۔ 108ویں انڈین سائنس کانگریس میں قرآن کریم کا ایک ایسا نسخہ نمائش کے لئے رکھا گیا ہے جو سنہری روشنائی سے تحریر کیا گیاہے۔ یہ 16ویں صدی کا ایک نایاب نسخہ ہے۔ یہ نسخہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے متاثر ایک تنظیم کی تحویل میں رہتا ہے۔ واضح ہوکہ منگل کو یہاں انڈین سائنس کانگریس کا افتتاح کیا گیا۔
سونے کی روشنائی والے قرآن کی نمائش کرنے والی تنظیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ دنیا بھر میں سنہرے حروف والی مقدس کتاب کے صرف چار نسخے ہیں،جن میں سے یہ ایک ہے۔آئی ایس سی نمائش میں ناگپور میں قائم ریسرچ فار ریسرجینس فاؤنڈیشن (آرایف آر ایف) کی جانب سے لگائے گئے ایک اسٹال نے یہ کاپی رکھی ہے۔ یہاں قرآن کریم کے ساتھ کچھ نوادرات کے نسخے بھی، جن میں سے کچھ صدیوں پرانے مانے جاتے ہیں، نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
غور طلب ہے کہ آر ایف آر ایف ، بھارتیہ تعلیم منڈل (بی ایس ایم) کی تحقیقی شاخ ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق، یہ تعلیم کے میدان میں قومی بحالی کو پورا کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ سنہری حروف والا نسخہ قرآن 16ویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی جانکاری نیشنل اتھارٹی فار مینو اسکرپٹس کے پرنسپل تفتیش کار بوبڈے نے دی۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں اس قرآن کے صرف چار نسخے ہیں۔ اس قرآن کے حاشیے نستعلیق رسم الخط میں لکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نستعلیق اور کوفی فارسی میں مستعمل دو رسم الخط ہیں۔ نستعلیق کو دنیا کا بہترین رسم الخط مانا جاتا ہے، نایاب سونے کی روشنائی والے قرآنی نسخے کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے 385 صفحات ہیں جن میں کوئی ایک املا کی غلطی بھی نہیں ہے۔
بوبڈے نے کہا، 385 صفحات ہیں جن میں سونے کی روشنائی میں چھوٹی تحریریں ہیں لیکن چھوٹے سائز کے باوجود، ان صفحات میں سے کسی پر ایک بھی املا کی غلطی نہیں ہے۔ یہ اس کتاب کی انفرادیت ہے۔انہوں نے کہا کہ نظام حیدرآباد کے دیوان کے خاندان نے انہیں قرآن کا ایک نسخہ دیا تھا۔
بوبڈے نے کہا کہ ایران کے صدر کے مشیر، خصوصی طور پر آر ایف آر ایف مجموعہ دیکھنے آئے تھے۔انہوں نے کہا کہ آر ایف آر ایف کے پاس ہندوستانی تاریخ، مذاہب اور قدیم ہندوستان کی سائنس کے 15,000 مسودات موجود ہیں۔ ابو الفضل کے 1577 میں لکھے گئے اکبر نامہ کے بارے میں دنیا جانتی ہے۔ آر ایف آر ایف کے پاس وہ کتاب ہے، لیکن ہمارے پاس فارسی میں لکھی گئی ’طب اکبر‘ بھی ہے جس کے بارے میں دنیا نہیں جانتی۔
بوبڈے نے کہا، طب اکبر 17ویں صدی میں لکھی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایف آر ایف کے مجموعے میں تاریخ تاج بھی شامل ہے جس میں تاج محل کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا تاج محل کے بارے میں جانتی ہے لیکن اس کی اصل تاریخ نہیں جانتی۔ جیسے ممتاز محل کی موت کی صحیح تاریخ۔ تاریخ تاج بتاتی ہے کہ ممتاز محل کا انتقال 17 جون 1631 بدھ کی رات 9.30 بجے ہوا۔ اسی طرح اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہاں کس نے کام کیا اور وہ جگہیں جہاں سے پتھر اور سنگ مرمر لائے گئے۔
آرایف آرایف کے پاس چھترپتی شیواجی مہاراج پر پہلا مخطوطہ بھی ہے، جسے رام چندر دکشت نے مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے منجارتھ گاؤں میں لکھا تھا۔ بوبڈے نے کہا کہ ہمارے پاس 17ویں صدی کے مراٹھا راجہ کا آخری خط بھی ہے جو اس کی اصل تحریر میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں سال پرانے کھجور کے پتوں پر لکھے گئے گروڈ پران اور وشنو پران بھی آر ایف آر ایف کے مجموعے میں موجود ہیں، آر ایف آر ایف نے اب تک 50 ملین صفحات پر مشتمل ڈیڑھ لاکھ قدیم نسخوں کو ڈیجیٹائز کر کے محققین کے لیے دستیاب کرایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے 3,441 آرکائیوز اور میوزیم سے 25 لاکھ سے زیادہ مخطوطات کا ڈیٹا بیس اکٹھا کیا ہے۔ یہ تمام مخطوطات ان لوگوں کے لیے ڈیجیٹائز کیے گئے ہیں جو تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان قدیم نسخوں کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے گزشتہ 16 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