محمد شمیم حسین کولکاتا
آر ایس ایس اس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ فرق صرف یہ ہےکہ آر ایس ایس ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جب کہ بی جے پی ایک سیاسی پارٹی ہے ۔ اس کے باوجود وہ RSS کے ا شار پر ہی کام کرتی ہے ۔ جب غرض پڑی بی جے پی نے آر ایس ایس کو استعمال کیا یا یہ کہے کہ جب RSS کو ضرورت پڑی اس نے بی جے پی کو استعمال کیا یہ دو جماعتوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ۔ آج بی جے پی میں جتنے بھی ایم پی اور ایم ایل اے ہیں انکا کا کنکشن۔RSS سے ہے۔ اگرچہ ملک میں حکومت بی جے پی کی ہے ہے لیکن اس کا باگ دوڑ RSS کے ہاتھوں میں ہے ۔ وہ جب جیسے چاہتے ہیں حکومت میں تبدیلی کر سکتے ہیں ۔ خو ا ہ نام بدلنے کا معاملہ ہو یا قانون میں تبدیلی کا معاملہ ہو ۔ گاؤں یا شہر ،روڈ، اسٹیشن، ایئرپورٹ، اسٹیڈیم یا سرکاری ادارے کا نام بدلنے کا معاملہ ہو ۔ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس ملک کو منو سمرتی کا درجہ دے دیا جائے۔ ملک کی جمہوریت کو ختم کرکے ہندو ملک بنائی جائے اور سیکولرزم نام کی کوئی چیز نہ ہو آج ہندوستان جس دور سے گزر رہا ہے گزشتہ 68 برسوں میں یہ سب دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ کبھی ہندو مسلم ، کبھی گائے کا گوشت، کبھی لو جہاد، یا کبھی گھر واپسی ، کبھی مسجد۔ مندر، کبھی ما ب لینچنگ ، کبھی طلاق کا مسئلہ تو کبھی نقاب پر پابندی کا معاملہ ، کبھی مدرسہ کی تعلیم پر فتنہ تو کبھی سیول کوڈ کا معاملہ دراصل یہ سب مسلمانوں کو الجھانے کے لئے کیا جاتا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو حاشیہ پر لایا جا سکے ۔ اسی لئے بلڈوزر سے وہ کام کیا جا رہا ہے جو عدالت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اگر قانون کو بالائے طاق رکھ کر خود فیصلہ سنانا ہے تو ان تمام عدالتوں کو مقفل کر دینا چاہیے۔ اب تو مساجد پر بھی بلڈوزر چلنے لگے ہیں۔ ان کے مدارس کو نشانہ بنایا جا نے لگا ہے۔ مسلمانوں کو دہشتگرد بتا کر کر ان کے بچوں کو جیل میں ڈال دینا بغیر کسی جرم کی اور برسوں سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا۔مسلمانوں کو ڈرانے کا یہ انوکھا طریقہ ہے تاکہ مسلمان اپنے حق کے لیے لیے آواز بلند نہ کرسکے اور حکومت سے کوئی مطالبہ نہ کر یں۔
2024 انتخاب سے قبل بی جے پی کانگریس کی بھارت جوڑوں یاترا سے ڈ ر گئی ہے اور وہ یہ سوچ رہی ہے کہ اگر اسے ہندو و و ٹ نہ ملے تو معاملہ الٹا ہو جائے گا ۔ کہیں برسوں کی خواب ٹوٹ نہ جائے ۔
2025 میں RSS اپنی صد سالہ تقریب منانے جا رہی ہے ایسے میں بی جے پی کا اقتدار میں رہنا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے موہن بھگوت مسلم اسکالر سے مل کر ان کے خیالات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس وقت بھگوت جب ملک میں ماب لنچنگ ہو رہی تھی تو چپ سادھ بیٹھے تھے آج بھی دلیت اور مسلمانوں سے بی جے پی کو خطرہ ہے کیونکہ یہ دونوں اگر مل جائیں تو ملک سے بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھر جائے گا اور ہندو راشٹر کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
آج بھی ملک کے سیکولر لیڈر ان یہ نہیں چاہتے کہ ملک ہندو راشٹر بنے بلکہ سیکولر ملک کے خواہاں ہے RSS کی شا خ ہندوستان کے ہر گاؤں میں ہے پھر یہ تنظیم بجرنگ دل جیسے فرقہ پرست سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیوں پر لگام کیوں نہیں لگا رہی ہے ؟ دراصل ان کے ز بان پر کچھ اور دل میں کچھ ہے ۔حکومت میں آر ایس ایس کا دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یہ لوگ عدالت کے قانون اور ججوں کی رائے بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ججوں کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی رائے بدل دیں ورنہ انکے اور انکی فیملی کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ دراصل اس کے پیچھے ان کا مقصد ہے مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف ڈ ھکیلنا تاکہ وہ اپنے حق کے لیے آواز کبھی نہ اٹھا سکے اور نہ ہی حکومت سے کچھ مطالبہ کر سکیں۔RSS اور بی جے پی دراصل ایک سک کے دو پہلو ہیں۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...