دانش ریاض، معیشت،ممبئی
20نومبر 2022کی شام آخر اس ورلڈ کپ کا آغاز ہوگیا جس کی تیاری قطر میں بارہ برسوں سے کی جارہی تھی۔فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب قرآنی پیغامات کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ آخر بین الاقوامی کھیل کا آغاز کیوں کیا گیا تھا۔قطر نے اسے محض کھیل سمجھتے ہوئے دولت کمانے اور اپنے ملک کی برانڈگن کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ فرسودہ ممالک کی خودساختہ ترقی کو آئینہ بھی دکھایا ہے۔عالمی فٹ بال کپ ہویا کرکٹ ٹورنامنٹ عموماً اسے جسم فروشی کے ایک دوسرے ایونٹ کے طور پر بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔جب بھی کسی ورلڈ کپ کے انعقاد کا اعلان ہوتا ہے تو انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہ سرگرم ہوجاتے ہیںاورجسم فروشی،منشیات کے ساتھ انسانوں کی اسمگلنگ عالمی کھیلوں کے مابین پسندیدہ تجارت ہوا کرتی ہے لیکن قطر نےان تمام راستوں پر بند لگانے کی کوشش کی ہے جو جسم فروشی،انسانوں کی اسمگلنگ یا منشیات کی طرف جاتی ہوں۔چونکہ جسم فروشی، انسانوں کی اسمگلنگ اور منشیات صیہونی مقتدرہ کے ہتھیار ہیں لہذا ان دنوں صیہونی میڈیا قطر کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے۔
صیہونی مقتدرہ کے مختلف ادارے اپنے اپنے طور پر قطر کوکٹہرے میں کھڑا کرکے تختہ مشق بنا رہے ہیں ایسےمیں امیر قطر تميم بن حمد آل ثاني نے اپنے ملک میں تمام شائقین کا خیر مقدم کرتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ محض 28دنوں کی تقریبات کے لئے اپنے مذہبی وتہذیبی روایات سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
صیہونی مقتدرہ تو اس لئے پریشان ہے کہ اسے خاطر خواہ بزنس کا موقع میسر نہیں آرہا ہے اوراسے کھل کھیلنے کے لئے جو میدان چاہئے تھااس پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے لیکن برہمنی میڈیا اس لئے آگ بگولا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ میں بھی قطر نے شرک پر کاری ضرب لگائی ہے ۔حتی کہ مشہور اسلامی اسکالر ،کروڑوں لوگوں تک اسلامی تعلیمات پہنچانے والے مبلغ ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائک کوقطر میں تبلیغ اسلام کے لئے بلا کر لنکا میں آگ لگوادی ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ ملیشیا میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے اسلامی اسکالر جن پر ہندوستان میں پابندی عائد ہے قطر پہنچتے ہی اپنے فریضے کی ادائیگی میں لگ گئے ہیں اوردھیرے دھیرے لوگ مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں۔
دراصل قطر نےکھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کوبھی دعوتِ اسلام کامرکز بنا دیا ہے، دنیا بھر سےتشریف لائے علمائے کرام اوراسلامی اسکالرز مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اسی طرح دو ہزار مقامی علمائے کرام بھی فٹ بال ورلڈ کپ کی ڈیوٹی پر تعینات کردئے گئے ہیں۔ مساجد کو اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا مرکز بنا دیا گیا ہےتاکہ کوئی بھیکسی بھی وقت آکر معلومات حاصل کر سکے۔ ملک بھر میں قرآنی آیات، احادیث اور تاریخ اسلامی کےبل بورڈز آویزاں ہیں۔ مختلف زبانوں میںقرآن مجید کےتراجم ، اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب تقسیم کی جا رہی ہیں۔ ہر اسٹیڈیم میں نماز کے لئے جگہ مختص کی گئی ہے۔لہذا ایک ایونٹ جو سیر و تفریخ ،جسم فروشی اور منشیات کی تجارت کے لئے مشہور تھا اس کے آغاز میں ہی بین الاقوامی اداکار مورگن فری مین اور نوجوان قطری حافظ غانم المفتاح کی گفتگو نے تہذیبی تصادم کو قرآنی رخ عطا کرتے ہوئے رواداری اور احترام کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے کیسے رہا جاسکتا ہے اس کا ذریعہ بنادیا ہے۔
فیفا ورلڈ کپ کے ذریعہ قطر نے خلیجی ممالک کو بھی مربوط و مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے ۔کھیل کے شائقین متحدہ عرب امارات کے دبئی،شارجہ ،ابوذہبی میں مقیم ہیں جبکہ بڑی تعداد سعودی عرب کے ریاض میں بھی موجود ہے اور روزانہ ہوٹل سے اسٹیڈیم تک آمد و رفت کا سلسلہ ہے۔ قطری حکومت نے مخصوص ’’حیا کارڈ‘‘جاری کیاہے جس کی توثیق سعودی عرب نے بھی کردی ہے ۔ فیفا ورلڈ کپ کا کوئی بھی میچ دیکھنے کے لیے اس کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس حیا کارڈ موجودہے وہ سعودی عرب سے خصوصی ویزہ حاصل کرکےسعودی عرب میں 60 دن قیام کر سکیں گے۔
ان تمام باتوں نے ان طاقتوں کو پریشان کردیا ہے جو عالمی کھیل کی آڑ میں اپنا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر میڈیا ہاوسیز میں قطر کے خلاف منفی رپورٹنگ ہورہی ہے ۔جبکہ قطر کا ترسیلی ادارہ الجزیرہ تن تنہا ان سوالوں کا جواب دے رہا ہے جو سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں۔
افتتاحی تقریب میں سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے سربراہان کے ساتھ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی شرکت کی اور اپنی موجودگی درج کروائی۔لیکن ان تمام کے باوجود اب بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو قابل گرفت ہیں لیکن فی الحال تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آخر یہ گیم اور کیا گل کھلاتا ہے۔