Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مسلمانوں کا تخلیقی ایکٹوزم کہاں گیا؟

by | Nov 16, 2022

ڈاکٹر عمیر انس

ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہندوستانی مسلمانوں کا حق ہے، زمہ داری بھی اور ضرورت بھی کہ وہ اپنے بارے میں، اپنے مسائل اور اپنی فکر اور سوچ کے بارے میں پورے ملک اور دنیا کو بہتر سے بہتر طریقے سے باخبر رکھیں اور انکی رائے کو اپنے حق میں بنائیں. کسی زمانہ میں مسلمان اس ملک میں شعر و شاعری اور ادب کے ذریعے اس ملک کی عوامی راے پر مثبت اثر رکھتے تھے. لیکن گزشتہ بچاس سالوں میں مسلمانوں کا ادب، فلم، ڈراما، ناول، اور پورے سمعی بصری ذرائع میں انکا اثر محدود ہوتا چلا گیا ہے. پچھلے پچاس سالوں میں تخلیقی میدان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے ایوارڈ اور انعامات حاصل کرنے والے مسلمان شہریوں کی تعداد بڑی مشکل سے دو چار فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی ہے. کیا مسلمانوں میں ذریعے تخلیقی اظہار خیال کے مواقع استعمال کرنے کا رجحان کم ہو رہا ہے یا انکے پاس مواقع اور پلیٹ فارمس کم ہیں یا انکے درمیان تخلیقی صلاحیتیں ہی غائب ہورہی ہیں؟ مثال کے طور پر مسلمان تخلیق نگار یہ شکایت کرنے میں بجا تھے کہ ملک کے ٹی وی چینلز انکے پروگراموں کو خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن جب سے ایمیزن پرائم اور نیٹ فلکس اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز مقبول ہوئے ہیں سارے مین سٹریم تخلیق نگار بھی اُدھر کا رخ کر رہے ہیں لیکن نیٹ فلیکس جیسے پاپولر پلیٹ فارمس سے اگر کوئی غائب ہے تو وہ مسلمان تخلیق نگار ہیں. ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں نے ساری تخلیقی ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار اور جناب جاوید غامدی صاحبان کے مذاکرے سننے کو سمجھ لیا ہے. یہ کیوں ضروری ہیکہ کہ ہم صرف مذہبی موضوعات پر ہی اپنے آپ کو ظاہر کریں جبکہ سبھی انسانی موضوعات پر اظہار خیال کرنا انکی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنا کسی غیر مسلم کی. مدارس اسلامیہ نے تو خیر قسم کھا رکھی ہے کہ وہ دنیا کہ ہر نئی ایجاد اور تخلیق کو پچاس پچیس سال تاخیر سے استعمال کرنا شروع کریں گے، آخر کیا وجہ ہے کہ مدارس اسلامیہ آج تک سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے پسماندہ ہیں، انکے یوٹیوب چینلز کی حالت دیکھیں کتنی بدحال ہے، حالانکہ سوشل میڈیا مدارس اسلامیہ کے لیے ایک انقلابی موقع سے کم نہیں ہیں، معمولی ٹرینینگ کے ذریعے بہت بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہیں، کیا وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ بھی شعر و شاعری کا عمدہ ذوق رکھنے کے باوجود عوامی سطح پر اپنی شاعرانہ صلاحیت سے ملکی سطح پر اثر انداز ہونے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اسلامی مجلوں، رسالوں، اور مدارس کی ثقافتی سرگرمیوں میں تخلیقی وسائل کے استعمال کی تربیت اور انکے بہتر استعمال کی رہنمائی کا فقدان ایک حقیقت ہے، دو سال پہلے دہلی کے جسٹ میڈیا گروپ نے ایک بڑا شاندار سوشل میڈیا ٹرینینگ کا پروگرام کیا تھا. جس میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کی ٹرینینگ دی گئی تھی، اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر وہ تھے جنہوں نے باقاعدہ میڈیا کی تعلیم حاصل نہیں کر سکے تھے لیکن آج وہ اپنے اپنے سوشل میڈیا میں پہلے سے زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے اپنی پہچان بنا رہے ہیں. اس طرح کے پروگرام سبھی مدارس میں ہونے چاہیے تھے. ہر مدرسے کا اپنا چینل ہوتا اور سوشل میڈیا پر اچھا اثر ہوتا.

مسلمانوں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال میں کیوں پیچھے ره گئے ہیں اسکی ایک وجہ شاید ہماری ملت کا تخلیقی صلاحیتوں کے سلسلے میں منفی رجحان ہے. ہمارے مزاج میں تخلیقی صلاحیت مشاعروں اور افسانوں پر تمام ہوتی ہے. مجھے یاد ہےکہ ایک دینی جماعت نے سن 2013 میں سوشل میڈیا پر ایک ورکشاپ منظم کی تھی جس میں میں بھی بن بلائے پہنچ گیا تھا. میں عرب بہاریہ میں سوشل میڈیا کے استعمال پر دو تحقیقی مقالے شائع کر چکا تھا. مجھے لگا شاید ان باتوں کو انکی مجلس میں بتاونگا تو انہیں بھی فائدہ ہوگا. لیکن جیسے ہی عرب بہاریہ میں سوشل میڈیا کے کامیاب استعمال پر ایک دو منٹ کی گفتگو کی انکے ایک انجینئر سیکرٹری نے مجھے گفتگو سے روک دیا. کہنے لگے ان باتوں کی انہیں ضرورت نہیں ہے. انکی بات صحیح تھی کہ انکے پاس آئی ٹی پروفیشنل کی ایک بڑی فوج ہے لیکن میں نے عرض کیا کہ سوشل میڈیا میں تکنیک کے علاوہ افکار اور خیالات کی پیشکش بھی بہت اہم ہے. اس تجربے نے بتایا کہ مسلمانوں کے بڑے حلقوں میں سوشل میڈیا کا مطلب صرف کمپیوٹر سائنس کی مہارت ہے سوشل سائنس اور سماجی مسائل کے فہم پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی. ہندوستان کے سوشل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارمس کے سو سب سے مقبول لوگوں میں مسلمان ناموں کی لسٹ آپ ابھی گوگل سے تلاش کرکے دیکھ لیں. جو ہیں وہ صرف اور صرف اپنے حلقوں اور مریدوں کے درمیان مقبول ہیں. ایسے مسلمان جو غیر مسلم سوشل میڈیا میں بھی خوب خوب مقبول ہوں بہت ہی کم ہونگے. یہ بات مسلمانوں کے لئے فائدے مند نہیں ہیں. آپ اس ملک کے سوشل میڈیا پر اسی طرح سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے جیسے آپ اپنے محلوں میں رہتے ہیں. سوشل میڈیا صرف سیاسی سماجی مستقبل نہیں بلکہ تجارتی اور معاشی ترقی کے لئے بیحد اہم ذریعہ ہو چکا ہے. ایک بار میں نے ندوہ العلماء کے احباب میں مہم چلائی کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی تحریک پیام انسانیت کی اہم تقاریر کے اجزاء سوشل میڈیا پر خوبصورتی سے ہندی اور دیگر زبانوں میں پیش کیے جائیں. لیکن وہ بھی تقریبا ناکام کوشش رہی. خلاصۃ کلام یہ ہےکہ ہندوستانی سوشل میڈیا میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کے زمہ دار وہ خود اور انکے ادارے ہیں اور اسکو درست کرنے کی زمہ داری بھی انکی ہے اور اسکا آسان طریقہ بس یہ ہےکہ سبھی حلقے اپنے اپنے درمیان سوشل میڈیا کے موثر استعمال کی ٹرینینگ دیں اور اچھی سکرپٹ سے لیکر بہتر گرافک ڈیزائن، ویڈیو سمیت سبھی طریقوں سے سوشل میڈیا میں حصہ لیں.

جب شاہین باغ تحریک چلی تھی تو کتنے نوجوان اپنی شاعری، ترانوں، وال پینٹنگ، طنز مزاح وغیرہ سے بہت مشہور بھی ہوئے تھے اور اپنی بات کو موثر طریقے سے پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے، مسلمانوں کے تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ناولوں، کہانیوں، دیگر نان فکشن کتابوں کے ذریعے بھی ہوتا رہا ہے لیکن ہندوستانی مسلمان ان سبھی تخلیقی ذرایع کے استعمال میں غیر مسلمان شہریوں کے تناسب میں کافی پیچھے ہیں، یقیناً اس میں تعلیم کی کمی کا بھی اثر ہے لیکن زیادہ اہم بات ہمارے درمیان تخلیقی طریقوں کے استعمال کی حوصلا افزائی نہیں کرنے کا ماحول ہے، ایک مسلمان شہری اپنے ماحول کو جن جذبات اور احساسات سے مشاہدہ کرتا ہے وہ اس ملک اور اسکے شہریوں کے لیے تجربہ کرنا بے انتہا ضروری ہے، مسلمانوں کے خلاف جس قسم کا خطرناک نفرت کا ماحول فروغ دیا جا چکا ہے اور یہ نفرت جس طرح سے گہری ہورہی ہے اسکو محض ایکٹوسٹ نقطہ نظر سے، محض سیاسی نقطہ نظر سے یا محض قانونی نقطہ نظر سے درست نہیں کیا جا سکتا. آپ سارے مقدمے بھی جیت لیں اور فرقہ پرست جماعتیں انتخابات بھی ہار جائیں لیکن اسکے باوجود ملک کے شہریوں کے مسلمانوں کے تئیں احساسات اور جذبات کو نارمل بنانے کے لیے ایک طویل وقت اور ہمہ جہت کاوش درکار ہے. اسی لیے یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح سے مسلمانوں کی معاشی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیشنل تیار کرنا ضروری ہے اور جسکی طرف مسلمان تنظیمیں پہلے سے زیادہ متوجہ ہو گئی ہیں اسی طرح سے مسلمانوں کے سلسلے میں پھیلی ہوئی نفرت اور کراہیت کا علاج سوفٹ پاور یا جذبات کو درست کرنے والی تخلیقی اظہار سے ممکن ہے.

 

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...