خرقہ پوش اور بوریا نشینوں کا مقصد

مدرسوں کا مقصد کبھی بھی پیسوں کے لئے امامت، خطابت اور مؤذن پیدا کرنا نہیں تھا، مدرسوں کا مقصد بنیادی دین کی تعلیم دینا اور دین شناس نسل پیدا کرنا تھا۔ ایسی نسل جو موٹ جھوٹا، کھالے، ہلکا پہلکا پہن لے، آرام و راحت کی خوگر نہ ہو، دنیا سے زیادہ واسطہ نہ رکھے، فقیری میں بھی امیری کرے، روکھا سوکھا کھاکر بھی دین کو سینے سے لگائے رکھے اور سر زمین ہند پر اسلام کو باقی رکھے۔

اسی لئے جس زمانے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ، جامعہ ملیہ، جمالیہ کالج جیسے دسیوں کالجس قائم ہوئے، ٹھاٹھ کی بلڈنگیں بنیں، مسلمانوں کی حالت آج سے کافی اچھی تھی، اچھے پکے مدرسے بھی بن سکتے تھے لیکن جوہر شناس بزرگوں نے بوریا نشینی کے لائق کچے مدرسے بنائے، درختوں کے نیچے بیٹھنے اور بٹھا کر “قال اللہ قال الرسول” کے ذکر و فکر کو ترجیح دی، مسجد نبوی کی کچی چھت، اور اہل صفہ کے ننگے بھوکے طلبہ لیکن شہداء بئر معونہ و رجیع کے علماء انکے نمونے تھے۔ اللہ کے رسول کے پیٹ پر بندھے پتھر کے ساتھ “وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ كی صدا ہمیشہ انھیں جھنجھوڑتی رہی۔

مسلم کالجس کے ذمہ دار الحاق کے لئے انکے پیچھے پھرتے اور یہ انکار کر دیتے، کہتے کہ ہمیں حکومت کے کارندے پیدا کرنا نہیں وہ کام تو آپ ہی کو مبارک ہو، ہمیں تو ابوھریرہ اور ابوذر، بخاری و مسلم ابوحنیفہ و مالک رضی اللہ عنہم، جنہیں حکومت سے دوری کے نتیجے میں جلا وطنی اور کوڑے ملے، انکے وارثین پیدا کرنا ہے، جو رات میں کپڑے دھو کر صبح میں پہن لیتے جن کے پاس کبھی سواری نہ تھی۔ انکا جذبۂ جنون تو یہ تھا کہ اگر کوئی فارغ حکومت کی نوکری کر لیتا تو اس دکھ سے سوتے نہیں کہ ایک اسلام کا سپاہی کھو گیا۔

علماء نے مدرسے قائم کئے تو اس بات کا خاص خیال رکھا کہ فارغین دنیا سے بالکل آشنا نہ رہیں، زھد و ورع انکی پہچان ہو، “جاءكم يعلمكم دينكم” جن كا مقصد ہو، “انتم اعلم بأمور دنياكم” جنكا شعار ہو۔ “ما لي وللدنيا؟، ما أنا في الدنيا إلا كراكب استظل تحت شجرة، ثم راح وتركها” جنكا پیغام ہو۔ انہوں نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو للکارا جو آگیا اسے لے لیا، تربیت کی اور محاذ پر بھیجا، جو نہ آیا اس سے کہا

یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

اعتراف حقیقت ایمان کا حصہ ہے ہزار اختلاف کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس مقصد میں قاسم نانوتوی رحمہ اللہ، انکے شاگرد اور انکے مدرسے دیوبند اور اس سے متعلقہ اداروں کے فارغین نے جو خدمات انجام دیں شاید ہی کسی اور مکتبہ فکر کے فارغین نے کیا ہو۔ آج بھی گاؤں گاؤں قریہ قریہ شہر سے کوسوں دور جہاں کوئی سہولت بھی نہیں وہاں قاسمی یا ان سے متاثرہ افراد ٹمٹماتے اسلامی چراغ کی حفاظت میں نظر آتے ہیں۔

ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ

تجدد پسند، مقصود دین سے نابلد افراد اور تنظیموں نے علماء کو حالات حاضرہ نہ جاننے کا طعنہ دیکر آہستہ آہستہ انھیں دنیوی علوم کی طرف ڈھکیلا پھر حسب عادت دین اور دنیا کا ایک ملغوبہ بنایا، عالم انجنئیر اور ڈاکٹر عالم کے جھوٹے نعرہ میں بہت کشش تھی، اسی قسم کے مدارس بھی شروع ہوگئے، جہاں کے فارغین نہ ہی لمبی داڑھی رکھ سکتے ہیں نہ ہی اسے منڈا سکتے ہیں، نہ ہی عمامہ پہن سکتے ہیں نہ ہی پاپ بال رکھ سکتے ہیں، نہ ہی تہبند پہن سکتے ہیں نہ ہی شارٹ پہن سکتے ہیں، نہ ہی انگریزی بول سکتے ہیں نہ ہی عربی بول سکتے ہیں۔ نہ ہی امامت کرسکتے ہیں نہ ہی بزنس کرسکتے ہیں، ہر جگہ وسطیت اور اعتدال کی تلاش میں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔

کچھ دھائی قبل جب سعودی جامعات کے دروازے کھلے تو سلفی علماء نے بھی بالکل پسند نہیں کیا کہ فارغین مدرسہ وہاں جائیں، اسماعیل گوجرانوالہ سلفی رحمہ اللہ اسکی شدت سے مخالفت کرتے رہے۔ انکا خدشہ بالکل صحیح تھا کہ وہاں کے صوفے اور قالین وہاں کے اے سی اور عمارتیں، فارغین کے قدم روک لینگی، پھر ہمارے مدرسے، مسجدیں، مرکز فارغین کے لئے روتے رہ جائنگے اور انکا خدشہ صحیح تھا،

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے ترے فارغین کی تن آسانی

ریال کی کشش نے فارغین کی عزت نفس کا انکی تعلیم کا وہ ستیاناس کیا کہ الامان والحفیظ، وارثین بخاری وابن تیمیہ کو میری آنکھوں نے حمامات صاف کرتے، گاڑیاں دھوتے، ٹیکسی چلاتے، چنے بیچتے، حمالی کرتے، اور بھی بہت کچھ کرتے دیکھا، یہ انکی مجبوری نہیں تھی یہ انکی شکستگی تھی، مقصد زیست سے لگاؤ کی کمی تھی، انہی کے ساتھی ہندوستان میں روکھی سوکھی میں عزت سے گذارہ کرتے رہے۔

سلفی مکتبہ فکر کے فارغین کی کھیپ کی کھیپ سعودیہ کے جامعات سے مستفید ہوتی رہی اور اکثریت پھر وہیں کی ہوگئی، جو نہ جاسکے اسی تمنا میں دن گذارتے رہے

