مضمون نگار : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
رانچی میں مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرہ کے دوران مدثر کی گولی لگنے سے شہادت کے پس پردہ حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے سیاسی حالات ایک نئی کروٹ لے سکتے ہیں۔ جھارکھنڈ کے چیف منسٹر ہیمنت سورین اور ان کی حکومت کے خلاف یہ یوگی کے بھگت بھیرون کی سازش تھی۔ ہیمنت سورین سے بی جے پی کو زبردست زک پہنچی تھی۔ بھیرون نے ایک مندر کی چھت پر سے یہ گولی چلائی تھی اور پرامن احتجاجی مظاہرین پر وہیں سے پتھراو کی شروعات ہوئی تھی۔ اسی کے بعد سے احتجاج پر تشدد ہوگیا۔ پہلے پولیس فائرنگ میں مدثر کی شہادت کا شبہ تھا، مگر جو ویڈیو کلپس منظر عام پر آئیں ہیں، جنھیں لائیو نیوز، آن لائن نیوز جیسے یوٹیوب چینلس نے پیش کیا ہے۔اسی کے بعد جھارکھنڈ پولیس نے احتجاجی مظاہرین کی تصاویر کے پوسٹرس عام مقامات اور چوراہوں پر لگائے تھے اسے نکال دیئے۔ جس پر فرقہ پرست عناصر واویلہ کررہے ہیں۔ بھیرون نے کس کے کہنے پر یہ کام کیا؟ کیا اسے گرفتار کیا جائے گا؟ کیا اس کے گھر پر بھی بلڈوزر چلایا جائے گا؟ ان سوالات کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ جب تمام فسادات کی جڑھ نوپور شرما کو گرفتار کرنے کے بجائے اسے زیڈ پلس سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے تو یوگی کے خاص بھگت کے خلاف کاراوئی کیسے ہوسکتی ہے؟ نوپور اور جندال کی وجہ سے ساری دنیا میں ہندوستان کی ساکھ متاثر ہوگئی ہے۔ مسلم ممالک ناراض ہیں، ان ممالک میں مقیم نوے لاکھ ہندوستانیوں کا مستقبل خطرہ میں ہے۔ مغربی ممالک نے بھی خبردار کیا ہے۔ روس اور چین کا لہجہ بدل گیا ہے۔ اس بدزبان عورت کی لغزش زبان نے القاعدہ اور طالبان کو تک ہندوستان کو خبر دار کرنے کا موقع دیا ہے۔ دکھاوے کے لیے ان دو نالائقوں کو اگر چہ کہ بی جے پی نے معطل کیا ہے مگر جو کاروائی کی جانی چاہیے اس سے گریز کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم مودی ہمیشہ کی طرح خاموش ہیں۔ان کی خاموشی میں بہت سارے پیغام ہیں۔ مگر مسلم دشمنی، مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں نے یہی پیغام ساری دنیا کو دیا ہے کہ ایک عظیم جمہوری ملک میں جو اپنی مثال آپ رہا ہے، محض اقتدار حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ کیا جارہا ہے، اس سے ہندوستان کی عظمت اور وقار پامال ہوگا، بلکہ ہوچکا ہے۔ راجیو گاندھی نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے نسل حرام رشدی کی کتاب پر ہندوستان میں پابندی عائد کردی تھی اور مودی کے دور حکومت مسلمانوں کو مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے بار بار کوشش کی جارہی ہیں اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام کی بات کرنے والوں، انھیں گولی مانے کی دھمکی دینے والوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور اپنے دستوری حق کے لیے آواز اٹھانے والے برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ وقتی طور پر ایک طبقہ کو خوش کر کے وہ کچھ عرصہ کے لیے گدی نشین برقرار رہ سکتے ہیں مگر اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ اقتدار ہو یا زندگی یا صحت یہ دائمی نہیں ہے۔ ایک نہ ایک دن ان کا خاتمہ ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں وہ ہمیشہ یا د رکھے جائیں مگر کیسے؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مودی کے مقام اور اقتدار کو اگر کوئی چیلنچ کرسکتا ہے تو وہ یوگی ہے۔ اسی لیے یوگی کو یوپی کا سنگھاسن سونپ دیا گیا تھا تا کہ وہ ایک ریاست میں مگن رہے۔ یوگی کی اگلی منزل وزیراعظم کا عہدہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس عہدے تک پہنچنے کے لیے انھیں مسلم دشمنی کی آخری حدوں کو پار کرنا ہوگا۔ ان کے بلڈوزرس چلانے کی وجہ سے ان کے اندھے بھگت تو تالیاں بجارہے ہیں۔ خوشیاں منا رہے ہیں مگر ساری دنیا دیکھ رہی ہے سمجھ رہی ہے کہ یوگی مسلمانوں کے گھروں پر ان کی عمارتوں پر نہیں بلکہ اس ملک کے دستور اس کے سیکولر کردار، مسلم ممالک سے دوستی اور ان سے خوشگوار رشتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کررہے ہیں۔ انھیں یقینی طور پر کسی ماہر نفسیات سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے۔ آفرین فاطمہ سے جس طرح سے انتقام لیا گیا، جس طرح سے آفرین کے والد کے عالیشان مکان کو زمین دوز کردیا گیا، اس سے وقتی طور پر اس خاندان کو نقصان ہو ا اور ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا، یہ اور بات ہے کہ ساری دنیا آفرین فاطمہ اور جاوید کے ساتھ آکھڑی ہوئی ہے۔ ایک نوجوان لڑکی کے سامنے یوگی ذہنی طور پر روگی ثابت ہوئے اور ان کا قد بہت کم نظر آنے لگا۔ آفرین فاطمہ ہو یا کوئی اور مظلوم اب وہ اکیلے نہیں رہے اور الحمداللہ حب نبی ﷺ نے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو مسلکی حدود و قیود سے آزاد کرکے ایک کردیا۔ بریلوی خانوادہ کے چشم و چراغ مولانا توقیر رضا خان‘ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی دو الگ الگ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی آواز پر جئے پور میں 20لاکھ مسلمان کربلا میدان میں جمع ہوگئے۔ یہ پورے ہندوستان میں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مسلمان چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، خاتم النبین ﷺ کی محبت میں اپنے آپ کو قربان کرسکتا ہے۔
حیدرآباد میں بھی تحریک مسلم شبان نے رحمۃ للعلمین ملین مارچ کا اعلان کیا تھا تاہم پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اگر اجازت ملتی تو یقینی طور پر یہ ملین مارچ تاریخ ساز ہوتا کیونکہ اس سے پہلے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک مسلم شبان کے ملین مارچ نے شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔وہ تو شہریت کا معاملہ تھا‘ یہ تو حب نبی ﷺ کا معاملہ ہے۔ پورا حیدرآباد ہی نہیں بلکہ قریبی اضلاع و ریاستوں مہارشٹرا و کرناٹک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے اور ملین مارچ کا پیغام یہی ہوتا کہ حیدرآباد کے مسلمان جئے پور کے مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے مسلمانوں کی دل آزاری پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تلنگانہ حکومت چاہتی ہے کہ یہاں ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ بی جے پی اس کا فائدہ اٹھا سکے۔ بی جے پی کا ایک ایم ایل اے مسلسل زہر اگل رہا ہے۔ اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے حکومت تلنگانہ آگے کا سوچ کر اس کے خلاف کاروائی سے گریز کررہی ہے کیونکہ اس وقت بی جے پی کی نظر تلنگانہ پر ہے۔ کے سی آر اور نریندر مودی کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ بی جے پی قائدین مسلسل مسلمانوں کے مذہب اور زبان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ مودی‘ امیت شاہ‘ کسی نہ کسی بہانے سے اس ریاست کا دورہ کررہے ہیں اور اگلے الیکشن میں وہ تلنگانہ میں اقتدار چاہتے ہیں۔ اگر اس وقت اس ایم ایل اے کو گرفتار کیا جاتاہے تو اس کی اور پارٹی کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور ٹی آر ایس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔حیدرآباد میں نوجوانوں نے پر امن احتجاج کیا۔ گرفتاریاں کی گئیں۔ کے سی آر کے بارے میں ابھی تک یہ تاثر ہے کہ وہ مسلم دوست ہیں۔ اگر چہ کہ آلیر انکاؤنٹر کی تحقیقات میں تاخیر ہورہی ہے پھر بھی ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے گرفتار کئے گئے نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج نہ کروائیں۔
