کہانی گوتم اڈانی کی!

کہانی گوتم اڈانی کی!

سہیل انجم

آجکل دو شخصیات موضوع گفتگو ہیں۔ ایک راہل گاندھی اور دوسرے گوتم اڈانی۔ راہل اپنی بھارت جوڑو یاترا کی وجہ سے اور اڈانی این ڈی ٹی وی خریدنے کی وجہ سے۔ اڈانی کی شہرت کی ایک دوسری وجہ بھی ہے اور وہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی قربت یا دوستی۔ راہل گاندھی پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ آئیے گوتم اڈانی کے بارے میں کچھ جان لیتے ہیں۔ اڈانی کا نام تقریباً تین دہائی قبل ایک ابھرتے ہوئے صنعت کار کی حیثیت سے منظر عام پر آیا تھا۔ رفتہ رفتہ ان کا نام سرخیوں میں آنے لگا۔ نریندر مودی سے ان کی دوستی کی کہانی بھی کہی جانے لگی۔ یہ دوستی نئی نہیں ہے۔ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اسی وقت سے دونوں کی دوستی گاہے بگاہے موضوع گفتگو بنتی رہی ہے۔ لیکن 2014 کے بعد سے جب اڈانی کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہونا شروع ہوا تو اس دوستی کا چرچا زیادہ ہونے لگا۔ یہ کہا جانے لگا کہ مودی حکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں سے سب سے زیادہ اگر کسی کو فائدہ ہو رہا ہے تو اڈانی کو ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت نے بعض صنعتی و تجارتی قوانین میں اس طرح ترمیم کی کہ اس کا فائدہ اڈانی کو پہنچے۔ بہرحال ساٹھ سالہ گوتم اڈانی اس وقت ہندوستان کے امیر ترین اور دنیا کے تیسرے امیر شخص ہیں۔ پہلے مکیش امبانی ہندوستان کے سب سے امیر شخص تھے۔ لیکن اڈانی نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ویسے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ اڈانی کے نام کو ہندوستان کے بچے بچے تک پہنچانے میں راہل گاندھی نے بھی کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ کم از کم 2014 کے بعد سے تو وہ مسلسل یہ الزام عاید کرتے آرہے ہیں کہ موجودہ حکومت دو آدمیوں کی حکومت ہے۔ امبانی کی اور اڈانی کی۔ ان کے مطابق وزیر اعظم مودی ملک کی دولت ان دونوں شخصیات کے حوالے کرتے جا رہے ہیں۔ بلکہ اب وہ امبانی کا نام کم اور اڈانی کا زیادہ لیتے ہیں۔ ادھر حالیہ دنوں میں رویش کمار نے بھی ان کے نام کو گھر گھر پہنچانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر جب اڈانی نے این ڈی ٹی وی کو خرید لیا تو رویش کمار نے استعفیٰ دے دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ ان کو نشانہ بنانے کے لیے ہی این ڈی ٹی وی کو خریدا گیا ہے۔ اسی درمیان یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ گوتم اڈانی نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ حالانکہ اس سے قبل ان کی جانب سے بہت کم بیانات آتے تھے۔ لیکن الزامات کی بارش کے دوران انھوں نے ضروری سمجھا کہ کچھ وضاحت کریں۔ لہٰذا انھوں نے پہلے فائنانشل ٹائمز اور الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیا اور پھر دینک جاگرن اور انڈیا ٹوڈے کو۔ اب انھوں نے انڈیا ٹی وی چینل کے معروف پروگرام آپ کی عدالت میں رجت شرما کو انٹرویو دیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا ایک مقصد اپنے اور وزیر اعظم کے اوپر عاید الزامات کا جواب دینا اور دوسرے حزب اختلاف اور بالخصوص کانگریس سے اپنے بگڑے ہوئے رشتے کو استوار کرنا ہے۔
گوتم اڈانی جون 1962 میں احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شانتی لال اڈانی کپڑے کے تاجر تھے۔ وہ سات بھائی بہن ہیں۔ بعد میں بہتر مستقبل کی خاطر ان کے والدین ممبئی منتقل ہو گئے۔ گوتم اڈانی نے احمد آباد سے ہائی اسکول کیا۔ انھوں نے گجرات یونیورسٹی سے گریجویشن کرنا چاہا۔ لیکن پھر ان کو احساس ہوا کہ ان کا میدان تعلیم نہیں تجارت ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کو خیرباد کہا اور ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ایک کمپنی میں ہیرے کی صفائی کا کام کیا۔ 1981 میں ان کے بڑے بھائی من سکھ اڈانی نے احمد آباد میں پلاسٹک بنانے کی کمپنی قائم کی جس کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ اس کے بعد سے ان کے لیے بین الاقوامی تجارت کے دروازے کھل گئے۔ انہوں نے 1985 میں اپنی تجارت شروع کی جو کئی شعبوں میں پھیل گئی۔ ان کی کمپنی کا نام ’اڈانی گروپ‘ ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔ انہوں نے ممبئی کی کچی بستی ’دھاراوی‘ کی تعمیر نو کا ٹھیکہ بھی حاصل کیا ہے۔ ان کی تجارت آسٹریلیا سمیت کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے جب کہ ہندوستان میں کئی ریاستوں میں ان کی کمپنی کام کر رہی ہے۔انھوں نے 1991 میں زراعت، کپڑا اور میٹل کے شعبوں میں کام شروع کیا تھا۔ انھیں 1993 میں گجرات کے مندرا بندرگاہ کی دیکھ ریکھ کا ٹھیکہ مل گیا۔ انھوں نے 1996 میں بجلی کے شعبے میں قدم رکھا اور اڈانی پاور لمٹیڈ قائم کیا۔ یہ کمپنی ہندوستان میں بجلی پیدا کرنے والی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ انھیں آسٹریلیا اور کوینس لینڈ میں بھی بندرگاہوں کی دیکھ ریکھ کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ اس وقت وہ بندرگاہ، ایئرپورٹ، ہیرا، میٹل ، کپڑا، زرعی اشیا اور بجلی وغیرہ کے شعبوں میں تجارت کر رہے ہیں۔
وہ اپنے انٹرویو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تجارتی ترقی میں صرف نریندر مودی کا ہاتھ نہیں ہے۔ اس کے لیے وہ کانگریس کو بھی کریڈٹ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب 1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایکسپورٹ ایمپورٹ کی پالیسی تبدیل کی تو اس سے ان کو بہت فائدہ پہنچا۔ ان کے مطابق اس وقت وہ ناتجربہ کار تھے۔ لیکن انھوں نے سیکھا اور آگے بڑھے۔ انھوں نے چھوٹی کمپنیو ںکو پولیمر سپلائی کرنا شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی عالمی تجارت کی بنیاد وہیں سے پڑی۔ جب 1991 میں ہندوستان میں غیر معمولی کساد بازاری آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو نے کرنسی کی قدر گھٹائی اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے بڑا قدم اٹھایا۔ اس سے ان کی تجارت کو پھر ایک بار زبردست فائدہ پہنچا۔ صرف دو سال کے درمیان ان کا گروپ ہندوستان کا سب سے بڑا عالمی تجارتی گروپ بن گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 1995 میں گجرات کی حکومت نے ساحلی تجارت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔اس سے بھی ان کو فائدہ پہنچا۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کی پالیسیاں بھی ان کی تجارتی ترقی میں معاون ثابت ہوئیں۔ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کو ذاتی فائدہ پہنچایا۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ مودی نے ذاتی طور پر کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچایا۔ انھوں نے بارہ سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جو پالیسیاں وضع کیں ان سے تمام صنعت کاروں کو فائدہ پہنچا۔ اس وقت اڈانی گروپ بارہ ریاستوں میں کام کر رہا ہے اور اڈانی کے بقول سب میں بی جے پی برسراقتدار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت، مغربی بنگال کی ممتا حکومت، اڑیسہ کی نوین پٹنائک حکومت، آندھرا رپردیش کی جگن موہن ریڈی حکومت اور تیلنگانہ کی چندر شیکھر راو حکومت کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ انھوں نے چند ماہ قبل راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس وقت راہل گاندھی نے کہا تھا کہ وہ کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں بلکہ دولت کی مرکزیت کے خلاف ہیں۔ بہرحال ان کی جانب سے راجیو گاندھی اور نرسمہا راو کی حکومتوں کی ستائش کو سیاسی معنیٰ بھی پہنائے جا رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دراصل گوتم اڈانی کو ہوا کی تبدیلی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ شاید 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی ہو جائے۔ لہٰذا کانگریس سے بھی رشتوں کی استواری ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یا تو سیاست داں ہوا کا رخ پہچانتا ہے یا پھر تاجر و صنعت کار۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی جانب سے مزید صفائیاں پیش کی جائیں گی۔ ایک اور بات کا ذکر کر دینا چاہیے کہ انھوں نے رجت شرما کو دیے گئے انٹرویو میں جو انداز گفتگو اختیار کیا وہ بہت ہی سلجھا ہوا تھا۔ کسی بھی سوال پر وہ مشتعل نہیں ہوئے۔ مشکل سے مشکل سوال کا بھی خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی ترقی میں ان کی محنت کا عمل دخل ہے کسی اور کا نہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی یہ بات درست ہو لیکن زبانِ خلق کو تو جھوٹا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے تو نقارہ خدا کہا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *