
یوکرین کی طرح بھارت کو بھی مہرہ بنانے کی کوشش ۔
مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
روس کو یوکرین میں اُلجھا دیا گیا ہے تاکہ روس دنیا کے دوسرے حصوں میں امریکہ کی دادا گیری کے خلاف چیلنج نہ بنا رہے ۔یوکرین کی طرح بھارت کو بھی امریکہ چین کے خلاف مہرہ بنانے کی کوشش میں تو نہیں ہے ؟
اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ اور اسکے حمایتی مغربی ممالک سبھی کوششوں کے باوجود شام کی بشار الاسد حکومت کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔امریکہ یہ چاہتا ہے کہ شام میں اسد حکومت کا خاتمھ ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے لئے غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ سے نمٹنا آسان ہو جائے گا یعنی اسرائیل کی سرحد ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیگی ۔دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو شام میں اسد حکومت کے ساتھ حماس اور حزب اللہ کا بھی خاتمھ ہو جاتا ۔ساتھ ہی ایران اپنی سرحدی حدود میں سمٹ کر رہ جاتا اور اسرائیل مغربی وسطیٰ میں بنا چیلنج کا سپر پاور بن جاتا لیکن شام میں اسد حکومت کی حمایت میں روس کی فوج آ جانے سے امریکہ اور اسرائیلی حمایتی لڑاکوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اس طرح شام میں امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ۔شام میں بشار الاسد حکومت کا اگر خاتمھ ہو جاتا تو فلسطین کا قصہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ۔شام کی ناکامی سے امریکہ تلملا یا ہوا تھا اور روس کو پٹخنی دینے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا ۔اسی درمیان افغانستان سے امریکا کو بے عزت ہو کر نکلنا پڑا ۔افغانستان سے شکست خوردہ ہو کر نکلنے سے امریکہ کے سپر پاور ہونے پر سوال اٹھنے لگے تھے۔تب ایک منظم حکمت عملی کے تحت یوکرین جو سوویت یونین سے الگ ہونے والے ممالک میں سب سے ترقی یافتہ اور خوش حال ملک تھا اُسے ناٹو میں شامل کرنے کا لالی پاپ دیا گیا ۔ممکری کرنے والا یوکرینی صدر نے امریکی سازش کو سمجھے بنا روس سے لڑنے کے لیے کھڑا ہو گیا ۔یوکرین مغربی ممالک کے فوجی ساز و سامان کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ وقفہ سے مضبوط روسی فوج کا مقابلہ ضرور کر رہی ہے لیکن ایک ہنستا کھیلتا ملک اپنے مسخرے صدر کی بیوقوفی کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے ۔ساتھ ہی اس جنگ کی قیمت اب تک پوری دنیا چکا رہی ہے ۔ہاں یہ اور بات ہے کہ اس یوکرین جنگ سے روس کو اپنی سرحدوں تک محدود رکھنے میں امریکہ اب تک کامیاب رہا ہے ۔
روس کی طرح چین بھی امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے ۔چین معاشی اعتبار سے تقریباً امریکہ کے ہم پلّہ ہو چکا ہے اور اپنی معاشی طاقت سے ایشیا کے زیادہ تر چھوٹے بڑے ممالک سے اپنے رشتے استوار کر چکا ہے ۔یہاں تک کہ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک سے چین بہتر تعلقات بنانے کی شروعات کر چکا ہے ۔یہ ممالک ہمیشہ امریکہ کی گود میں رہے ہیں ۔امریکہ روس کی طرح چین کو بھی اسکی سرحدوں پر ہی الجھائے رکھنا چاہتا ہے ۔لیکن چین کے ارد گرد بھارت کے علاوہ کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو چین کا فوجی مقابلہ بہت دنوں تک کر سکے ۔بھارت ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والا ایک بڑا ملک ہے اور نیوکلیئر طاقت بھی ہے ۔تائیوان کو چین اپنا حصہ سمجھتا ہے اور تائیوان کی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے۔ہاں جاپان کے ساتھ چین کا سمندر میں تنازعہ ہے اور جاپان ایک ترقی یافتہ ملک بھی ہے لیکن جاپان کی پالیسی نو وار کی رہی ہے اور امریکہ کے کہنے پر جاپان اپنے ملک کو جنگ میں جھونک دے گا یہ ممکن نہیں ہے ۔اسلئے امریکہ چین کو الجھانے کے لئے بھارت کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے ۔بھارت جتنا امریکہ کے نزدیک جاتا ہے چین اتنا حملھ آور ہو جاتا ہے اور نئی نئی بدمعاشیاں شروع کر دیتا ہے ۔حالانکہ چین کے ساتھ بھارت کا تجارتی رشتہِ کافی مضبوط ہے۔اسکے باوجود آئے دن سرحدوں پر چین کچھ نہ کچھ شرارتیں کرتا رہتا ہے اور بھارت کو اکسانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔جبکہ امریکہ کی کوشش ہے کہ بھارت چین کے ساتھ جنگ میں اُلجھ جائے۔بھارتیہ قیادت کو چین اور امریکہ دونوں کو لے کر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہمیں امریکہ پرست بننے کا خمیازہ یوکرین کی طرح بھگتنا پڑے ۔