
•میں بھی حاضر تھا وہاں!•
(روداد اُردو کتاب میلہ، اورنگ آباد)
مسعود محبوب خان (ممبئی)
ہندوستان کے غرناطہ کہے جانے والے تاریخی شہر اورنگ آباد میں ہفت روزہ اردو کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ کتاب میلہ ماہ دسمبر کی 16 سے 22 دسمبر 2022ء تک، جامع مسجد سے متصل عام خاص میدان میں جاری رہا۔ اس میلے کے ذریعے امید پرور دلکش مناظر بھی سامنے آئے۔ اور قابلِ اصلاح پہلو بھی سامنے آئے۔ جس کی اصلاح واقعتاً بہت ضروری ہے ورنہ کوئی بھی منتظمین اس طرح کی تقریبات نہ ہی منعقد کرے تو بہتر ہوگا۔ اس طرح کی مخلوط تقاریب میں اسلامی تعلیمات و احکامات کا پاس و لحاظ بھی ضروری ہے۔ حلال و حرام کے اسلامی احکامات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ یہ میلہ ایک رپورتاژ کا ہی نہیں، ایک سماجی مُطالَعے کا موضوع، ساتھ ہی ساتھ کتابوں اور مُطالَعے کے ذوق و شوق رکھنے والوں کی حقیقت کا مظہر بھی تھا۔
کتاب میلوں کی تاریخ تقریباً 500/ سال پرانی ہے، کتاب میلوں کا انعقاد کی قدیم تاریخ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے جا ملتی ہے۔ جب کہ آج ہندوستان میں طباعت و پیپر سازی کی صنعت کو بھی کافی عروج حاصل ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ہندوستان میں قریباً 13/ ہزار سے زائد پرنٹر و پبلشر استعمال شدہ 20/ زبانوں میں کتابیں چھاپتے ہیں، جس کے تحت ہندوستان اس کاروبار کی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔ کتابوں کی تشہیر اور فروخت کے لیے جملہ ذرائع ابلاغ، چاہے وہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا ہو، یا سوشل میڈیا ہو تخلیقی و تعمیری انداز میں بہترین طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کُتُب میلوں کی ایک منفرد نوعیت کی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں مصنف، مؤلف، ادیب، شعراء اور مختلف انداز کے اہلِ قلم خود بھی بنفس نفیس حاضر ہوتے ہیں، وہ حضرات دوسروں کی کتابیں بھی خرید رہے ہوتے ہیں، اور اس پر تبصرے بھی کرتے ہیں اور اپنے پبلشروں کے اسٹال پر اپنی کتابیں دستخط کے ذریعے یادگار بناتے ہوئے خریداروں کو دے بھی پیش کررہے ہوتے ہیں۔ موجودہ کتاب میلے میں بھی خصوصاً ایسے مناظر ملت پبلی کیشنز پر دیکھنے میں آئے، جہاں مصنف و پبلیشر محترم افضل لون صاحب کو اپنی جوبصورت طباعت سے مزین کتابوں پر دستخط کرتے دیکھا۔
گائیڈنس پبلیکیشنز کے اسٹال سے دعوتی سرگرمیوں کو بھی انجام دیا گیا۔ غیر مسلم بھائیوں میں موجودہ حالات میں اسلام و اردو سے محبت و عقیدت کا انکشاف بھی ہوا۔ مگر افسوس اس بات کا رہا کہ ان کی تشنگی اور ذہنی و فکری آبیاری کا حق جیسا ادا ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہو سکا۔ اس کا اظہار خود انہوں نے بھی کیا۔ ریجنل زبانوں میں بھی کتابیں، خصوصاً مراٹھی و ہندی اور انگریزی میں دعوتی نوعیت کتابیں نمایاں انداز میں اسٹالز پر نظر آتی تو اس کا ضرور فائدہ ہوتا۔
کتاب میلے میں شریک ہونے والی بڑی تعداد متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی تھی۔ جب کہ آج معیاری تعلیم اہل ثروت طبقات {Elite class} کے لئے مختص ہوتی جارہی ہیں، وہیں یہ کُتُب میلے نچلے طبقات کے لئے علم کی شمع کو فروزاں رکھنے کا ذریعہ یا امید کی کرن بن سکتے ہیں۔
جن شرکاء کو میلے میں شریک ہونے کا موقع ملا وہ میرے اس مشاہدے کی تصدیق و تائید کریں گے کہ شرکاء کی اکثریت مذہبی و دینی پس منظر کے حامل لوگوں کی تھی۔ ایک سروے کے مطابق بک اسٹالز بھی کوئی 80 فیصد مذہبی اداروں اور پبلشروں کو الاٹ کئے گئے تھے۔
کتاب میلے میں خواتینِ ملت کی شرکت بھی قابل توجہ نظر آئیں۔ میلے میں شریک خواتین کا تعلق مذہبی گھرانوں کے علاؤہ مختلف طبقوں سے محسوس ہوا۔ اس میلہ کی قابلِ رشک بات یہ رہی کہ بڑی تعداد برقعہ پوش و باحجاب جدید تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ ساتھ روایتی اور گھریلو خواتین بھی کتاب خریدتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین کی اکثریت کو اپنی ذات سے زیادہ، اپنے مستقبل کے نونہالوں کے لئے کتابیں خریدتے ہوئے پایا۔
اس میلے میں عام شہریوں کے علاؤہ کتابوں کے خورْدَہ فَروش بھی اپنی استطاعت بھر کتابیں خریدتے نظر آئے۔ دینی مدارس و عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و لائبریری کے ذمہ داران دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔
کُتُب میلے میں کتابوں کے علاؤہ اور بہت سی مطبوعہ چیزیں، الیکٹرانک کتابیں، ای بکس، آڈیو ویژول مصنوعات، بکری کی کھال پر قرآنی آیات کے خوبصورت تغرے، نقشے، ہائی جینک روز مرہ کی چیزیں، تعلیمی اداروں کا تعارف، ہاؤس آف وسڈم کے زیرِ انصرام مختلف تجارتی، تعلیمی، طبی، علمی و فکری، شاعری و ادبی پروگرامس، دینی و اسلامی تنظیموں و تحریکوں کے ماہانہ رسالوں اور نئے سال کے کیلینڈرس، سائنس ایگزیبیشن اور ایسی ہی دیگر چیزیں مختلف اسٹالز پر موجود تھیں۔ بعض اسٹال کتابوں اور دیگر علمی مصنوعات کے تعارف اور پروموشن کی غرض سے لگائے گئے تھے۔
وہاں کے پروگراموں کو دیکھ کر یہ بھی احساس پروان چڑھا کہ مذہبی و علمی اور ادبی و ثقافتی کُتُب میلے بچوں کی علمی نرسریوں کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
کُتُب میلے، انسان کے ذِہنِ رَسا {intelligent mind} کی ایجاد ہیں۔ یہ میلے اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ اگر کتابیں معیاری و عملی موضوعات پر ہوں، ساتھ طباعت کا معیار بہترین ہو، قیمتیں مناسب ہوں تو لازماً لوگ ان کتابوں کو خریدنا پسند کرتے ہیں۔
پرنٹر و پبلشروں اور کُتُب فروشوں کو بھی اپنے منافع کو کچھ حد تک کم کرکے اس کا فائدہ سیدھا کتاب کے قارئین کو پہنچانا چاہئے، جس کی وجہ سے ان کی فروخت کی شرح میں اضافہ ہوگا، ساتھ ہی کُتُب بینی میں اضافہ بھی نظر آئے گا۔ اگر پبلیشرز اپنے منافع میں مزید کمی کریں تو ان کی کتابوں کی فروخت اور بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی کتابوں کے مُطالَعے اور حصول میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
کُتُب میلے لوگوں کے باہم ملنے کا کتنا اچھا ذریعہ بن سکتے ہیں اس کا احساس موجودہ میلے میں مزید پختہ ہوا۔ اس طرح کے کتاب میلوں کے ذریعے معاشرتی تبدیلیوں کی نوعیت اور ان کے کردار کے بارے میں جاننے کا ایک اچھا وسیلہ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح کی اہم تقریبات کو آئندہ بہتر سے بہتر بنانے کے لئے اس کے مختلف پہلوؤں سے محاسبہ بھی بے حد ضروری ہو جاتا ہے۔ کچھ تجاویز و مشوروں کو بھی زیرِ غور لانا مناسب سمجھتا ہوں۔ آئندہ کے لئے یہ بہتر و کارآمد ثابت ہوسکے۔
میلے میں آنے والے بعض بچے اور اکثر اسکولی طالب علم تو اتنی کم عمر کے تھے کہ ماؤں اور اساتذہ کو صحت کو نقصان پہنچانے والے جَنک فوڈ و فاسٹ فوڈ یا صرف ربر، پینسلز پر ہی قناعت کروانا پڑا۔ والدین و اساتذہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ کتاب میلوں میں شریک ہونے والے بچوں کی ذہن سازی کرکے لائیں، جس کی وجہ یہ چھوٹے چھوٹے نونہالان اس طرح کے کُتُب میلوں کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں۔
ہر چند کہ موجودہ میلے میں سیکیورٹی کا معقول انتظام تھا، لیکن لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کے نتیجے میں بارہا ایسا محسوس ہوا کہ یہ انتظام بھی ناکافی رہا۔ امید ہے کہ منتظمین آئندہ اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھیں گے۔
وضو خانوں اور بیت الخلاء کے لئے اکثر و بیشتر لوگوں کو پریشان حال دیکھا۔ اصلاح کے لئے تجاویز و آراء تو بہت ہیں، ان شاء اللّٰہ! اسے راست ہی بتانا سہی سمجھتا ہوں، یہ تحریر کہیں طوالت کا شکار نہ اس لئے کچھ اہم چیزوں پر ہی اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ بہرحال مجموعی طور پر کتاب میلے کے مثبت و منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انسان غلطی کا پتلا ہے، غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ غلطیوں کی اصلاح فرمائے۔ تجربے ہوں گے تو غلطیاں بھی ہوں گی، لیکن ان غلطیوں کو سدھار کر ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اللّٰہ ہمارے ان بھائیوں کو دین و ایمان کے سہی فہم کے ساتھ آئندہ کی تقریبات کو بہتر انداز میں کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین