ترجیحات کا تعین

ابو حمزہ فلاحی
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عصرِ حاضر مادی کمپٹیشن کا دور ہے، جو مختلف شعبوں کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے ( تعلیمی، تجارتی اور ذہنی و نظریاتی کمپٹیشن وغیرہ) اس کمپٹیشن میں ہر فرد بشر اپنی استطاعت و لیاقت کے مطابق طوعا و کرہا دوڑ لگانے کے لیئے تیار کھڑا ہے، اور اس مسابقہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں انسان اپنی محبوب سے محبوب ترین اشیاء بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا، اور یہ اقدام اکثر اوقات خوش آئند بھی ہوا کرتے ہیں، لیکن رب العالمین کی جانب سے ہمیں دیا گیا لقب “امت وسط” کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ قرآن و احادیث سے جو باتیں آشکارہ ہوتی ہیں وہ یہی کہ اسی کے اندر زندگی کو ڈھالنے میں ہی دنیوی و اخروی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ رَسُولَہ۔ ( المؤطا2/899)
میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان پر قائم رہو گے، گمراہ نہیں ہو گے، کتاب اللہ( قرآن) اور اس کے رسولﷺ کی سنت(حدیث)۔”
لہذا بچوں کی مادی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یعنی نہجِ اسلامی پر ذہن سازی کی بہت ضرورت ہے۔ رہی تجارت اور نوکری تو یہ سب سیکنڈری چیزیں ہے، کیونکہ مادی تعلیم اور تجارت یہ سب ضروریات زندگی میں سے ہیں، مسلمانوں کا مقصد وجود تو کچھ اور ہی ہے ، مادی تعلیم اور تجارت یہ سب بہت ہی ضروری ہیں، اس کا کوئ منکر نہیں، لیکن اس سے بھی پہلے ہمیں یعنی بحیثیت مسلمان ذہنی اصلاح کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے، ذہنی اصلاح مفقود ہونے کی بنا پر آدمی اپنے فرائض منصبی سے کوتاہ ہو جایا کرتا ہے اور پھر یہ معاملہ محض کوتاہ تک ہی نہیں رکتا، بلکہ بعض مواقع پر مہلک ایمان کا بھی سبب بن جایا کرتا ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو پہلے اپنے افکار و نظریات اور سوچ کو دین اسلام کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ اگر مسلمانوں کے پاس مال و دولت کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہوں، اعلی سے اعلی تعلیم اور ڈگریاں ہوں، ان سب کو حاصل کرنے کے بعد وہ عارضی دنیا تو کما سکتا ہے لیکن آخرت کا معاملہ تذبذب کا شکار ہی رہیگا۔ اور وہیں اگر اس نے اپنے افکار و نظریات کو دین اسلام کے مطابق اپنا اور ڈھال لیا تو بعض اوقات عارضی دنیا کا معاملہ تذبذب کا شکار تو ہو سکتا ہے لیکن دائمی آخرت کو وہ کما لے گا ۔
نہ تو زمیں کے لیئے ہے نہ آسماں کے لیے
یہ جہاں ہے تیرے لیئے تو نہیں جہاں کے لیے
اگر تعلیم اور مال و دولت ہی دنیا میں لوہا منوانے کی چیزیں ہوتی تو سلطنت امویہ، عباسیہ اور عثمانیہ وغیرہ ان سلطنتوں میں مسلمان تعلیم کا معاملہ ہو یا تجارت یا مال و دولت کا معاملہ، دنیا کے امام سمجھے جاتے تھے۔ لیکن جب جب بھی اس امت نے اسلامی عقائد و نظریات اور اسکی ذہنیت و سوچ سے پہلو تہی کی، اور چند فروعی و جزوی اختلافات کیوجہ سے آپسی انتشار اور چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں منقسم ہوئ تو باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اور انکی وہ لائبریریاں( بیت الحکمۃ لائبریری، القرویین لائبریری مراکش، یحیی بن خالد برمکی لائبریری، اسحق موصلی لائبریری وغیرہ) جس پر اسکو بڑا ناز تھا، جس کے اندر دنیا کے گوشہ گوشہ سے مترجمین اور مصنفین اپنی لیاقت کا لوہا منوانے کے لیئے اور سات سمندر پار اس لائبریری میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیئے طوعا و کرہا رخ کیا کرتے تھے، ایسی لائبریریاں ایک پل میں دریا برد ہو جاتی ہیں اور یہ عالیشان اور بلند و بالا اور دینی و دنیوی مواد سے لبریز مستحکم کتب خانے جس کی صرف مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ عالمی و آفاقی پیمانہ پر اپنی ایک منفرد شان تھی، جسے عالمی مراجع و مصادر کی حیثیت سے دنیا جانتی تھی۔ لیکن اس سے فیض حاصل کرنے والے اعلی سے اعلی تعلیم یافتہ اور ماہرین بھی دشمن کی چالوں اور اسکے حملوں کا بال بیکا بھی نہیں کر سکے۔
اور وہیں اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے بعد خلفاء راشدین جن کے پاس نا ہی کوئی اعلی ڈگریاں تھیں، اور نا ہی وہ بہت بڑے شاعر و خطیب تھے اور نا ہی مال و دولت کی فراوانی، لیکن پھر بھی وہ جس طرف رخ کرلیتے اس سر زمین پر اللہ کا پرچم لہرا دیتے۔ اسکی صرف اور صرف یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے عقائد، نظریات اور سوچ کو دین اسلام کے مطابق ڈھال کر اسی کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا تھا۔
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
تیرا سفینہ کی ہے بحر بے کراں کے لیے
اس مادیت زدہ دور میں مادی مسابقت نے ہمارے ذہنوں کو اسقدر مفلوج کر دیا ہیکہ والدین بھی بچوں کی پیدائش ہوئے ڈھنگ سے ایک دن بھی پورے نہیں ہوتے یا ابھی بچہ ماں کی پیٹ میں ہی جی رہا ہوتا ہیکہ ان سے چاند تارے توڑ لانے جیسی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں، پھر اسی کے مطابق ان کی تربیت اور پڑھائی کا معاملہ شروع کرتے ہیں، اسقدر اونچے اونچے خواب سجا لیتے ہیں کہ گویا ان کی یہی زندگی اصل حقیقی زندگی ہے۔ جبکہ تعلیم اور نوکری دونوں کی راہیں جدا جدا ہیں۔ دین اسلام کے نزدیک تعلیم کا مطلب اور مقصد ہے معرفت ربانی اور رضائے الہی کا حصول ۔ اگر بندے نے اعلی سے اعلی تعلیم اور ڈگریاں سمیٹ لیں لیکن وہ اپنے رب کی شناخت اور اسکو راضی نہ کر سکا تو ایسی اعلی تعلیم اور ڈگریوں کی اسلام کی نظر میں کوئ وقعت اور حیثیت نہیں۔ امرؤالقیس، أعشی، حارث بن حلزہ، عنترہ بن شداد، ابوجہل، ابولہب۔۔۔ جیسے جیسے ممتاز شعراء اور ادباء جو اپنے اپنے وقت کے امام سمجھے جاتے تھے، لیکن یہ ساری صلاحیتیں اور علمی لیاقت ہونے کے بعد بھی اسلام نے انکو “جاہل” لفظ سے ہی تعبیر کیا، کیونکہ وہ اپنے حقیقی رب سے معترف اور اسکو راضی نہ کر سکے۔ ” قارون و نمرود ” جو اس دور کا “بل گیٹس” کیا اسکا مقابلہ کرے، لیکن اسکی اسلام کی نظر میں کیا اوقات ہے آپ بخوبی واقف ہیں۔
ہمارے رب کی ہم پر کتنی رحمتیں ، عنایتیں اور احسانات ہیں جن کا شمار کرنا ناممکن امر ہے، اللہ تعالی نے ہمیں اپنی مقدس و لاثانی کتاب قرآن پاک میں اس دنیا کی سب سے بہترین اور اعلی امت ہونے کا اعزاز و شرف بخشا اور ہمارے مقصد وجود کو بالکل صاف انداز میں واضح کرتے ہوئے فرمایا
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ‌ؕ ( آل عمران ۱۱۰)
ترجمہ:
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کے (ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں) لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس آیت سے جو چیز مترشح اور واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ ہمارا مقصد وجود معروف یعنی بھلی چیزوں کا حکم دینا اور بدی سے روک دینا ہے اور پھر اس کے ذریعے اللہ تعالی کا نائب بندہ بن کر اسکے احکام و قوانین کو تمام ہی ادیان باطلہ پر غالب کر دینا۔ چنانچہ اللہ تعالی سورہ الصف آیت نمبر ۹ میں ارشاد فرماتے ہیں
هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ۔
ترجمہ:وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پُورے کے پُورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ہمارے مقصد وجود پر متعدد آیتیں نازل کی ہیں جن کے ذریعے ہم بآسانی اپنے مقصدِوجود تک رسائ حاصل کر سکتے ہیں۔
نوٹ:- اس مضمون سے یہ مترشح اور واضح ہو جاتا ہیکہ مادی تعلیم اور نوکری یہ ہماری عارضی زندگی کی ضروریات میں شامل ہونی چاہیئے مقصد میں ہرگز نہیں”۔
وما علینا الا البلاغ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *