عرب مسجد میںجامعہ عبداللہ بن امّ مکتوم (پونے )میںزیرتعلیم قوتِ سماعت ،بصارت اورگویائی سےمحروم طلبہ کے مظاہرہ ٔ فن کودیکھ کر مصلیان عش عش کراٹھے ۔آج دو الگ مقام پریہ اپنی صلاحیت کامظاہرہ کریں گے۔بصارت سے محروم حافظ محمدریحان ، عالمیت کا کورس کرنے والے محمداورقوت ِگویائی سے محروم ابوذر کوایک ساتھ عرب مسجد میںدیکھاجاسکتا ہے۔نابینا افراد ،قوتِ سماعت سے اوربصارت سے محروم لوگوں کوعام طور پرمعاشرے میں مجبورسمجھاجاتا ہے اوراہل خانہ کابھی یہی خیال ہوتا ہے لیکن جب یہ اپنی خداداد صلاحیت کا اظہار کرتے ہیں تو دیکھنےاورسننے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔ سنیچر کو بعد نماز ظہر کچھ ایسا ہی منظر سانکلی اسٹریٹ کی عرب مسجد میں تھا جب نا بینا حافظ ،عالم اورگونگے طالب علم نے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ’ سناکر‘ مصلیان کوحیرت زدہ کردیا ۔مصلیان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بینائی سے محروم حافظ محمدریحان (مالیگاؤں) ’بریل‘ قرآن کریم کے نسخے پر انگلیاں رکھ کرمع آیت نمبر تلاوت کررہے ہیں ،اسی طرح نابینا طالب علم محمد (پالن پوری )جو مشکوٰۃ پڑھ رہے ہیں ، احادیث مبارکہ مع عربی عبارت اور ترجمہ سنارہے ہیں، ابوذر (امراؤتی) نام کے گونگے طالب علم کی یہ کیفیت تھی کہ جب سورۂ کوثر پڑھ کربتائی گئی تووہ ہاتھ اور انگلیوں کےاشارے سے اپنے انداز میں پڑھنے لگے۔
یہ معذور طلبہ پونے میں انوارِ ہدایت ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلائے جانے والے جامعہ عبداللہ بن امّ مکتوم میں دینی اورویژن اسکول میںعصری علوم حاصل کررہے ہیں۔ان طلبہ کی صلاحیت دیکھ کرکئی مصلیان نے معانقہ کیا اوراپنی جانب سے نذرانہ بھی پیش کیا ۔
معذور طلبہ کی تعلیم کا نظم اوران کی تلاش
جامعہ عبداللہ بن امّ مکتوم کے ذمہ دار مفتی رئیس احمد اشاعتی جو طلبہ کے ہمراہ موجود تھے، نے استفسار کرنے پر بتایاکہ ’’انہوں نے اپنے استاذ مولانا مزمل سے معلومات حاصل کی ا ورادارۂ دینیات سےاستفادہ کرتے ہوئے ۲۰۱۳ء میںجامعہ کی داغ بیل ڈالی ۔ اب تک ۱۲؍ طلبہ حافظ ہوچکے ہیں اورعالمیت کرنے والے۴؍ طلبہ کا پہلا بیچ آئندہ سال سند ِفراغت حاصل کرے گا۔جامعہ میں ناظرہ، عالمیت ،حفظ ،تجوید وقرأت اورشعبۂ ائمہ میں ۱۵؍ ریاستوں کے ۱۵۰؍ طلبہ زیرتعلیم ہیں ،اس میں ۲۵؍ طالبات ہیں، ان کی تعلیم کے لئے عالمات کانظم کیاگیا ہے۔‘‘
مفتی رئیس احمدکے مطابق ’’ ان طلبہ کی تلاش اور والدین کو اطمینان دلانا کافی مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ اولادخواہ کیسی ہو کوئی ماں باپ اسے جداکرناگوارا نہیں کرتے ،لیکن آہستہ آہستہ یہ مرحلہ طے ہوتا گیا ۔ان طلبہ کی صلاحیت کےاظہار کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگ ایسے طلبہ کوجامعہ میںلائیں تاکہ وہ بھی حصولِ علم کے ساتھ اپنی صلاحیت کا اظہار کرسکیں۔طلبہ کی تعلیم بالکل مفت ہے۔ عصری تعلیم کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ صبح سوا ۷؍ بجے سے سوا ۱۰؍ بجے تک مدرسہ میںتعلیم ہوتی ہے پھرڈیڑھ بجے تک اسکول کی تعلیم ہوتی ہے۔طلبہ کواسکول میں ۸؍سمت والی مخصوص طرز کی سلیٹ دی جاتی ہے ، اس کی مدد سے یہ ریاضی کا علم سیکھتے ہیں،انہیں کمپیوٹر بھی سکھایا جاتا ہے مگر اس میں ماؤز نہیں ہوتا صرف کی بورڈ کی مدد سے چلاتے ہیں۔ ایس ایس سی ،ایچ ایس سی اور گریجویشن کروانے کا بھی نظم ہے مگرطلبہ کی رہائش مدرسے میں ہی ہوتی ہے۔‘‘ مفتی رئیس احمد اشاعتی یہ کہتے ہوئے جذباتی ہو گئے کہ ان کی تعلیم وتربیت امت کی ذمہ داری ہے ، اگر ہم توجہ نہیںدیں گے توکون دیگا۔ ایسے طلبہ کی نشاندہی کریںاورادارہ تک لانے کا ذریعہ بنیں ۔‘‘ اس موقع پرعرب مسجد کے امام مولانا امیر عالم قاسمی ، ٹرسٹیان نثار پٹیل اور بڑی تعداد میں مصلیان موجود تھے۔ معذور طلبہ نے آج ظہر بعدگلشن کالونی ورسوااورمغرب بعد پاکیزہ مسجد میںاپنے فن اور صلاحیت کامظاہرہ کریں گے۔