
۹۰؍فیصد ’اسٹارٹ اپ‘ کمپنیاں ناکامی سے دوچار
(معیشت ڈیسک)
ہندوستان میں ’اسٹارٹ اپ‘ یعنی نئی کمپنیوں کا غبارہ بھی پھوٹ رہا ہے یا تقریباً پھوٹ گیا ہے ۔ چند سال پہلے تک جن ’اسٹارٹ اپ‘ کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی جاتی تھیں آج وہ باتیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سال میں ۹۰؍فیصد اسٹارٹ اپ بند ہوگئےہیں۔
جن کمپنیوں کے انتہائی تابناک اور روشن مستقبل کی قسمیں کھائی جاتی تھیں آج وہ کمپنیاں کسی گمنام تاریکی میں ڈوب چکی ہیں۔ ہندوستان میں ’اسٹارٹ اپ‘ کی کامیابی کیلئے بہت ساری دلیلیں گنائی گئی تھیں جیسے کہ ہندوستان کی مارکیٹ بہت بڑی ہے ، ہندوستان میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ، ہندوستان میں ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں اور ہندوستان کی معیشت بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل حقیقت ثابت نہیں ہوئی اور آج بزنس اخبارات بتارہےہیں کہ اسٹارٹ اپ کمپنیاں زبردست ناکامی سے دوچار ہیں۔
فیل ہونے والی اسٹارٹ اپ کمپنیوں میں ہر شعبہ کی کمپنیاں ہیں جیسے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی ، فوڈ ڈیلیوری ، ہوٹل انڈسٹری، آن لائن شاپنگ، فائنانس، سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ایف ایم سی جی، ریڈی میڈ فوڈ، ایجوکیشن، لاجسٹک ، ای کامرس وغیرہ وغیرہ ۔ بہرحال ’فوڈ ڈیلیوری‘ اور ’آن لائن شاپنگ ‘ کمپنیوں کی تعداد ان میں زیادہ ہے۔دراصل ہندوستان میں ’اسٹارٹ اپ ‘ کے بارے میں بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتایا گیا تھا۔ انتہائی مضحکہ خیز اعدادو شمار بتائے گئے تھے اورکامیابی کی پیشگوئی کرتے ہوئے ایسے ایسے جواز دئیے گئے تھے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔
وہ اسٹارٹ اپ جنہیں ہم آج بہت کامیاب تصور کرتےہیں ان کی بھی حالت کم ہی لوگ جانتےہیں۔ جن ’اسٹارٹ اپ‘ کو کامیاب سمجھا جاتا ہے ان میں دو بڑے نام ہیں۔ ایک نجی ٹیکسی کمپنی ’ اولا‘ اوردوسری فوڈ ڈیلیوری کمپنی ’ زومیٹو‘ ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کمپنیاں بھی اب تک خسارہ میں ہی ہے۔ کمپنی شروع ہونے کے اتنے سال بعد آج بھی ’اولا‘ اور ’زمیٹو‘ منافع کمانے کیلئے جدوجہد ہی کررہےہیں ۔ زومیٹو کی حالت تو یہ ہے کہ پچھلے سال یہ کمپنی جب اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہوئی تھی اس وقت اس کے ایک شیئر کی قیمت ۱۲۰؍روپے تھی جو آج آدھی یعنی ۶۰؍روپے کے قریب پہنچ گئی ہے ۔ ’اسٹارٹ اپ ‘ کمپنیوں کی زبردست ناکامی کے بعد وہی لوگ جو اسٹارٹ اپ کی کامیابی کی ضمانت دیتے تھے اب ان کمپنیوں کی ناکامی کی وجوہات بیان کررہےہیں اور یہ وجوہات بھی اتنی ہی واہیات ہیں جتنی کہ پہلے والی دلیلیں تھیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بزنس میں ۹۰؍فیصد جوکھم ہی ہوتا ہے اور بزنس کے کامیاب ہونے کی امید ۱۰؍فیصد ہی ہوتی ہے۔دراصل وہ ۱۰؍فیصد جو کامیاب ہوجاتےہیں ان کا نام اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ ناکام ہونے والی ۹۰؍فیصد کمپنیاں اس چکاچوند میں نظر ہی نہیں آتیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہےکہ ہر نئی کمپنی اتنی ہی زبردست کامیابی سے ہمکنا ر ہوگی۔ اس نکتہ کو مکمل طو رپر فراموش کردیا جاتا ہے کہ چند ایک ’اسٹارٹ اپ‘ کی زبردست کامیابی تمام ’اسٹارٹ اپ‘ کی کامیابی کی ضمانت قطعی نہیں ہوسکتی۔
اسٹارٹ اپ کی یہ ناکامی مودی حکومت کی ’میک ان انڈیا‘ اور ’اسٹارٹ اپ انڈیا‘ جیسی اسکیموں کے باوجود ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں بزنس کو فروغ دینے اور نئی کمپنیوں کی مدد کرنے میں حکومت کی کوئی بھی اسکیم کام نہیں آئی۔ان اسکیموں کی ساری کامیابی صرف سرکاری اشتہارات تک ہی محدود تھی۔