مڈل کلاس کے لئے مشکل وقت

مشرف شمسی 
لاک ڈاؤن میں لاک ڈاؤن کے بعد اسکول کی فیس اور میڈیکل کے لئے  مانگنے والوں میں بےتحاشہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔لاک ڈاؤن کے ختم ہوئے کئی مہینے گذر چکے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کے دوران جن لوگوں نے اپنی نوکری کھوئی ہے یا جن لوگوں کی تنخواہوں میں کمی ہوئی ہے اُن میں سے زیادہ تر خاندان یا تو بکھر چکے ہیں یا کسی طرح اپنا گھر چلا پا رہے ہیں ۔سرکار نے لاک ڈاؤن کے دوران برباد ہونے والے افراد کی تعداد کا اعداد و شمار نہیں جمع کیئے ہیں لیکن جو غیر سرکاری اعداد و شمار بتا رہے ہیں اُن کے مطابق بھارت کے تین کروڑ مڈل کلاس لاک ڈاؤن میں اپنی روزی روٹی گنوانے کے بعد غریبی حدود میں پہنچ گئے ہیں ۔لیکن یہ غیر سرکاری اعداد و شمار بھی بربادی کی صحیح تصویر کو پیش کر رہا ہے اس میں شک ہی لگتا ہے ۔کیونکہ لاک ڈاؤن کی صحیح تصویر آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے آتی جا رہی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے دو وقت کا کھانا مل جا رہا ہے ۔لیکن فلاحی ادارے میں جا کر دیکھیں تو آئے دن فیس اور میڈیکل خرچ مانگنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ساتھ ہی جو لوگ ان فلاحی ادارے کو پیسے دیتے ہیں اُن کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور جن سے پیسے آتے ہیں لاک ڈاؤن کے پہلے کے مقابلے بہت کم پیسے آ رہے ہیں ۔یعنی اُن امداد کرنے والے کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔فلاحی ادارے جمعیت ،خدمت یا جماعت اسلامی کی آفس میں ایک گھنٹہ بیٹھ جائیں پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاؤن نے كس طرح کی تباہی لائی ہے ۔یہ لاک ڈاؤن کی تباہی صرف مسلم آبادی تک محدود نہیں ہے بلکہ غیر مسلم آبادی میں بھی جائیں تو وہاں بھی تباہی کا منظر یکساں ہیں ۔لیکن غیر مسلم آبادی میں تباہی سڑکوں پر نظر نہیں آ رہی ہے اسکی وجہ ایک ہے کہ غیر مسلم آبادی میں زیادہ تر عورتیں بھی کام کرتی ہیں ۔اگر مرد کی کمائی کم ہو گئی ہے تو عورت کی تنخواہوں سے گزارا ہو جا رہا ہے۔لیکن آمدنی کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے غیر مسلم کو بھی منہگے علاقے ترک کر کے سستے علاقے میں جانا پڑ رہا ہے۔آج جو ملک کے حالات ہیں کہ نوکری مل نہیں پا رہی ہے اور جو نوکری مل بھی رہی ہے اس میں پورے گھر کا کیا ایک آدمی کا گزارا اچھے ڈھنگ سے ہو جائے مشکل ہے یعنی گھر کا ہر ایک فرد اگر کام کر رہا ہے تو ہی گھر اچھے ڈھنگ سے چل پا رہا ہے۔اس میں بھی گھر کا کوئی فرد بیمار پر جائے تو پورے گھر کا توازن بگڑ جا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے اپنے گھر کے اخراجات کے لئے منہگے کریڈٹ کارڈ کا خوب استعمال کیا تھا ۔لوگوں نے سمجھا کہ مہینے دو مہینے لاک ڈاؤن کا معاملہ چلے گا اور پھر پہلے جیسا سب کچھ ہو جائے گا ۔لیکن لمبا لاک ڈاؤن نے لوگوں کی مصیبت کو بڑھا دیا ۔کریڈٹ کارڈ اور گھر کا بینک قرض چکانے کے لئے لوگوں کو گھر تک بیچنے پڑ رہے ہیں ۔
سرکاری اسکول اور سرکاری اسپتال معیاری نہیں ہونے کی وجہ سے غریب ماں باپ بھی اپنے بچہ کو انگریزی اسکول اور علاج پرائیویٹ اسپتال میں کرانا چاہتے ہیں ۔لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سے جس طرح سے ملک کی معشیت نیچے  گري ہے اسکی وجہ سے بازار میں پیسے کا فلو کافی سست پڑ چکا ہے۔جو لوگ لاک ڈاؤن سے پہلے پچاس سے ساٹھ ہزار آسانی سے کما لیتے تھے اب اُن کے لئے بیس سے پچیس ہزار کمانا مشکل ہو رہا ہے یعنی کسی طرح لوگ اپنا گھر خرچ چلا پا رہے ہیں ۔ایسے میں جب کسی  گھر میں اسکول یا اسپتال کا بڑا خرچ آ جاتا ہے تو والدین کی مصیبت بڑھ جاتی ہے اور اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے مجبوری میں مانگنے کے لئے فلاحی ادارے کے سامنے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ایسے ایسے گھر کی عورتوں کو بحال مجبوری چہار دیواری سے باہر نکل کر فلاحی ادارے کے سامنے لائن میں کھڑے ہو کر جب دو ہزار یا پانچ ہزار کے چیک لیتی ہیں تو اُنکی آنکھوں سے آنسوں نکل پڑتے ہیں ۔کیونکہ وہ عورت آج سے پہلے کبھی بھی گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں ۔لیکن بچہ کے علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مجبوری میں گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے ۔حالانکہ ہے تحاشہ منہگائی کے باوجود خانے داری میں کٹوتی کر کے لوگ گھر خرچ چلا لے رہے ہیں لیکن منہگی تعلیم اور منہگا علاج نے لوگوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ۔سرکار اگر اس جانب جلد دھیان نہیں دیتی ہے تو حالات مزید بگڑ جائیں گے اور پھر اسے سنبھالے نہیں سنبھالا جائے گا ۔لیکن سرکار تو سرکار ہے اُسے کون اپنی ذمےداری کا احساس دلائے گا ؟ قومی میڈیا جو عوام کی آواز ہوا کرتی تھی اب سرکار بن چکی ہے ۔ایسے میں ملک کا مڈل کلاس تباہ و برباد ہوتا جا رہا ہے کسی کو کیا پرواہ ہے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *