ڈاکٹر عمیر انس :صلاحیتوں اور امکانات کی شناخت اور ان کے لیے ضروری مواقع بروقت میسر کرنا پہلی ترجیح ہو، ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی کئی ممالک سے بھی زیادہ بڑی ہے لیکن ان کی فلاح اور ترقی کے بارے میں ہونے والی گفتگو کسی چھوٹے سے گاؤں کی ضرورت جیسی کی جاتی ہے۔اس لحاظ سے اگر درست رپورٹ ہو تو معلوم ہوگا کہ ہر میدان میں ماہرین بننے والے لوگ سیکڑوں کی تعداد میں نکل سکتے ہیں، اسی لیے میں بار بار یہ بات کہنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے نمائندوں کو اپنے مسائل کے بارے میں ایک ریاست کی طرح سوچنا چاہیے، ان کی منصوبہ بندی ویسے ہی ہونی چاہیے جیسے کسی معیاری مسلم ملک کو اپنے عوام کے بارے میں کرنا چاہیے، اس بارے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے درمیان نوجوان صلاحیتیں ہزاروں میں ہونے کے باوجود وہ بروقت صحیح موقع حاصل کرنے میں اور صحیح پلیٹ فارم تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ایک صلاحیت کو اس کو مزید فروغ اور تقویت بخشنے والے مقام تک پہنچنے میں مدد کرنا یہ تعلیمی بیداری کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے، یہ عموماً انٹر میڈیٹ کے بعد کے طلبا کی ضرورت ہے، انٹر میڈیٹ کے بعد کوئی طالب علم خالی بیٹھا ہے، اس بات سے مقامی تنظیموں کو فوراً واقف ہونا ہی چاہیے۔مقابلوں میں کامیاب ہوجانے والوں پر توجہ تو سب کی رہتی ہے لیکن نوے-اسّی فیصد طلبا تو مقابلے میں ناکام ہو جانے والوں کی ہی ہوتی ہے۔کیا ان طلبا کی صلاحیتوں کی فوراً شناخت کرنے اور انہیں کسی بھی طرح آگے بڑھانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں؟ شاید بہت ہی کم! اسی طرح سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی خاص طور پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کرلینے کے بعد بھی بہت سارے نوجوان بے روزگار رہ جاتے ہیں یا ایسے میدانوں میں روزگار کے لیے مجبور ہیں جو ان کا اصل میدان نہیں ہے۔ معاشی ترقی صرف اس بات سے نہیں ہوتی کہ کتنے افراد کو روزگار حاصل ہوگیا بلکہ اس بات سے ممکن ہوتی ہے کہ روزگار کہاں، کس میدان میں اور کتنے بہتر مستقبل والا ملا ہے۔ جس روزگار میں دس بیس سال تک کوئی ترقی نہ ہو اس سے ضرورت تو پوری ہوسکتی ہے لیکن معاشی ترقی نہیں ہوتی۔ہمارے جلسوں اور خطبوں میں اب تعلیمی انقلاب کے ساتھ معاشی انقلاب بھی موضوع گفتگو بننا چاہیے۔
آخری بات جس پر اب بہت سارے حضرات نے توجہ دینا شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ساری توجہ نوکری پر نہیں مرکز کرنی چاہیے، خاص طور پر جس طرح سے سول سروسز کی تیاری کرانے پر توجہ ہوئی ہے وہ بہت منطقی نہیں ہے۔ ہماری سول امتحانات میں کامیابی کی شرح پہلے سے ہی دو چار فیصد کی ہے، اس میں ناکام ہونے کی وجوہات میں اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان طلبا سول کی طرف بہت تاخیر سے متوجہ ہوتے ہیں، اس لیے سول کی تیاری کی مہم گریجویشن میں داخل ہونے کے بعد سے ہی شروع ہونی چاہیے تاکہ جن طلبا کو اس میدان میں جانا ہے وہ اسی وقت ذہنی تیاری کر لیں، باقی طلبا سماجیات، قانون، سیاست، آرٹ، میڈیا، معاشیات جیسے سیکڑوں میدان ہیں جہاں وہ بہت کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ان میدانوں میں اکثر مسلمان طلبا اسی وقت متوجہ ہوتے ہیں جب وہ سبھی محاذوں پر اپنی کوششوں سے مایوس ہو جاتے ہیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان نوجوان زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں خواہ وہ آئی ٹی ہو یا میڈیکل، سماجیات ہو یا صحافت، معاشیات ہو یا میڈیا اسٹڈیز۔بلکہ کئی شعبے تو ایسے ہیں جس میں مسلمانوں کی غیر موجودگی ان کے لیے بیحد نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ملک کی یونیورسٹیوں کے شعبہ تاریخ، شعبہ فلسفہ، شعبہ سماجیات اور شعبہ معاشیات میں مسلمانوں کی موجودگی دو چار فیصد ہی بچی ہے، سوچیں جب تاریخ نویسی کا رخ بدلا جائے گا تو آپ وہاں موجود نہیں ہوںگے، اب آپ کے معاشی مسائل پر تکنیکی گفتگو ہوگی تو آپ وہاں نہیں ہوںگے، جب میڈیا میں آپ کی تصویر کشی پر ماہرانہ گفتگو کی جائے گی تو آپ کے اساتذہ اور محققین وہاں نہیں ہوں گے، ظاہر ہے کہ ہمیں اپنی تعلیمی تحریک کو بہت مفید بنانے کی ضرورت ہے۔