تمنا تری ہے اگر ہے تمنا
تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

بعض جب لوٹے تو علم ومنہج کے ساتھ ساتھ سعودیہ کا ٹھاٹھ باٹھ شان و شوکت بھی ساتھ لائے، زھد و ورع کا درس عنقا ہوگیا، اباحت کا درس خوب پھلا پھولا، اباحت کے سہارے علماء کی سادگی کھانے پینے پہننے میں عادت و اطوار میں سفر وحضر میں سب سے مفقود ہوگئی۔ رسم اذان رہ گئی روح بلالی نہ رہی، کردار کی جگہ گفتار نے لے لی، تعلیم کی جگہ تقریر نے لے لی، علمیت کی جگہ عوامی مقبولیت معیار بن گئی یوں أمرا نما علماء یا علماء نما أمرا کی بہتات ہوگئی، اور سیدھے سادھے، متواضع، الله والے علماء کی کمی ہوگئی، کامیاب عالم کا معیار ہی بدل گیا، کامیاب عالم وہ ہوگیا جو کار نشین ہو، جہاز نشین ہو، اچھا کھاتا پیتا ہو، رکھ رکھاؤ والا ہو۔
یوں مدرسہ اور عالم کا مفہوم ہی بدل گیا۔
اب رہ رہ کر اکثر سلفی یا اخوانیت سے متاثر فارغین سے یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ مدرسوں کا فائدہ کیا ہے؟ اسکی ڈگری معترف کیوں نہیں؟ نصاب عصری کیوں نہیں؟ مولویوں کی تنخواہ کم ہے، مولویوں کی قیمت کم کیوں ہے؟ مولوی کدھر جائیں؟
یہ بھول گئے کہ مدرسے کا مقصد کیا یے۔
مدرسے کا کوئی ذمہ دار کبھی آپ سے یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کو نوکری دلائنگے، جبکہ سارے مشہور کالجس آپ کو اچھی نوکری دلانے یا ملنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

جان لیں کہ مولویت ایک فن نہیں، ایک پیشہ نہیں، ایک بزنس نہیں، مولویت اچھی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ آپ کی مولویت کسی پر احسان نہیں۔ اللہ کا دین آپ کا محتاج نہیں۔ اللہ نے صاف کہدیا وان تتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يكونوا أمثالكم كعبہ کو پاسباں صنم خانے سے مل جائنگے، عرب نہ سہی عجم آجائنگے عجم نہ سہی ترک آجائنگے، یہاں دنیوی اعتبار سے فرزانوں کی نہیں دیوانوں کی ضرورت ہے، یہاں سب کچھ لٹانے کے بعد ربح صهيب ربح صهيب کا پروانہ ملتا ہے۔ یہاں وصیت کی گئی کہ
واتخذْ مؤذنًا ، لا يأخذُ على أذانِه أجرًا
وارثین نبی بھول گئے کہ انکا ورثہ علم ہے دینار و درہم نہیں۔

مولویت وراثت نبوت ہے، وراثت صحابہ ہے، وراثت ائمہ ہے، یعنی علم کی وراثت، بھوک میں خود داری کی وراثت، فقر میں عزت نفس کی وراثت، دعوت وتبليغ کے لئے جیلوں کی وراثت، کلمہ حق کے لئے شہادت کی وراثت، ہر قربانی کے صلہ میں صرف اسکی رضا کی وراثت۔۔۔۔

آپ مولوی بننے پر مجبور نہیں، لھذا براہ کرم آپ زبردستی نہ مولوی بنیں، نہ مولوی رہیں، نہ مولویت کریں، نہ مولویت کا روپ دھاریں، پیسوں کا مطالبہ کرکے بوریہ نشینوں کی توہین نہ کریں، مولویوں کی غربت پر نہ جائیں، یہاں فقر پر فخر ہوتا ہے، یہاں نیزے کھاکر فزت برب الكعبه کا نعرہ لگتا ہے، انکی متاع دین ودنیا ابتلاءات ہیں، آپ کیوں ادھر کا رخ کرتے ہیں،

انکے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

یہاں دینے کی تمنا میں جان بھی دے دی جائے تو کم محسوس ہوتا ہے۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا،

براہ کرم انھیں معاف رکھیں، انکی دنیا الگ ہے اور آپ کی دنیا الگ

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

اے اللہ ترے دین کے لئے زندہ رکھ، ترے دین کے لئے موت دے، ترے دین والوں کی خبرگیری فرما، ترے دینداروں کے بدخواہوں کو دیکھ لے۔

شیخ عبدالسلام عمری مدنی مؤسس اسپائر کالج آف ایکسیلینس برائے اسلامی تعلیمات چنائی اور بنگلور امیر جمعیت اہلحدیث چنائی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *