے کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ممکن ہے کہ عمران خان کی جذباتی تقریر کو کچھ لوگ محض ایک ڈرامہ قرار دیں لیکن عمران خان نے جس کرب کا اظہار کیا ہے اسے محض ڈرامے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔معاشی طور پر چین کی بالادستی خطے نے قبول کرلی ہے ۔چین کے مالی امداد سے پاکستان،بنگلہ دیش،سری لنکا اور افغانستان مستفید ہورہا ہے ۔ہندوستان کے بازاروں پر چین کا قبضہ برقرار ہے لہذا امریکہ کی پیٹھ کا سہارا لے کر صیہونی مقتدرہ اس جنگ کوحتمی شکل دینے کی کوشش کررہا ہے جس کی پلاننگ بہت پہلے کی جاچکی ہے۔
دنیا جس طرح خیموں میں بٹتی جارہی ہے اور عظیم جنگ کے حوالے سے جس طرح کی باتیں گردش کررہی ہیں وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ حالات مزید سنگین ہونے والے ہیں۔یوں تو پورا خطہ صیہونی مقتدرہ کے زیر اثر ہے لیکن پھر بھی صیہون مخالف طاقتیں آخری جنگ لڑنا چاہتی ہیںتاکہ وہ اپنی برتری ثابت کرسکیں۔ہندوستان کی موجودہ صورتحال جو بظاہر پرسکون دکھائی دے رہی ہے جلد یا بدیر یہاں بھی سیاسی گھماسان ہونے والا ہےاور ممکن ہے کہ پورے خطے کا مرکزی کردار بھی ہندوستان ہی ادا کرے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال ؒ کا حوالہ دیتے ہوئے جس نظریاتی کشمکش کا تذکرہ کیا ہے مسلمان پوری دنیا میں اسی کشمکش کا شکار ہیں۔مغرب کی شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نظریاتی طور پر مسلمانوں کو ختم کردے اورمحض جسم و جان باقی رکھے۔اس دور میں بھی ریاست مدینہ کی بات کرنا یقیناً ایمان کو تازہ کرنا ہے ۔پاکستان میں مولانا فضل الرحمن جیسے لوگ ریاست مدینہ کے مخالف اس لئے رہے ہیں کہ انہیں خبر ہے کہ جیسے ہی اسلام اپنی بنیادوں کے ساتھ آئے گا ان کی بھی اپنی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی چہ جائے کہ لبرل و سیکولر کو جگہ ملے۔
عمران خان نے تقریر میں امریکی سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان ایجنٹوں کو بے نقاب کیا ہے جو مملکت خداداد کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں بلکہ اس صورتحال سے بھی واقف کرایا ہے جس کا آئندہ دنوں سامنا ہے۔مجھے اس وقت وشو ہندو پریشد کےاسلام دشمن لیڈر اشوک سنگھل کا وہ بیان یاد آرہا ہے جو انہوں نے آنجہانی ہونے سے قبل رانچی میں دیا تھاجسے روزنامہ ہندوستان(ہندی)رانچی ایڈیشن نے اپنے صفحہ اول پر دو کالمی خبر کی شکل میں شائع کیا تھا۔انہوں نےمسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عنقریب پاکستان کا وجود ختم ہوجائے گا،جس وقت پاکستان کا خاتمہ ہوگا تو ہندوستان میں بھی افراتفری مچے گی لہذا ہندوئوں کو چاہئے کہ وہ ایسے وقت کے لئے بھرپور تیاری کرلیں ‘‘۔
پاکستان کے حالیہ سیاسی واقعات پر ہندوستانی میڈیا نے جس طرح پل پل کی رپورٹنگ کی ہے اور اپنی گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ واقعات کو خاص سمت عطا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔عالمی اداروں میں امریکی خبر رساں اداروں کے ساتھ بی بی سی نے جس طرح کی بے بنیاد رپورٹنگ کی ہے اس پر پاکستانی اہلکاروں نے بھی اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بی بی سی بے بنیاد خبروں کی تشہیرکررہا ہے۔عالمی ایجنسیاں ،خبر رساں ادارے،خطے کی وہ طاقتیں جو مختلف مفادات کا تحفظ کرتی ہیں،تمام کی تمام اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ پاکستان میں کسی طرح افراتفری کا ماحول گرم رہے اور خطے میں غیر یقینی صورتحال کی کیفیت طاری رہے ۔دراصل یہی وہ غیر یقینی صورتحال ہے جو صیہونی مقتدرہ کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔
عمران خان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے بیک وقت چین سے دوستی بھی کررکھی تھی اورامریکی استبداد سے بھی لوہا لے رکھا تھا۔وہ اس غیر یقینی صورتحال کو سنبھالے ہوئے تھے جس کی توقع افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ساتھ لوگ کررہے تھے۔ عالمی ایجنسیاں اس خوش فہمی میں مبتلا تھیں کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ساتھ جہاں ایران وپاکستان کے سرحدی علاقوں میں افراتفری کا ماحول قائم ہوگا بلکہ خود اسلام آباد گھٹنوں پر آجائے گا اور پاکستان سمیت پورے خطے میں غیر یقینی صورتحال قائم ہوجائے گی ۔لیکن کمال ہوشیاری سے عمران خان نے جہاں مسلم ممالک کو مربوط رکھا وہیں افغانستان کو اس بات کا یقین دلایا کہ اسلام آباد کابل کے پابہ رکاب ہے اور مشکل حالات میں ان کا معین و مددگار ثابت ہوگا لہذا بلوچستان میں تمام طرح کی شر انگیزیوں کے باوجود ویسی کیفیت پیدا نہیں ہوئی جیسی صیہونی مقتدرہ چاہتا تھا۔اب جبکہ سازشیں بے نقاب ہوتی جارہی ہیں اور پورا خطہ غیر یقینی صورتحال کی طرف تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرتا جارہا ہے۔بس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہي انداز ہے
مشرق و مغرب ميں تيرے دور کا آغاز ہے