
بھارت کے مسلمانوں کے سامنے دو راستے ہیں بی جے پی یا لیفٹ۔
مشرف شمسی
ملک میں موجودہ سیاسی حالات میں مسلمانوں کے سامنے در پیش مسائل سے اُردو اخبارات کے صحافی اور دانشور مضطرب ہیں لیکن کسی بھی دانشور اور صحافی کے پاس موجودہ صورتحال میں مسلمان کیا کرے اس لائحہ عمل کیا ہو اس پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے ۔مسلم صحافی اور دانشور حالات کا صحیح صحیح مشاہدہ کریں تو مسلمانوں کے لیے موجودہ سیاسی حالات مشکل ضرور ہے لیکن اس حالات میں مسلمانوں کے پاس راستے کیا بچ جاتے ہیں یہ صاف نظر آ رہے ہیں ۔
ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کی حکمت عملی 2014 کے بعد کو سمجھیں تو اس سیاسی جماعت کے ذریعے اٹھائے گئے سبھی طرح کے اقدامات کا مقصد چناؤ میں فائدہ اٹھانا ہے ۔بی جے پی ملک کے غریبوں کو راشن تقسیم کرتی ہے جہاں اُسکا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا ہے تو دوسری جانب موب لينچنگ کرنے والوں کے ساتھ بی جے پی کے رہنماء نظر آتے ہیں اور اُنکے حق میں بیان دیتے ہیں تو وہ بھی چناوی حکمت عملی کا ہی حصہ ہے ۔اتنا ہی نہیں جمّوں کشمیر کا معاملہ ہو یا پھر حجاب کا معاملہ ہو یا پھر سرجیل امام ، عمر خالد اور کیرل کے صحافی صدیق کو ضمانت نہیں دیے جانے کا معاملہ ہو سبھی معاملے میں ملک کی موجودہ سرکار اپنے ووٹرز جو اکثریت ہندوؤں کی ہے اُنھیں سندیش دیتی ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ایک نہیں چلنے دی جا رہی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست کر کے بی جے پی کو آسانی سے ووٹ حاصل ہو رہا ہے ۔موجودہ بی جے پی قیادت کے لئے حکومت بنانا سب سے اہم ترین کام رہ گیا ہے۔ چاہے حکومت کیسے بھی آئے ۔حزب اختلاف کے منتخب نمائندے کو ای ڈی اور سی بی آئی بھیج کر اُنھیں پریشان کیا جاتا ہے اور پھر اُن نمائندوں کو اپنے پالے میں لا کر اکثریت حاصل کی جاتی ہے ۔غرض کہ ووٹ اور حکومت حاصل کرنے کے لئے موجودہ حکمراں جماعت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔اس معاملے میں یعنی جو بھی جماعتیں یا سماج بی جے پی کو حکومت تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہیں تو ان جماعتوں اور سماج کے خلاف بی جے پی جارحانہ رویہ اختیار کر لیتی ہے ۔ملک کے حالات کو اس نظریے سے مشاہدہ کریں تو مسلمانوں کا بی جے پی اگر نمبر ون دشمن نظر آتی ہے تو بی جے پی کو حکومت تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی بنتے ہیں ۔چونکہ مسلمانوں کی پورا کا پورا ووٹ بی جے پی کے خلاف جاتا رہا ہے اور مسلمانوں کے ووٹوں کے خسارے کو منٹین کرنے کے لئے بی جے پی کو کافی مشقت کرنی پڑتی ہے اس لیے بھی مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹارگیٹ کیا جاتا ہے ۔
آخر مسلمانوں کے سامنے اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کے لئے راستہ کیا رہ جاتا ہے ۔آج کے سیاسی ماحول میں مسلمانوں کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں ۔پہلا راستہ ہے کہ بی جے پی رہنماؤں کی مسلم مخالف بیان بازی کے باوجود مسلمان اپنے محلے میں اُنھیں خوش آمدید کہیں اور اُنھیں ووٹ دیں۔یقین مانئے جس دن مسلمان بی جے پی کو ووٹ دینا شروع کر دیا اس دن بی جے پی رہنماؤں کے بول مسلمانوں کے تئیں بدل جائیں گے ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح سے حزب اختلاف کے ایم ایل اے کے خلاف جانچ اسی وقت تک چلتی ہے جب تک وہ ایم ایل اے بی جے پی کے پالے میں نہیں آ جاتے ہیں ۔اس ملک کے مسلمان یہ سمجھ لیں بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی مسلمانوں کے تئیں نہیں بدل سکتی ہے ۔کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو وقت وقت پر یہ عندیہ دیتے رہنا ہے کہ وہ مسلمان مخالف ہے تبھی ہندوؤں کی اکثریت خاصکر اونچی ذات کے ووٹ اُنکے ساتھ بنا رہے گا ۔ویسے بھی مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود بی جے پی جو چاہ رہی ہے مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے ۔ اکثریت مسلمان اگر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو بھی وہ اپنے ایجنڈے پر کام کرتی رہے گی ۔ہاں آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیان بازی میں کمی آئےگی۔یہ ٹھیک اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح سے مسلمانوں نے شیوسینا کو اچھوت سمجھنا چھوڑ دیا تو شیوسینا بھی مسلم معاملے میں حملہ آور ہونا ترک کر دیا ۔
مسلمانوں کے سامنے دوسرا راستہ سنگھرش یا جدّو جہد کا ہے۔اس ملک میں مسلمان اپنی سیاسی بقاء حاصل کرنے کے لئے کسی مسلم پارٹی کو مضبوط کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی علاقائی جماعتوں یا کانگریس کی حمایت کر کے مسلمان اپنے لیئے حق و انصاف حاصل کر سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ علاقائی جماعتیں یا کانگریس صرف اور صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھتی رہی ہیں لیکن مسلمانوں کے اصولاً موضوع پر بھی ان سیکولر پارٹیوں کے رہنماء خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔پھر کہیں بدقسمتی سے فساد ہو جاتا ہے تو ان سیکولر پارٹیوں کے کارکن ہندو ہندو ہو جاتے ہیں اور مسلمان مسلمان۔
ایسے میں صرف بائیں بازو کی جماعتیں ہیں جن جماعتوں کے ہندو اور مسلمان کارکن فساد میں بھی صرف انسان بن کر فساد روکنے کا کام کرتے ہیں ۔لیفٹ پارٹیاں اصولی سیاست کرتی ہیں ۔اقلیتوں اور غریبوں کے حق میں آواز اٹھاتی رہی ہیں ۔آج بھی موجودہ تانا شاہی سرکار سے زمین پر لیفٹ کے لوگ ہی لڑ رہے ہیں ۔مسلمان یا کسی بھی اقلیت کے حق میں لیفٹ ہی کھڑا ہو رہا ہے ۔دلّی فساد میں جس طرح لیفٹ کی رہنما برندا کرات بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہو گئی وہ صرف لیفٹ کے لوگ ہی کر سکتے ہیں ۔لیفٹ چونکہ اصولی سیاست کرتی ہے ووٹ بینک کی سیاست نہیں کرتی ہے اسلئے جب اقلیت کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں تو اُسکی بھی مخالفت لیفٹ کرتی ہے ۔اسلئے مسلمانوں کی اس ملک میں غریب اور اقلیتوں کی سیاست کی اونچائی کو دیکھنا ہے تو لیفٹ کی حمایت کریں اور ان جماعتوں کو مضبوط کریں ۔کیونکہ لیفٹ ہی اس ملک کے کمزوروں کا آخری حل ہے ۔جس طرح سری لنکا کو جب اکثریتی سیاست نے برباد کر دیا تو کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما گناوردنے کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھایا گیا ہے ۔بھارت کی سیاست کا بھی آخری حل لیفٹ ہی ہے۔لیکن لیفٹ میں مولویوں کو وہ توّجہ نہیں ملتی ہیں جو دوسری سیاسی جماعتوں میں مِلتی ہیں اسلئے مسلمانوں کا لیفٹ کے ساتھ جانا نا ممکن نہیں مشکل ضرور نظر آ رہا ہے ۔لیکن لیفٹ ہی اس ملک کے مسلمانوں کا آخری متبادل ہے ۔
|
|
|
Page 3 of 3