ہجومی تشدد کے شکار عاصم کی گرفتاری کے بعد ریلوے پولیس سوالوں کے گھیرے میں

آفتاب اظہرؔ صدیقی
قارئین کرام!  سب سے پہلے پدماوت ایکسپریس میں مرادآباد کے کاروباری کے ساتھ ہوئے پر تشدد واقعے کی بات کرتے ہیں، جی آر پی ریل ایس پی اپرنہ گپتا نے صحافیوں کو بتایا کہ کچھ دن قبل دہلی سے مرادآباد ہوکر پرتاپ گڑھ جارہی پدما وت ایکسپریس ٹرین میں مارپیٹ کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے بعد جی آر پی پولیس نے ٹرین میں سفر کر رہے مرادآباد کے پیرزادہ ساکن عاصم کی شکایت پر کچھ نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا، عاصم کا الزام تھا کہ کچھ نوجوانوں نے اسے مخصوص مذہبی نعرے لگانے کو کہا، جب عاصم نے ان کی بات نہیں مانی تو اُس کے کپڑے اتار کر اُسے پیٹا گیا جس کی وجہ سے وہ نیم بیہوش ہوگیا۔
اس کے بعد پولیس کی ابتدائی جانچ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ معاملہ کسی خاتون مسافر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا تھا جس کی بنیاد پر جانچ کو آگے بڑھایا گیا تو یہ خاتون سامنے آئی، اس خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ دہلی سے شاہ جہاں پور جارہی تھی، بھیڑ ہونے کی وجہ سے میں اور میرا بھائی الگ الگ بیٹھ گئے جس کی وجہ سے عاصم نے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، ا سکی یہ حرکت سامنے بیٹھے دو لوگوں نے دیکھی اور اس کو پیٹا، مذہبی نعرے لگانے کو مجبور کرنا جھوٹ ہے۔ وہیں عاصم کا کہنا ہے کہ میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی، مجھ پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے۔
قارئین! واضح ہو کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص کو نیم برہنہ حالت میں کچھ لوگ بیلٹوں سے پیٹتے نظر آ رہے تھے اس شخص کی شناخت عاصم حسین کے طور پر ہوئی اور یہ بھی سامنے آیا کہ یہ ویڈیو پدماوت ٹرین کا ہے۔ اسی ویڈیو کی بنیاد پر دو لوگوں کو جی آر پی کے ذریعہ بریلی اسٹیشن پر گرفتار کرنے کی بات بھی سامنے آئی تھی، حالانکہ ابھی تک یہ بات صاف نہیں ہوئی ہے کہ اُن دونوں مسافروں کو پولیس نے کیوں گرفتار کیا تھا۔
اس واقعے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور دونوں طرف کے دعوؤں پر غور کیا جائے تو پولیس انتظامیہ پر کئی سوال اٹھتے ہیں، آگے بڑھنے سے پہلے واضح رہے کہ عاصم کوئی مولوی یا حافظ نہیں ہے، کچھ افواہ پھیلانے والوں نے اسے مولوی بتانے کی کوشش کی ہے جوکہ غلط ہے، پولیس انتظامیہ نے اپنی جانچ میں یہ تو بتا دیا کہ عاصم نے خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی؛ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اسے بے رحمی سے پیٹنے والے کون تھے، کیا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی یا نہیں؟ عاصم کا کہنا ہے کہ میں نے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی، مجھ پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے، پولیس انتظامیہ نے عاصم کے بیان پر اعتماد کیوں نہیں کیا؟ اگر عاصم مجرم ہوتا تو وہ خود پولیس میں جاکر اپنے پیٹنے والوں کے خلاف تحریر دینے کی پہل کیوں کرتا؟ اگر اسے چھیر چھاڑ کی وجہ سے پیٹا جاتا تو وہ پولیس کے پاس ہی کیوں جاتا؟، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جب عاصم کو پیٹنے والوں نے اسے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے پیٹا تھا تو صرف پیٹنے کی ویڈیو ہی کیوں بنائی گئی، چھیڑ چھاڑ کی ویڈیو بھی بنائی جانی چاہیے تھی تاکہ اسے پیٹنے کی وجہ کا ثبوت باقی رہتا؛ پھر یہ کہ پولیس انتظامیہ کو اس واقعے کے پانچ دن بعدوہ خاتون ملی جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی تھی، اس سے پہلے تک وہ خاتون کہاں غائب تھی؟ کیا ان سوالوں کی بنیاد پر ریلوے پولیس کی ایک طرفہ کارروائی پر مکمل بھروسہ کیاجاسکتا ہے؟ کیا پولیس انتظامیہ انصاف سے کام لیتا ہوا نظر آرہا ہے؟ کیا اس ملک میں کسی کو بھی حق ہے کہ راہ چلتے مسافر کو پیٹ دے؟ کیا عاصم کی ایک بات پر بھی پولیس نے سنجیدگی سے تفتیش کی راہ اختیار کی؟
ٹرین میں شرپسندوں کے ذریعے بری طرح زخمی ہونے والے عاصم کوہی پولیس نے حراست میں لے لیا ہے، جبکہ عاصم کے ذریعے دیے گئے انٹرویو میں اس نے یہ بات کہی تھی کہ کچھ لوگوں نے اسے جے شری رام کا نعرہ لگانے کے لیے کہا اور پھر پیچھے کھڑے ایک شخص نے اسے چور کہہ کر پکارا، بس پھر کیا تھا، شرپسندوں کے ایک ٹولے نے اس کے کپڑے اتارکر اسے پیٹنا شروع کردیا، انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس واقعے کی ویڈیو بھی سامنے آئی؛ لیکن دیکھیے کہ کچھ روز بعد اسی مظلوم شخص کو پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔ جبکہ جس خاتون نے اس پر الزام لگائے ہیں اس کی طرف سے چھیڑخانی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے، کیا ایسا ممکن نہیں کہ رام کا نام بدنام کرنے والے ہجومی تشدد کے مجرموں نے خود کسی خاتون کو تیار کرکے عاصم نامی مظلوم کو ظالم بناکر پیش کرنے کی سازش رچی ہو؟
رام چرت مانس پر کیوں اٹھ رہے ہیں سوال؟
قارئین! کچھ روز سے نیشنل میڈیا، گودی میڈیا یعنی بے حیا میڈیا پر بہار کے وزیر تعلیم کے بیان کو لے کر واویلا مچا ہوا ہے، بہار کے وزیر تعلیم اور آر جے ڈی ایم ایل اے چندر شیکھر پرساد نے رام چرت مانس کو لے کر ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔ وزیر تعلیم چندر شیکھر پرساد نے 11 جنوری کو بہار کی راجدھانی پٹنہ کے باپو آڈیٹوریم میں منعقدہ نالندہ اوپن یونیورسٹی کے 15ویں کانووکیشن کی تقریب میں شرکت کی۔ اس دوران چندر شیکھر پرساد نے اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ رام چرت مانس ایک ایسی کتاب ہے جو سماج میں نفرت پھیلاتی ہے۔نالندہ اوپن یونیورسٹی کے 15ویں کانووکیشن میں چندر شیکھر پرساد نے اپنے خطاب کا آغاز یہ سوال کرتے ہوئے کیا کہ کیا آپ ہندوستان کو نفرت سے مضبوط بنائیں گے یا محبت سے؟ آڈیٹوریم میں بیٹھے بچوں کی طرف سے آواز آئی ”محبت سے“ تو وزیر تعلیم نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک میں کچھ ایسی سوچیں ہیں جو نفرت پھیلانا چاہتی ہیں اور یہ سوچیں آج کی نہیں بلکہ تین ہزار سال پہلے کی ہیں۔ جب منوسمرتی لکھی گئی تو یہ خیالات وہیں سے آئے۔ چندر شیکھر پرساد نے رام چرت مانس کی ایک چوپائی سناتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب شودروں کی توہین کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو نفرت کے بیج بوتی ہے۔
چندر شیکھر پرساد نے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بابا صاحب نے منوسمرتی کو جلایا تھا؛ کیونکہ یہ دلتوں، پسماندہ اور خواتین کو تعلیم سے روکتی ہے۔ آر ایس ایس کو نشانہ بناتے ہوئے چندر شیکھر پرساد نے کہا کہ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیمیں سماج میں نفرت کو فروغ دے رہی ہیں۔ آڈیٹوریم کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چندر شیکھر پرساد نے کہا کہ یہ تحریریں مختلف ادوار میں نفرت کے بیج بوتی ہیں۔ ایک دور میں منوسمرتی، دوسرے دور میں رام چرت مانس اور تیسرے دور میں گولوالکر کے خیالات کے گروپ نے نفرت پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
قارئین کرام! بہار کے وزیر تعلیم نے صحیح بیان دیا یا غلط اس پر گودی میڈیا کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی، ہم بہار سرکار سے اپیل کرنا چاہیں گے کہ آپ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کیجیے اور وزیر تعلیم کو ہندو گرنتھوں یا کتابوں کی جن جزئیات پر اعتراض ہے ان پر جانچ کرانے کا مطالبہ کیجیے تاکہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں محققین کی ٹیم تشکیل دی جائے اور وہ آئین ہند کی روشنی میں یہ طے کرپائیں کہ منوسمرتی، رام چرت مانس اور ان جیسی کتابوں میں جات پات، اونچ نیچ کی بات کی گئی ہے یا نہیں، آیا ان کتابوں میں نفرت کو بڑھاوا دیا گیا ہے یا نہیں، ویسے یہ بات تو محقق ہے کہ بھارت کا آئین تیار کرنے والوں میں اہم رول اداکرنے والے بابا صاحب امبیڈکر نے خودمنوسمرتی کو جلا دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *