غا ز ی تعلیم کو مشن بنا کر اپنے گاؤں کا مسیحا بن گیا
محمد شمیم حسین۔۔ کولکاتا
بچپن میں تعلیم مکمل نہ کرنے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ یہ کوئی اس سے پوچھے جو غربت کی وجہ سے تعلیم ادھورا چھوڑ کر روزی روٹی کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ محض سات سال کی عمر میں جلال الدین غازی نام کا ایک شخص ذریعہ معاش کی تلاش میں سندربن سے کولکاتا چلا آتا ہے۔( سندر بن مغربی بنگال کا ایک سیاحی مقام ہے۔یہاں کے رائل بنگال ٹائیگر پوری دنیا میں مشہور ہے)۔ کلکتہ کے سڑکوں پر غازی رات گزارتا ہے بھیک مانگ کر اپنی بھوک مٹاتا ہے۔ بارہ سال کی عمر میں رکشہ کھینچتا ہے اور اٹھارہ سال کی عمر میں وہ کلکتہ کی سڑکوں پر ٹیکسی چلانا شروع کرتا ہے ۔ 64 سال کا یہ شخص آج بھی کلکتہ کے سڑکوں پر پیلی ٹیکسی چلاتے ہوئے آپ کو کہیں نہ کہیں نظر
آ جائے گا ۔ وہ ایک ایک روپے جمع کرتا تھا تاکہ اس کا خواب پورا ہو سکے ۔ وہ اپنے گاؤں میں ان بچوں اور بچیوں کے لئے ایک اسکول قائم کرے ۔جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر سکتے تھے۔
غازی جلال الدین نے نہ جانے کتنے معصوموں کی زندگی میں مسکراہٹ بکھیرنے کا کام کیا ۔تعلیمی مشن کو اس نے آگے بڑھانے کے لیے اپنے گاؤں کے ملنے جلنے والے لوگوں سے مدد مانگی ۔ تو کسی نے اس کی مدد نہیں کی بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑایا۔ اس کا ایک ہی مشن تھا۔ “تعلیم تعلیم اور تعلیم “وہ جانتا تھا کہ اس کے گاؤں سے اور ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ اسی وقت ہوگا جب لوگ تعلیم حاصل کریں گے۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ تعلیم انسان کی زندگی میں کتنا ضروری ہے۔ آخر کار گاؤں کے کچھ لوگ تیار ہوئے اور انہوں نے اسکول بنانے کے لئے زمین دے دی۔
1998 میں غازی نے اپنے دو بیٹوں کے نام پر ایک پرائمری اسکول کا بنیاد ڈالا ۔ غازی نے بتایا کہ 1995 میں اس نے 22 طالب علموں اور دو ٹیچروں کے ساتھ اسکول کا داغ بیل ایک کمرہ میں ڈا لا تھا ۔ 2009 میں پرائمری اسکول سے دو کیلو میٹر دور سندربن میں دوسرا کمپس سندر سکشاتن مشن کے نام سے بنایا ۔ اس وقت اس اسکول میں چار سو چھیاسی(486) طالبعلم ،
علم حاصل کر رہیں ہیں ۔ 26 ٹیچروں کے علاوہ پانچ گروپ ڈی اسٹاف صاف صفائی کا کام کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو غربت نے پڑھنے نہیں دیا اس شخص نے غریبوں کو پڑھانے کا بیڑا اٹھایا ۔ آج ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں۔ یہ بچے نہ صرف غازی کے گاؤں کے ہیں۔ بلکہ آدھے سے زیادہ بچے یتیم اور بے سہارا ہیں۔ جو دوسرے گاؤں سے اس کے گاؤں پڑھنے کے لئے آئے ہیں ۔ صرف یہی نہیں غازی ایک یتیم خانہ بھی چلاتے ہیں۔ جن کی کفالت انکا ٹرسٹ کر تا ہے۔ اس کے لۓہر پیسنجر سے وہ اسکول اور یتیم خانے کے خرچ کے لیے دس، بیس، پچاس، سو، پانچ سو، ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں ۔
لوگ اس نیک جذبے کو دیکھ کر ان کی مدد کے لئے آگے بھی آتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہیں مرکزی یا ریاستی حکومت سے اب تک کوئی مدد نہیں ملی۔ اس کے باوجود وہ اسکول کا خرچ برداشت کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ ہر ماہ میں اس کام میں۔خرچ ہو تے ہیں۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور جس کی آمدنی بمشکل ایک ماہ میں دس سے بارہ ہزار روپے ہوتی ہے۔ وہ شخص اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پے لیے گھوم رہا ہے۔ غریب بچوں کے لیے مڈ ڈ ے میل کا بھی اسکول میں انتظام ہے ۔ جس میں ریاستی حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ 64 سال کا غازی، آج جب کلکتہ سے سندر بن کے جے نگر کے ٹھا کر چوک جاتا ہے تو بڑی عزت و احترام کے ساتھ علاقائی لوگ غازی صاحب کی ضیافت کرتے ہیں اور ان کی ھمت کی داد دیتے ہیں۔ غازی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اس گاؤں میں کالج کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ کام نہ کر سکے تو ان کے دو بیٹے اس کام کو آگے بڑھائیں گے ۔
اس وقت سکول میں 12 کمرے، دو واش روم اور ایک رسوئی گھر ہے۔
جس کے پاس کتاب خریدنے کے لیے رقم نہیں تھے آج وہ شخص 475 سے زائد بچوں کو ہر سال تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے ۔ یہ سب مسلسل گزشتہ 23 برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ بچوں کو مفت تعلیم ہی نہیں بلکہ اپنے گاؤں کے ہر نوجوانوں کو ڈرائیونگ سکھانے کے لیے سندر ڈرائیونگ سمیتی کا بنیاد ڈالا تاکہ جو بے روزگار ہیں۔ وہ روزی روٹی سے جڑ جا ئیں۔ ان کے سنٹر سے تقریبا ساڑھے چار سو سے زائد لوگ ڈرائیونگ سیکھ چکے ہیں اور کلکتہ اور مضافات میں گاڑی چلا کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں۔ جسکا بچپن میں خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر یا جج بنے گے ۔ لیکن قسمت نے ان کو ڈرائیور بنا دیا۔ آنے والے نسل کے لیے انہوں نے جو کچھ کیا وہ دولت مند لوگ نہیں کرتے ہیں ۔
غازی کی وجہ سے نہ جانے کتنے گھروں میں چراغ جل رہے ہیں۔ گاؤں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی ڈاکٹر، کوئی انجینئر ،کوئی ٹیچر اور کوئی جج بنے ۔ ان سب کے دلوں میں غازی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے اندر تعلیم آجائے تو ملک سے کرپشن اور۔دیگر جرائم ختم ہو جائیں گے۔تبھی ملک ترقی کر ے گا۔
2018 میں کے بی سی کے دسویں ایپیسوڈ میں وہ 25 لاکھ روپے جیتنے والے کنٹیسٹنٹ تھے۔ عامر خان ان کی مدد کے لیے گیسٹ کے طور پر آئے تھے۔ انعام جیتنے کے بعد غازی صاحب نے کہا تھا کہ وہ پوری رقم یتیم خانہ کو دے دینگے۔
غازی اپنے محسن اجیت کمار سہا،ارون کمار،دیپنکر گھوش،برنالی پائی اور دیبا دتہ اور دیگر لوگوں کو آج تک نہیں بھولے جنہوں نے اسکول بنانے کے لیے زمین عطیہ کی تھی۔ ان کے جذبے لگن اور ایمانداری کو دیکھتے ہوئے آج بھی ان کی مدد کے لیے یہ لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ غازی اپنے ان تمام مسافروں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس کام میں انکی مدد کی تھی ۔ وہ دس روپے کی مدد ہی کیوں نہ ہو ۔ جو شخص علم حاصل نہ کر سکا اس شخص نے علم کے میدان میں کمال کر دکھایا۔ لیکن حکومت خاموش رہی اور مدد کے لیے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔
غازی کا کہنا ہے کہ کارواں بنتا گیااور کام آسان ہوتا گیا۔انہوں نے اللہ کا شکریہ ادا کیا ۔ورنہ انسان تو صرف ایک بہانہ ہوتا ہے ۔ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ اچھا انسان ہونا معنی رکھتا ہے۔ یہ کہنا ہے غازی جلال الدین کا ۔ اور انہوں نے کہیں نہ کہیں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ دوسرے کے دکھ میں جو مدد کرتا ہے حقیقت میں وہی انسان کہلانے کے قابل ہے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور پر اتنی بڑی ذمہ داری معمولی بات نہیں
آج لوگ اگر کسی غریب کو سال بھر میں ایک کپڑا ایک کمبل دیتے ہیں تو نہ جانے کتنی فوٹو کھنچواتے ہیں ۔وہیں غازی کو ان سب سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو بس خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ امیروں کے لیے یہ معمولی بات تھی لیکن وہ خاموش رہے ۔اگر ہر پڑوسی اپنے ایک پڑوسی کے بچے کو پڑھانے کی ذمہ داری لے لے تو ہندوستان سے ناخواندگی دور ہوجائے گی۔ اگر حکومت اسکول سے داخلہ فیس ختم کر دے تو کوئی بچہ اسکول سے ڈراپ آؤٹ نہیں ہوگا ۔جلال الدین غازی اپنے گاؤں میں دو اسکول اور ایک یتیم خانہ بنا کر پورے ہندوستان میں ایک نظیر قائم کیا ہے۔ 64 سال کا یہ شخص جو کارنامہ انجام دیا ہے۔و ہ ہے مثال ہے ۔ دوسروں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
آپ کبھی کولکاتہ آئیں اور آپکو ٹیکسی نمبر WB 04 E 4753
پیلا ٹیکسی نظر آئے تو سمجھ لیجئے یہ ٹیکسی 64 سالہ بزرگ ڈرائیور جلال الدین غازی کا ہے اور اگر ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پے ڈائل کریں۔9735562504 اور کولکاتا کا سفر کریں اور ان یتیم بچوں کی مدد کریں۔جو آپ کے خیر ا ت کے مستحق ہیں