مسلم نوجوان اس وقت حب نبوی ﷺ کے جذبہ سے سرشار ہیں‘ اسی جذبے نے احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو آنسو گیس اور فائرنگ کرنے والے بے حس خاک کی وردی والوں کے خوف سے بے نیاز کردیا ہے۔ مدثر کی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو دینے کے بعد اپنی چھاتی ٹھوک کر یہ کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹااپنے نبی ﷺکی محبت میں شہید ہوگیا۔ سہارنپور کے پولیس ٹھانے میں نواجونوں نے کیا ظلم نہیں سہا ہے؟ بے رحمی کے ساتھ انھیں جس طرح سے مارا گیا، انھیں دیکھنے کے بعد کسی بھی باشعور انسان کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کیا پولیس کو ایسے ہی تربیت دی گئی ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کو جسمانی طور پر معذور کردیں۔ یوپی پولیس ہر دور میں ایسی ہی رہی ہے۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، خاکی وردی کے اندر دل نہیں پتھر ہوں گے۔ اگرچہ پتھر بھی خوف خدا سے پگل کر چشمے اگلتے ہیں مگر یو پی پولیس کا ہر دور میں مسلم دشمنی کا ریکارڈ رہا ہے۔ چاہے وہ ہاشم آباد‘ ملیانہ کے واقعات ہوں یا مرادآباد کی عیدگاہ میں نمازیوں پر فائرنگ کرکے 300 سے زائد مسلمانوں کی شہادت کا واقعہ کیوں نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خاکی وردی کا اثر ہے یا پھر جو لوگ اس شعبہ سے وابستہ ہوتے ہیں ان کا دل ہی پتھر جیسا بن جاتا ہے۔ ورنہ تلنگانہ آلیر انکاؤنٹر‘ دِشا معاملہ کے ملزمین کو رات کی تاریکی میں گولیوں سے بھونا نہیں جاتا۔این ڈی ٹی وی نے سہارنپور‘ تھانے میں پولیس بربریت کی ویڈیو کو پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ دکھلایا کہ کس طرح سے مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ کیا یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ان پولیس والوں کی اپنی اولاد نہیں ہے۔ کیا انہیں اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ جو ظلم وہ دوسروں پر ڈھارہے ہیں کل ان کے اپنے بچے اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد تو کئی سابق ججس نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ ویسے بھی سپریم کورٹ کے سابق ججس نے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے چیف جسٹس کو لکھا ہے کہ یوگی حکومت نے بلڈوزر کاروائی کے ذریعہ قانون اور دستور کی خلاف ورزی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے طور پر کوئی اقدام کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے حالیہ اقدامات اور بیانات سے بڑی اچھی مثال قائم کی ہے اور عدلیہ کے متزلزل معیار اور اس پر عوامی اعتمادل بحال کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔
حالیہ افسوس ناک اور ناقابل برداشت واقعات نے کم از کم علماء کرام کو خواب بھی ایک پلیٹ فارم پر آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بروقت یہ اپیل قابل قدر ہے کہ مسلم حضرات ٹی وی چینلس کے مباحث میں حصہ نہ لیں۔اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بیرسٹر اسد اویسی اور تسلیم رحمانی سے ہٹ کر بیشتر نام نہاد‘ کچے پکے مولانا قسم کے لوگ دراصل بہروپئے ہوتے ہیں جنہیں نہ تو اسلامی تعلیمات سے پوری طرح سے واقفیت ہے نہ ہی وہ ہندوستانی دستور اور قانون سے واقف ہیں۔ خزاب لگی داڑھی اور ترچھی ٹوپی پہن کر بغیر کسی تیاری کے ٹی وی چینلس کے مباحث میں شریک ہوتے ہیں اور خاتون اینکرس کی جھڑکیاں ایسے ہی برداشت کرتے ہیں جیسے کوئی ضعیف بگڑا ہوا نواب کسی کوٹھے پر کسی نوجوان طوائف کی ناز و ادا پرخوش ہورہا ہو۔ لعنت ہے ان بہروپیوں پرچاہے ان کا تعلق کسی جماعت سے کیوں نہ ہو! ویسے بھی ٹی وی چینلس کوجوکر قسم کے مسلم نام کے بہروپئے چاہئے جن سے مقابلے کے لئے وہ دوسری قوم کے قابل ترین افراد کو میدان میں اتارتے ہیں۔ ٹی وی اینکراصل سزا کا مستحق ہے۔ برسر اقتدار جماعت کی جوتیاں اٹھانے والے یہ اینکرس چاہے وہ مرد ہوں یا عورت‘ یہ فساد کی جڑ ہیں۔ ان کے خلاف جگہ جگہ مقدمے دائر کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی وی چینلس نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لئے مسلم نام کے اینکرس کا استعمال کیا ہے حالانکہ ان کا کسی مذہب سے تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ثبوت ہر دور میں مسلمانان عالم نے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وقفہ وقفہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کبھی فرانس میں اہانت آمیز کارٹونس بنائے جاتے ہیں‘ کبھی جرمنی میں قرآن پاک کی توہین کی جاتی ہے‘ کبھی ہمارے ملک میں سماج سے دھتکارے گئے لوگ اپنے آپ کو سنیاسی ظاہر کرکے عوامی مقبولیت اور ذہنی مریض طبقہ سے دولت حاصل کرنے کے لئے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم سال کے بارہ مہینے مدافعت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے جذبات‘ غم و غصہ کو دنیا دہشت گردی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جوش کے ساتھ ہوش کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں لوگوں کا اجتماع حضور ﷺ کی محبت میں معمولی بات ہے۔ اس اجتماع میں امن و سلامتی کی برقراری زیادہ اہم ہے۔ جلوس یا ریالی میں شریک ہونے والوں کی تعداد اہم نہیں ہے‘ انہیں کنٹرول میں رکھنا زیادہ اہم ہے۔ نعرے لگانے والوں سے زیادہ اس بھیڑ میں شامل ہوکرسبوتاج کرنے والے دشمن کے ایجنٹس پر نظر رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ جلسہ ہو یا جلوس یا کوئی کانفرنس یا سمیناراس میں کسی قسم کا سبوتاج نہ ہو‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ٹرینڈ والنٹیرس کی ضرورت ہے۔ جس کی ہمارے پاس کمی ہے۔ اس حقیقت سے ہم نظر نہیں چرا سکتے کہ ہم اپنے سب سے محبوب ترین ہستی کی سیرت سے دوسروں کو واقف کرانا تو درکنار خود اپنی نئی نسل کو واقف کروانے میں ناکام ہیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی سیرت مبارکہ کو صحیح طور پر نہ صرف اپنے برادران وطن بلکہ عالمی برادری میں صحیح انداز میں پیش کرسکیں تو آج جو نفرت کا ماحول ہے اس میں کسی نہ کسی حد تک تبدیلی آسکتی ہے۔ یہود و نصاریٰ ہوں یا کوئی اور وہ قیامت تک ہمارے دوست نہیں ہوسکتے مگر یہ ضروری نہیں کہ جو دوست نہیں وہ دشمن ہی ہو۔ اپنے اخلاق‘ کردار سے کم از کم ان کے تعصب کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ اقتدار کی راہ داریوں میں اعلیٰ عہدوں اور منصب پر ہماری نمائندگی کرنے والے جو ہوتے ہیں‘ وہی ہماری رسوائی کا سامان بنتے ہیں۔ چونکہ عہدوں کے لئے تو وہ ہر دہلیز پر سر جھکاتے ہیں اور خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے اپنی ہی قوم کی برائی کیا کرتے ہیں۔ ان دنوں برسر اقتدار جماعت کی جانب سے صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لئے ایسے دو سیاسی قائدین کے نام پر غور کیا جارہا ہے جنہیں بدقسمتی سے کسی بھی طرح سے مسلمان کہا ہی نہیں جاسکتا۔ مسلمان تو توحید پرست ہوتا ہے۔ عہدوں کے لئے بت پرستی کرنے والے مسلمانوں کی نمائندگی کیسے کرسکتا ہے۔ مگر کیا کریں؟ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب کسی قوم کے اخلاق و کردار زوال پذیر ہوتے ہیں تو اس پر ایسے ہی لوگوں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