آسام:مسلمانوں میں تیزی سے کم ہورہی ہےشرح پیدائش

دولت رحمان/ گوہاٹی

صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ذریعہ کئے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، ہندوستان میں تمام مذہبی برادریوں کے اندر مسلمانوں کی شرح پیدائش پچھلی دو دہائیوں میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ جموں و کشمیر کے بعد دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والے آسام میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی ہے۔

پچھلے سالوں میں دیکھے گئے گرتے ہوئے رجحان کے مطابق، کمیونٹی کی زرخیزی(فرٹیلیٹی) کی شرح 16-2015 میں 2.8 سے کم ہو کر 2019-2021 میں 2.3 ہو گئی ہے۔ تمام مذہبی برادریوں کی شرح پیدائش میں کمی کے باعث ملک کی مجموعی شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

آسام میں مسلمانوں کی شرح پیدائش 2008 سے تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آسام میں مسلمانوں میں فی عورت بچوں کی کل شرح پیدائش (ٹی ایف آر) یا بچوں کی تعداد 2.4 ہے، جو کہ ہندوؤں میں 1.8 اور عیسائیوں میں 1.5 سے زیادہ ہے۔ یقیناً مسلمانوں میں شرح پیدائش 2005-06 میں 3.8 سے کم ہوکر 2019-20 میں 2.4 ہوگئی ہے۔

دوسری جانب ہندوؤں کو 0.4 فیصد کا نقصان ہوا ہے۔ٹی ایف آرای 2.2 ہندوستان میں طے شدہ ہے۔ یہ اعداد و شمار آسام کی مسلم آبادی میں خطرناک حد تک اضافے کے مروجہ تاثر کے بالکل برعکس ہے۔

ایک عام تاثر اور خدشہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ریاست کی اکثریتی برادری کو ایک وقت میں اقلیت بنا دے گی۔

معروف سرجن پدم شری ڈاکٹر الیاس علی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم پھیلانا، خواتین کو بااختیار بنانا، صحت کی سہولیات کی ترقی، بچے کی پیدائش کے معاملے پر عوامی بیداری مہم جیسے بہت سے مثبت پہلو ہیں۔

ڈاکٹر علی، جو آسام کی آبادی کی پالیسی کے پیچھے ہیں، کہتے ہیں کہ ریاست کے مسلمانوں میں آبادی کو مزید کم کرنے کے لیے کافی کام کرنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کے نفاذ کی مسلسل کوشش ہونی چاہئے اور حکومت بدلنے کے بعد بھی یہ پالیسی تبدیل نہیں ہونی چاہئے۔ ”

کم عمری کی شادی، آبادی میں تیزی سے اضافے کا سب سے اہم عنصر ہے اور نوجوان مسلم خواتین میں کم عمری کی شادی کی شرح 26.7% ہے اور مردوں میں یہ شرح 18% ہے۔ ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے والی خواتین کی شرح پیدائش 2.27 ہے۔”

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہائرسکنڈری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین میں شرح پیدائش بہت کم ہے اور یہ صرف 1.56 ہے۔ ڈاکٹر علی کا کہنا ہے کہ تعلیم اور سماجی شعور کے پھیلاؤ کی وجہ سے کم عمری میں شادی کی شرح میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ خواتین کے تعلیمی ادارے ترجیحی بنیادوں پر قائم کیے جائیں۔

خواتین اور لڑکیوں کو سماجی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے خصوصی اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر علی کہتے ہیں، “ایک پڑھی لکھی لڑکی یا عورت ہی خاندانی معاملات میں حصہ لے سکتی ہے اور اپنی تولیدی صحت کی قدر کر سکتی ہے، اس بارے میں صحیح فیصلے کر سکتی ہے کہ وہ کب شادی کرنا چاہتی ہے اور اس کے کتنے بچے ہونے چاہئیں۔”

ڈاکٹر علی نے تجویز دی کہ حکومت کی خاندانی منصوبہ بندی کی شاخوں کو جنوبی شلمارہ اور مانکاچار، دھوبری، گولپاڑہ، بنگی گاؤں، نلباری، گولاگھاٹ اور ناگاؤں میں مزید فعال بنایا جائے۔ انہوں نے تھلوا مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی خصوصی مہم کا بھی مشورہ دیا ہے۔

ڈاکٹر علی کے مطابق مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں میں جدید مانع حمل ادویات کا استعمال نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-4 میں 37.9 فیصد سے بڑھ کر نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 میں 47.4 فیصد ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس ترقی کا فرق ہندوؤں سے زیادہ تھا۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق مسلمان بتدریج جدید مانع حمل طریقوں کو اپنا رہے ہیں۔ یہ تعداد نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-4 میں 16 فیصد سے بڑھ کر نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 میں 25.5 فیصد ہو گئی ہے۔

یہ شرح سکھوں (26.3 فیصد) اور جین (26.3 فیصد) کے درمیان تیسرے نمبر پر ہے۔ مسلم مردوں کی ایک بڑی تعداد نے خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مثبت رویہ ظاہر کیا ہے۔ تقریباً 32% مسلمان مرد سمجھتے ہیں کہ مانع حمل خواتین کی ذمہ داری ہے، جس کے بارے میں مردوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

ہندوؤں کے لیے یہ تعداد زیادہ ہے یعنی تقریباً 36 فیصد۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق مانع حمل گولیاں مسلمانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔

دوسری طرف، کنڈوم کا استعمال سکھوں اور جینوں کے بعد مسلمانوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ لہٰذا خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے کمیونٹی کی اس مثبت آگہی کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور سب کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کسی بھی طرح خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *