حکیم شاہدبدرفلاحی
سفوف کی مدت تاثیر اس تعلق سے آراء الگ الگ ہیں کسی نے اسکی مدت تاثیر چھ ماہ تو کسی نے ایک سال بتایا ہے۔
” وہ سفوف جو ٹھنڈے اور گرم پانی کے ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں۔ انکا فعل ایک سال کے بعد کم ہو جاتاہے۔ سفوفات انکو تیاری کے فوراً بعد سے ایک سال تک استعمال کیا جاتا ہے۔”( منھاج الد کان و دستور الاعیان ص 326)
لیکن مشاہدہ اسکے برعکس ہے۔ کئی سال پہلے حرقتہ البول کی ایک مریضہ میرے مطب پر آئی جسکے لئے میں نے سفوف اندری جلاب بنایا۔ استعمال کرایا وہ مریضہ الحمدللہ ٹھیک ہو گئی۔ لیکن اس سفوف کے تیاری شدہ کئی ڈبے بچ گیے تھے۔ ان ڈبوں کو سلیقے سے پیک کرکے مطب کی الماری کے کونے میں محفوظ کردیا ہے۔ اتفاق کہیں کہ کئی سال تک اتنی شدت سے حرقتہ البول کے مرض میں مبتلاء مریض نہیں آئے بس ہلکی شکایات لیکر حاضر مطب ہوئے تو وہ شربت بزوری کے ہی استعمال سے ٹھیک ہو گئے یوں بھی مطب کے ابتدائی دنوں میں مریض ہوتے بھی کم ہیں۔ مریض اس وقت بڑھنا شروع ہوتے ہیں جب مریض مریض سے بتاتے ہیں۔
اس سفوف کو بنا کر رکھے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ بالکل اسی طرح کی ایک مریضہ۔۔۔ پیشاب میں جلن ، ٹیس ٹیس۔۔۔ کی شکایت لیکر حاضر مطب ہوئی۔ تفصیلات جاننے کے بعد یہ یقین ہو چلا کی یہ حرقتہ البول کی مریضہ ہے۔ اور اسکے علاج میں سفوف اندری جلاب کی ضرورت ہے۔ نظر دوڑائی تو اس سفوف کے چند ڈبے الماری کے کونے میں رکھے نظر آئے لیکن خیال گزرا کی یہ تو تین سال پہلے کے بنائے ہوئے ہیں کیا یہ موثر رہیں گے؟مطب میں اندر جاکر ایک ڈبے کو کھولا دیکھ کر خوشی ہوئی کی سفوف بالکل خوش رنگ ، جوں کا توں محفوظ پڑا تھا، پھر چٹکی بھر زبان پر رکھ کر دیکھا تو ذائقہ بھی پورے کا پورا موجود پایا۔ اور دل میں اللہ ھوالشافی پڑھ کر مریضہ کو دیا۔ مریضہ نے پانچ دن بعد آکر بتایا کہ اب جلن بالکل بھی نہیں ہے یعنی تین سال قبل بنایا گیا سفوف اندری جلاب۔ رنگت ، ذائقہ اور تاثیر میں بالکل بھی فرق نہیں آیا۔ میں نے اس وقت کے موجود دس ڈبوں کو کھول کر دیکھا تو اسمیں سے دو ڈبے خراب ہو گئے تھے انمیں پھپھوند آگئی تھیں۔ جو ڈبے خراب ہو گئے تھے انکو بغور دیکھا تو معلوم ہوا کی انکو پیک کرنے میں کمی رہ گئی تھی اسلئے وہ خراب ہو گئے۔ یعنی اگر ڈبوں کو سلیقے سے پیک کیا جائے تو کم از کم ” سفوف اندری جلاب” کا تو مشائدہ ہے کہ تین سال کی مدت گزر گئی نہ رنگت میں تبدیلی آئی نہ ذائقہ بدلا نہ تاثیر۔ یہ ایک مشائدہ ہے جسمیں سبق ہے ہم سب کیلئے۔
مجھے حکیم وسیم اعظمی صاحب کی حسب ذیل باتوں سے اتفاق ہے۔
“جب تک کوئی دوا اپنی ظاہری شکل و صورت رنگ ، بو ، ذائقہ اور وزن میں برقرار رہتی ہے اسکی طبی افادیت برقرار تصور کی جاتی ہے۔ اور جب انمیں فرق آجاتا ہے تو افادیت میں بھی فرق آجاتا ہے” (علم الصیدلہ ص 122)
” تمام دواؤں کو نمی ، سیلن اور سورج کی تیز روشنی نیز گرد و غبار سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ ورنہ انکے طبعی خواص متائثر ہوکر ضعیف ہو جائیں گے” ( کلیات ادویہ ص 216)
دواؤں کی ذخیرہ اندوزی اور انکی دیکھ بھال بہت اہم چیز ہے۔ اس سلسلے میں اطباء کے معمولات اور انکے اقوال ملاحظہ کریں۔
ربوب کی مدت تاثیر۔ جالینوس کا بیان ہے۔
کی رب بہی میرے پاس سات سال تک علی حالیہ ہی قائم رہا اور اسکی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی۔( منھاج الدکان و دستور الاعیان ص 326)
شربت۔ تیاری کے بعد انہیں دو سال تک استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر انکی سلیقے سے دیکھ بھال کی جائے گرم ہوا اور نمی سے بچایا جائے۔ تو یہ شربت کئی سالوں تک اپنے حال پر باقی رہتے ہیں۔ ( منھاج الدکان۔۔۔۔ ص 326)
گوند کی مدت تاثیر۔ تمام تخمیات اور جڑوں کے مقابلے میں۔ صمغ عربی کتیرہ ان جیسے دوسرے گوند کی مدت تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ صاحب تصنیف منھاج الدکان نے لکھا ہے کہ یہ گوند انکے پاس تیس سال تک پڑے رہے انمیں کسی قسم کا تغیر رونما نہیں ہوا۔ اور نہ ہی کوئی خرابی پیدا ہوئی۔ الا آنکہ انمیں نمی ، مٹی یا پانی وغیر شامل ہو جائیں۔ ( منھاج الدکان….. ص 324)
” عصارات” بہ مقابلہ گوند کے کم عرصے تک اپنے حال پہ باقی رہتے ہیں۔۔۔۔ویسے میرے پاس 15 سال پرانا عصارہ زرشک تھا جب میں نے چکھا تو اسکے مزہ میں کسی قسم کی تبدیلی محسوس ہوئی اور نہ ہی اسکی قوت میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ (منھاج الدکان۔۔۔۔324)
سقمونیا۔ کی قوت 20 برس تک قوی رہتی ہے۔ افیون کی مدت 50 برس تک ہے۔ درختوں سے نکالے گئے دودھ کی قوت 10 برس تک باقی رہتی ہے۔ روغن زیتون جتنا بھی پرانا ہو زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ( خزائن الادویہ ص 146)
تخمیات کی مدت تاثیر۔ زیادہ روغن والے تخم مثلاً تل ، بادام اخروٹ ، پستہ ، کدو ، ککڑی میں خرابی جلد پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ تخم جسمیں کم روغن ہوتا ہے۔ مثلا حلبہ ، ھالوں ، بادیان ۔ انکی مدت حیات دو سے تین تک رہتی ہے۔ لیکن یہاں بھی معاملہ برتنے کا ہے۔ صاحب تصنیف نے لکھا ہے کی اس طرح کئی سارے تخم میرے یہاں سالہا سال تک بالکل محفوظ پڑے رہے انمیں کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ ( منھاج الدکان ۔۔۔۔۔ص 325)
چھالوں ڈالیوں اور جڑوں کی قوت انکی سختی و نرمی اور ٹھوس اسفنجی ہونے اور تیزی اور پھیکے ہونے کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ چنانچہ قسط ، درونج ، دار چینی اور ہلدی وغیرہ کی قوت دس برس تک باقی رہتی ہے۔ ( خزائن الادویہ ص 146)
” میرے پاس بہمنین۔ 20 سال تک پڑی رہی اور انکی قوت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ( منھاج الدکان۔۔۔۔ص 325)
پوست کی مدت حیات۔ جو پوست مسہل ہیں یعنی اسہال لاتے ہیں مثلاً تربد، شبرم اسی قبیل کی دوسری پوستوں کی قوتیں تین سال میں واضح طور پر کم ہو جاتی ہیں۔غیر مسہل پوست مثلاً دار چینی ، سلیخا ، ان جیسے دیگر پوست جالینوس نے کسی قدیم ماہر فن کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ کہ دار چینی کا فعل کبھی بھی کمزور نہیں ہوتا۔ (منھاج الدکان۔۔۔ص325)
برگ کی مدت تاثیر ۔ پتیوں کی قوت تاثیر ایک ، دو برس سے زیادہ نہیں رہتی بلکہ پتے اگر احتیاط سے رکھے جائیں تو بھی انکی مدت تاثیر ایک برس تک رہتی ہے۔ ( خزائن الادویہ ص 146)
پھول اور شگوفے یہ ایک تا دو سال تک قابل استعمال رہتے ہیں۔ ( کلیات ادویہ ص 220)
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مفرد ادویہ کا انتخاب سلیقے سے کریں۔ انکو ہوا ، نمی سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ دوا شکل ، رنگت و بو کے اعتبار سے محفوظ رہے۔
حسب ذیل مفردات کے استعمال میں بہت احتیاط برتیں۔
عناب۔ اسمیں بہت جلد گھن پڑ جاتا ہے۔
ملھٹی ۔ یہ بہت جلد خراب ہو جاتی ہے۔
مغز تخم کدو شیریں۔ مغز تخم خیارین و خرپزہ۔ سپستاں۔ بہدانہ یہ دوائیں کثیر النفع ہے اور بہت جلد خراب ہو جاتی ہیں ۔ میں ان تمام کو ماہ اپریل و مئی کی تیز دھوپ میں سکھا کر پلاسٹک پاند ھکر محفوظ کرتا ہوں۔ اور دو سال تک انمیں کوئی خرابی مشائدہ میں نہیں آئی۔ ٹھیک اسی طرح گولیاں اگر صمغ عربی کے رابطہ میں بنائی گئی ہیں اور سلیقے سے رکھی گئی ہیں۔ تو سالہا سال تک انکے پورے اثرات باقی رہتے ہیں۔ دواؤں کی مدت تاثیر کافی کچھ دواؤں کو سلیقے سے رکھنے پر منحصر ہے۔ ہم سلیقے سے رکھیں مدت دارانہ تک فائدہ اٹھائیں اور فائدہ پہنچائیں۔
المراجع والمستفادات۔
• منھاج الدکان و دستور الاعیان۔
فی اعمال و ترکیب الادویہ النافعتہ للا ابدان۔تالیف ابو المنی ابن ابی نصر عطار اسرائیلی ھارونی۔
مترجم۔ حکیم بلال احمد۔
سینٹرل کونسل خار ریسرچ اپنی یونانی میڈیسن۔ جنک پوری نئی دہلی۔ سن اشاعت. فروری 2018
• علم الصیدلہ۔ حکیم وسیم اعظمی۔
اعجاز پبلشنگ ہاؤس۔ نئی دہلی۔ طبع اول 1995
• کلیاتِ ادویہ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی۔
اعجاز پبشنگ ہاؤس بارواوی 1997
• خزائن الا دویہ۔ علامہ حکیم نجم الغمی رامپوری۔ ادارہ کتاب الشفاء کوچہ چیلان۔ نئی دہلی۔ سن اشاعت 2011